تحریر : ابو عکراش
حکمران جب چور بن جائیں تو ملک میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے یہ وہ جملہ ہے جو ایماندار حکومت کے آنے سے پہلے ہم سنا کرتے تھے ،کسی حد تک ہمیں بھی لگتا تھا کہ شاید یہ جملہ حق و سچ پہ مبنی ہو اور یہ نعرہ مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی بھلائی کے لئے لگایا جا رہا ہو، مگر یہ کیا یہ نعرہ تو الٹا ہمارے گلے پڑگیا ، جب سے ہمارے ایماندار خان صاحب کی حکومت آئی ہے تب سے مہنگائی بڑھتی ہی جا رہی ہے اس ایماندار کے تین سالہ دورِ حکومت میں ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے آئے روز پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ اور سوال کرنے پہ ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ پہلے کے حکمرانوں نے مصنوعی طور پہ مہنگائی کو قابو کیا ہوا تھاہم معیشت کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے لگے ہیں اس لئے مہنگائی کرنا مجبوری ہے۔ یہ کیسی معیشت ہے جو تین سال تک پیروں پہ کھڑی نہیں ہو رہی الٹا معیشت کے پاؤں کٹتے جا رہے ہیں ۔
اب تو یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ معیشت کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کے چکروں میں معیشت کے پورے پاؤں کاٹ بیٹھیں اور پھر کبھی کھڑی ہی نہ ہوسکے ۔
خان صاحب کی سچائی اور ایمانداری پٹرول کے علاؤہ دالوں ، چاولوں ، سبزیوں ، پھلوں حتی کہ سگریٹ اور ماچس پہ بھی قہر بن کر ٹوٹ رہی ہے ،میں اگر یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ خان نے اپنا پورا غصہ پاکستانی روپے پہ نکالا ہے روپے کی قدر میں کمی کے علاؤہ باقی سب چیزیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے طریقہ واردات اس طرح تھا کہ اوگرا کی جانب سے پانچ روپے بڑھانے کی سفارش کی جاتی تو دو روپئے بڑھا کر عوام کو دلاسہ دیا جاتا کہ خان اگر چاہتا تو پورے پانچ روپے بھی بڑھا سکتا تھا اس نے دو روپے بڑھا کر قوم پہ احسان کیا ہے ، چلتے چلتے بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اوگرا کی جانب سے دو روپئے بڑھانے کی سمری آتی ہے تو خان پانچ روپے بڑھا دیتے ہیں۔
پہلے ہی لوگ محدود آمدنی میں اپنا گزارا کر رہے تھے پھر ایک طرف کورونا نے سخت مشکلات پیدا کیں تو دوسری جانب ہماری ایماندار حکومت اپنا زور لگائے ہوئے ہے ، لوگ اس حکومت میں بھیک مانگنے اور خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہوگئے ہیں۔ سفید پوش آدمی دو وقت کی روٹی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔جن فیکٹریوں میں لوگ مزدوری کر کے گھر کا چولھا جلایا کرتے تھے وہ لوگ فیکٹریوں کے بے دخل ہوچکے ہیں ، مختصر بات یہ کہ پوری معیشت تباہ حالی کا شکار ہے ،
دوسری جانب ہماری حکومت کے وزرا و ترجمان ہمہ وقت تعریفوں کے انبار لگائے بیٹھے ہیں ، سرکاری سطح پہ معیشت کی بہتری کے اقدامات کرنے کے بجائے عوام کو مزاحیہ مشورے دیئے جا رہے ہیں ، ہمارا ایماندار وزیر اعظم کہہ دیتا ہے پاکستان میں مہنگائی پوری دنیا سے کم سطح پہ ہے ، کسی دن کوئی وزیر بیان دے بیٹھتا ہے کہ مہنگائی زیادہ ہے تو عوام روٹی کم کھائے۔
ان وزرا کے بیانات سے کبھی نہیں لگتا کہ کوئی سنجیدہ شخص حکومت چلا رہا ہے ، پورا ٹبر ہی مسخروں سے بھرا پڑا ہے۔
معیشت کی بہتری کے لئے نوے دن کے اعلان سے شروع ہونے والا سلسلہ تین سال گزرنے کے باوجود بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا،لوگ بھی بے بس بیٹھے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے ، اگر معیشت کو نہ سدھارا گیا تو ہمارے کپتان کی یہ باری پہلی اور آخری ثابت ہوسکتی ہے پھر حکمرانی کے خواب صرف خوابوں تک محدود رہیں گے۔