نظریاتی و مفاداتی شخصیات کے ظاہر و باطن میں فرق : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

نظریاتی شخصیات کے ظاہر و باطن ،قول و فعل اور نظریے و عمل میں توازن ہوتا ہے جبکہ مفاداتی لوگوں کا عمل مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔ ۔ بات چیت میں وہ ہر ایک کے ساتھ اتفاق کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے مفادات کو انہوں نے محفوظ کیا ہوتا ہے۔ خوبصوت الفاظوں سے اپنے مخالفین کو غیر مسلح کرنے کا وہ بہترین فن جانتے ہیں۔ ایسے ہی ایک فنکار سردار مسعود خان ہیں جنکا آزاد کشمیر سے برائے نام تعلق ہے۔ان کی سفارتکاری کا کمال یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک میں سفارتکار رہنے کے علاؤہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کا نمائندہ رہے مگر جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر کبھی زبان نہیں کھولی۔ اس کے باوجود انہیں ایک کامیاب سفارتکار قرار دے کر دفتر خارجہ سے اٹھاکر یہ کہہ کر صدر آزاد کشمیر بنا دیا گیا تھا کہ وہ ایک کامیاب سفارتکار کی حیثیت سے مسلہ کشمیر کے حل کے لیے دنیا کی حمایت حاصل کریں گے۔ اب سادہ لوح کشمیریوں کو کون بتاتا کہ جو آدمی اقوام متحدہ میں بیٹھ کر کشمیریوں کے لیے کچھ نہ کر سکا وہ آزاد کشمیر میں پاکستان کا نمائندہ بن کر کیا کرے گا؟ اس پر ہمیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ صاحب آزاد کشمیر کے صدر کی حیثیت سے بھی پانچ سال پورے کر کے فارغ ہو گے ہیں اور اب افوائیں ہیں کہ ان سے وہی پرانی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ انگریز کہتے ہیں (ترجمہ) نا کہ ناواقف بھوت سے واقف بھوت بہتر ہے۔ سردار مسعود خان کا تین سال قبل ہمارے نظریاتی ساتھی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانیوں میں شمار ہونے والی شخصیت راجہ مظفر خان جو امریکہ میں تحریک آزادی کشمیر کے جرم کی پاداش میں ایک مہاجر کی زندگی بسر کر رہے ہیں کے ساتھ ملاقات میں اپنی سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں سیاسی و سفارتی طور پر غیر مسلح کرنے کے لیے آزاد کشمیر کے حقوق اور اختیارات کی بات کرتے ہیں لیکن راجہ مظفر جیسی نظریاتی شخصیت کو الفاظوں سے غیر مسلح کرنا آسان نہیں کیونکہ نظریاتی اور با عمل لوگ دعوے نہیں عمل دیکھتے ہیں۔ مسعود خان کا بطور صدر پانچ سال کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ راجہ مظفر کے ساتھ وہ آزاد کشمیر کے جن حقوق اوراخیارات کی بات کرتے ہیں انکے حصول کے لیے انہوں نے بطور صدر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ پھر بھی وہ اپنے سفارتی اور صدارتی دور کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔ راجہ مظفر خان صاحب نے ایک نظریاتی شخصیت کے طور پر سردار مسعود خان سے جو گفتگو کی اس پر وہ آج بھی قائم ہیں لیکن سردار مسعود خان کل بھی الفاظوں سے کھیلتے تھے اور آج بھی۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں تنخواہ لینے کے علاؤہ جموں کشمیر کے لیے تو کچھ نہ کیا لیکن راجہ مظفر خان، الطاف قادری، فاروق صدیقی اور ساتھیوں نے بحثیت مہاجر پھر بھی کسی نہ کسی حد تک سیاسی و سفارتی طور پر جو کیا اس کی آواز کہیں نہ کہیں سنائی دیتی ہے۔

تیس ستمبر 2018 کو راجہ مظفر صاحب نے سردار مسعود خان کے ساتھ گفتگو کی روشنی میں جو تحریر لکھی وہ یہاں سردار مسعود خان کو دوبارہ سفارتی منصب ملنے کی افواہوں کے تناظر میں شئیر کی جا رہی ہے

ٹیکساس امریکہ :-
"جناب سردار مسعود خان صاحب صدر آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر سے کوئ تئیس سال ۲۳ سال بعد ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں ایک نجی تقریب کے دوران ہوئ ۔
ان کے اعزاز میں یہ دعوت آزاد کشمیر کے ایک ممتاز جیورسٹ خواجہ غلام دین عشائ صاحب مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر داود عشائ صاحب نے دی جس میں ان کے دوست احباب نے شرکت کی ۔
میں ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ طلعت عشائ صاحبہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں مدعو کیا اور صدر صاحب سے ملاقات اور پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع دیا۔

عشائ صاحب کے دولت کدہ پر ظہر انہ کے دوران صدر آزاد کشمیر سے علیحدگی میں بھی گفتگو کا موقع ملا ،

آذاد کشمیر میں نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کے حوالہ سے پیدا بے چینی کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئ ،
صدر آزاد کشمیر نے خود اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوے کہا کہ ضروری ہو گیا ہے کہ تمام منصوبوں پر حکومت پاکستان سے باضابطہ تحریری
معاہدے کئیے جایں ۔

میں نے صدر صاحب سے کہا کہ کشمیر کے سیاسی مستقبل پر میرا آپ سے نظریاتی اختلاف ہے مگر میری خواہش ہے کہ میرا صدر میرا وزیر اعظم با اختیار ہو ۔
ان کی اپنی ایک بین الاقوامی پہچان ہو ۔ آپ کی صلاحیتوں میں کوئ کمی نہیں ۔ کمی ہے تو اختیار کی ہے اور اختیار اعتبار و اعتماد سے آتا ہے ۔
وہ میری بات کا مطلب سمجھ گے اور مشورہ دیا کہ میں راجہ فاروق حیدر صاحب سے بھی رابطہ کر کے انہیں بتایں ۔ انہوں نے بتایا کہ فاروق حیدر اچھے کام کر رہے ہیں ۔
ضیافت میں زیادہ تر کشمیری اور پاکستانی ڈاکٹر مدعو تھے۔
ان کی تقریر اور سوال و جواب کے چیدہ چیدہ نکات پر الگ سے لکھوں گا.”

تعارف: قیوم راجہ

ایک تبصرہ

  1. مفاد پرستوں اور سہولتکاروں کے دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور کھانے کے اور ازمائے ہوے کو دوبارہ ازمانا جہالت ہوتی ہے کلیدی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود کچھ نہیں کیا تو اب امید کس بات کی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*