سیّد علی شاہ گیلانی / مردِ آزادی ۔۔۔۔۔ رئیسہ غوری

تحریر : رئیسہ غوری

اللّٰہ مغفرت کرے سید علی گیلانی کی۔۔۔۔۔ نجانے کیوں مجھے یقین پیہم سا ہے کہ صعوبتوں بھری زندگی بسر کرنے والے بابے کو اللّٰہ نے اُس جہاں میں اپنی رحمتوں کے سائے تلے سکون و آرائش سے نواز رکھا ہو گا۔ فانی دنیا کی غیر مہذب اسیری سے جان چھڑا کر ابد کی آزاد راہوں اور جنت کی آزاد فضاؤں میں رب کے حضور پیش ہو گئے۔ وہ محبّ وطن، وہ محبّ اسلام، وہ درویش صفت انسان تھے۔
سید علی گیلانی ایک شخص کا نام نہیں، وہ ظلم و استبداد کے مقابل مزاحمت کی ایک تحریک کا بامعنی استعارہ ہے۔ سید علی گیلانی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ جدوجہد آزادی کے ایک پورے عہد کا نام ہے۔ سید علی گیلانی بہادری اور استقامت کا وہ روشن نام ہے جس کا ذکر داستانوں میں ملے گا۔ مائیں اپنے بچوں کو جس کی بہادری کے قصے سنایا کریں گی۔ ظلم و جبر کے سامنے جب بھی مسلسل اور مستقل مزاحمت کا ذکر ہو گا تو آنے والی نسلوں کو سید علی گیلانی کی یاد آئے گی۔
جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے متاثر سید علی گیلانی کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ ان کی اپیل پر وادی میں زندگی بند بھی ہوتی رہی اور رواں بھی۔ سید کی مقبولیت درحقیقت ان کے مؤقف کی پذیرائی تھی۔ یہ وادی میں نسل درنسل منتقل ہونے والا مؤقف ہے۔ عمر جوں جوں ڈھلتی رہی ان کے لہجے کی گھن گرج کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہی۔ علم و ادب، شعر و سخن سے شغف نے ان کے طرزِ خطابت کو نکھار دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک دلیر راہنما کے طور پر بہت پہلے سامنے آ چکے تھے۔
92 سال کے سید علی گیلانی کارزارِ حیات میں اپنا کردار کس شان سے نبھا گئے کہ ان کی شخصیت بہادری اور مزاحمت کے ہر شعر کے آئینے میں معنویت کے ساتھ جگمگانے لگی۔
میرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِکفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
آخری دنوں کی ایک وڈیو فیس بک پر موجود ہے جس میں یہ عظیم مجاہدِ آزادی بیمار، کمزور اور نخیف دکھائی دے رہا تھا مگر زبان پر کلمے کے ساتھ پاکستان کا نام ہے۔ جو کوئی اہلِ دل ہو گا وہ اس وڈیو کو دیکھ کر آبدیدہ ضرور ہو گا۔ وہ تمام عمر ظلم اور جبر کے سامنے ایک چٹان بن کر کھڑے رہے، یہاں تک کہ ان پر زندگی کی شام اتر آئی۔ وقت نے اپنے برفاب لمحے ان پر اتارے، بالوں پر چاندی جگمگانے لگی، باریش مجاہدِ آزادی بظاہر بوڑھا اور کمزور نظر آتا تھا مگر وہ جبر کے طاقتور نظام کے سامنے کسی چٹان کی مانند ایستادہ رہے۔ یہاں تک کہ ظلم کے پروردہ موت کی بانہوں میں بھی ان کے ٹھنڈے جسدِ خاکی سے خوف زدہ رہے۔ کشمیریوں کو لیڈر کا آخری دیدار تک نہ کرنے دیا۔ سید علی گیلانی جن کے جانے سے عام کشمیری سے لے کر کشمیری رہنماؤں تک سب خود کو یتیم محسوس کر رہے ہیں۔ آخری وقت تک ان کے کمزور جسم کی رگوں میں دوڑنے والا لہو آزادی کی تال پر دھمال ڈالتا رہا۔ تخلیق کرنے والے نے ان کے اندر کبھی نہ جھکنے والی روح کو پھونکا تھا۔ اسی لئے تو ظلم کے سارے ضابطے اور جبر کے سارے قاعدے اس بوڑھے مجاہدِ آزادی کے سامنے دم توڑتے رہے۔ میرے پاس ایسے عظیم الشان الفاظ نہیں ہیں جو سید علی گیلانی کے عزم، استقامت اور آزادی کے لئے طویل اور پُروقار جدوجہد کا احاطہ کر سکیں۔ ہمارے تصور کے دائرے میں اس زندگی کا تصور سما ہی نہیں سکتا جو زندگی سید علی گیلانی نے استبداد سے لڑتے ہوئے گزاری۔ زندگی کے کئی قیمتی سال بھارتی جیلوں میں گزار دیے۔ ظلم کے نظام سے سمجھوتا کرنے والے سارے امکانات یہ کہہ کر رد کر دیے کہ زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں جس کے لئے عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لوں۔ ہمارے لئے تو محض اشعار ہیں۔ چند لمحوں کے لئے لہو گرما دینے والے اعلیٰ و ارفع خیالات ہیں مگر سید علی گیلانی کے لئے زندگی گزارنے کا واحد راستہ یہی تھا۔ جبر کے نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا۔ مساوات اور آزادی کے لئے جدوجہد کرنا۔ ان کی زندگی، زندگی نہیں۔ زندگی کے عظیم خواب اور آرزوئیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سے اپنی زندگیوں میں ایسے بڑے خوابوں اور بڑی آدرشوں کے ساتھ شاہراہِ حیات پر آغازِ سفر کرتے ہیں۔ لیکن پھر زندگی کی حقیقتوں کے سامنے جلد ہمارے آئیڈیلز، ہماری آدرشیں ہانپنے لگتی ہیں۔ اپنے آئیڈیلز پر سمجھوتا کر لینے والے کبھی داستانوں کے کردار نہیں بنتے، اس کے لئے سید علی گیلانی جیسا ہونا پڑتا ہے۔
سید علی گیلانی ایک سچے مومن کے جیسی مجاہدانہ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ جب سید کی رحلت کی خبر سنی تو محسوس ہوا کہ وہ تکلیف اور اذیت سے بھری طویل عمر گزار کر کارزارِ حیات سے سُرخرو ہو کر اپنے رب کی طرف لوٹے ہیں۔ میں تصور میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک سچا مومن رسولِ پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنے مرشد اقبال ہی کے الفاظ میں عرض گزار ہے کہ :
حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں
جو شے ہے اس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں
مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے سید علی گیلانی خود امت کی آبرو بننے والے چنیدہ مومن تھے۔ ایک طرف لاکھوں کشمیری شہیدوں کا ہے لہو پکارتا اور دوسری طرف استبداد کے سامنے کلمہ حق کہنے والے علی گیلانی کا بلند آہنگ سنائی دیتا ہے۔ اس آواز کا بانکپن اور اس کی بازگشت صدیوں تک دلوں کو گرمائے گی۔ سرسبز پہاڑوں سے ٹکرائے گی اور اہلِ کشمیر کی ڈل جھیل کے پانیوں پر ارتعاش پیدا کرتی رہے گی۔۔۔۔۔ سید علی گیلانی۔۔۔۔۔ ملنے کے نہیں نایاب ہو تم۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*