تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہے، حیوان وقتی ضرورت کی فکر اسی وقت کرتا ہے جب اسے ضرورت ہوتی ہے، اورجیسے ہی وہ ضرورت پوری ہوجائے تو وہ پھر اس بارے میں نہیں سوچتا، مثلا ً بھوک کے دوران حیوان کھانے کے لیے سوچتا نہیں چل پڑتا ہے اور جوجہاں سے ملے کھا لیتا ہے۔اسے اپنے پرائے جائزوناجائز کی فکر نہیں ہوتی،اسی طرح زندگی کی ہر خواہش کووہ پورا کر لیتا ہے۔ جبکہ انسان جو اللہ نے مکلف بنایا ہے، جہاں ساری اشیائے عالم کواس کے لیے مسخرکیا ہے وہاں ہی اسے ان چیزوں میں حلال وحرام، پاک وپلید،جائزوناجائز، صحیح وغلط کی نشاندہی بھی کردی ہے۔اب انسان کو ان چیزوں میں تمیز کرنا اس کی فکر ی ذمہ داری ہے۔بس اسی ذمہ داری کو نبھا نا انسانی اور حیوانی فرق ہے۔ یہی فکرہی ہے جس نے انسانوں کو بلند خیال بنایا، اور کرتے کرتے انسان سوچ وفکر کی آزادیوں کی طرف چل پڑا۔آج ہر فکرِ نارسا اپنی فکر میں لگا ہوا ہے۔اورپھر ہر فکرِ آزاد طاقت ودولت کے بل بوتے پراس زمانے میں اپنے باشعور ہونے کا شہرہ کررہا ہے، اورجب فکر کسی تمیز سے بالا ہوجائے تو وہ فکر حیوان ہوتی ہے فکرِ انسان نہیں، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فکر پر اپنے کلام میں متعدد اشعار لکھے،۔ درجِ بالا عنوان بھی علامہ صاحب کے ایک قطعہ کا ہی ہے،۔ مصورِپاکستان نے تقریباً ایک صدی پہلے اس قوم کو پختگی فکر اور خودی کی تربیت پرزور دیا۔لیکن اس قومِ ناہنجار نے آزاد ہوتے ہی کلامِ اقبال سے بچنے کے لیے،اردوکو زبانی زبانی قومی زبان بنایالیکن عملی طور پر سرکاری زبان انگلش کو بنایا،اس کے ساتھ ہی تعلیمی زبان بھی انگلش ہی ٹھہری، کہ جو انگلش جانتا ہوگا وہی سرکاری ملازم ہوسکے گا۔اورعوام اسی زبان میں علم سیکھتے ہیں جس سے انہیں سرکاری ملازمت اورعہدے مل سکیں۔ ابتدائی بیس پچیس سالوں تک نصاب میں اردوتقریباً اسی فی صد تھی، لیکن سرکاری ملازمتیں اورعہدے انہیں مل رہے تھے جو بیرونی انگلش سکولوں کے پالے تھے، کرتے کرتے پہلے انگلش سکول پرائیویٹ بنائے گئے، پھر ملک مین انگلش سکولوں کا جال بچھ گیا۔ اورسرکاری سکول وکالج صرف سیاسی امیدواروں کے ووٹرز کی ملازمت کے لیے رہ گئے۔ اب ہر سیاسی حکومت تعلیم کو بڑھانے کے لیے سکول وکالج بناتی رہی، اوران میں پاکستانی مظلوم اردو نواز لوگوں کو بھرتی کرتے رہے۔پچھلے دوعشروں سے شہروں میں سرکاری سکول وکالج ہو کا منظر پیش کرنے لگے، کہ اساتذہ تو موجود ہیں بچے نہیں۔سیاسی جاہل حکمران بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے، اب بجائے اس مسئلے کا حل سوچنے کے، بیوروکریسی کی نشاندہی پر سکول وکالج کے اساتذہ کو داخلہ مہم پر لگایا کیا بلکہ خود سیاسی حکمران داخلہ مہم چلانے لگے اب اخباروں اور میڈیا پر اشتہار بازی ہونے لگی، بیوروکریسی کی موجیں لگ گئیں،کام بھی کررہے ہیں کچھ بھی نہیں کررہے، جوابدہ ہوں گے تو حکمران،کسی کلرک کوکوئی پوچھے گا بھی تو وہ کہے گا میں سرکاری حکم کے تحت کررہا تھا،جواصل سبب تھا اس پرتوجہ نہیں دی، پھر کیا ہوا سیاسی جاہل حکمرانوں نے بیوروکریسی کے کہنے پر انگلش اور سرکاری سکولوں کا فرق مٹانے کے لیے انگلش پرائیویٹ سیکٹر کی طرح قاعدے سے پڑھانے کا اعلان کردیا، لیکن پھر بھی بچے سرکاری سکولوں کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر ہی میں جاتے رہے کہ خدمتِ خلق کے نام پر عوام سے پیسہ بنانے والوں نے پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کو مالی امداد دینا شروع کردی،حالانکہ غریب بچے سرکاری سکولوں میں ہوتے ہیں، اب پرائیویٹ سیکٹر گھر گھر جاکر بچوں کی مفت تعلیم،لباس وکتابیں دینے لگا، اب غریب کے بچے بھی سرکاری اسکولز میں نہ رہے، ادھر سرکاری سیکٹر میں سیاسی جاہل حکمرانوں نے بیوروکریسی کے کہنے پر نظام کو بہتر کرنے کے لیے،تعلیمی انتظامی افسران کی برمار کردی کہ بجٹ کی کھپت ہوسکے۔ کہ ایک ہچکولے کھاتی سیاسی حکومت کے اندر ایک مجذوب چیف جسٹس نے ایک کیس جو بقول کسے سولہ سال سے چل رہا تھا، اس کا فیصلہ سنا دیا،کہ اردو کو سرکاری زبان بنایا جائے،ڈگمگاتی حکومت کے وزیرِ اعظم نے اعلان کردیا کہ تین ماہ کے اندر اردو کو مکمل سرکاری زبان بنا یا جائے، اب بیورو کریسی نے پوری توجہ حکومت ہٹانے پر مرکوز کردی، کیوں کہ اگر یہ ہوگیا تو یہ نسل درنسل کے خود مختار حکمران تو گئے۔ حکومت وزیرِ اعظم کونااہل کرکے ختم کردی گئی۔باقی ماندہ پر کیس درکیس بنائے گئے، وہ باقی دوسال کیس ہی بھگتتے فارغ ہوگئے، اب تبدیلی کے نام پرایک تبدیلی لائی گئی۔ لیکن کسی نے عدالتی فیصلے پرعمل نہ کیا کسی چیف جسٹس نے سوموٹو نہ لیا، کہ عدالت کے فیصلے پرعمل نہ کرنا توہینِ عدالت ہے،کیوں؟اس لیے کہ یہ فیصلہ اس نظام کی موت تھا،جس نظام کو بچانے کے لیے ملک کو تباہ کرنا بھی کوئی بڑی بات نہ سمجھی گئی۔پھر جاہل سیاست دانوں کے جاہل گماشتے فکر حیوانی کے ساتھ کیا سے کیا نہیں قوم کو بتا رہے۔ پچھلے مہینے ہی بے وقوف عوام کو جاہل حکمرانوں نے لالی پاپ دیا کہ سارے ملک کا نصاب ایک کررہے ہیں،اور نصاب ایک یہ کیا کہ انگلش قاعدے سے لازمی مضمون، اور باقی نصابِ تعلیم ستر فی صد انگلش ہوگا اور تیس فی صد اردو، کیو ں؟ اس لیے کہ ہماری بیورو کریسی جو تقریبا ستر سالوں سے اس ملک کے ہرسیاہ وسفید کی مالک ہے، وہ نسل در نسل انگلش ہی میں پروان چڑھ رہے ہیں،اور اس ملک کی بقا ان سے لازم وملزوم ہوچکی ہے،ذرا ان پر دھچکا آئیے تو ملک کی چولیں ہلنے لگتی ہیں،بقولِ کسے ”زمیں جنبد نہ جنبد گل ِ محمد“، اس لیے ملک تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے، لیکن یہ نظام نہیں مٹنا چاہیے۔ اور ہماری قوم کا کیا ہے یہ تو صدیوں سے غلامی کی خوگر ہے، کبھی مغلوں کے غلام کبھی غلاموں کے غلام،کبھی مرہٹوں کے غلام کبھی انگریزوں کے غلام،تو اب اگر ان اپنے خون ومٹی کے افسروں کے غلام ہوں گے تو کیا برائی ہے؟ اورپھر یہ تو اپنے نمازی بھائی ہیں،بقولِ علامہ اقبال ”دل ہے مسلماں میرانہ تیرا۔، تو بھی نمازی میں بھی نمازی“۔غلامی اور عشق دو ایسی بیماریاں ہیں جسے لگ جائیں، وہ بقولِ غالب”عشق نے غالب نکما کردیا۔ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے“۔ اور غلام کی فکر ایک جانور کی فکر سے آگے نہیں ہوسکتی، کہ کھانے پینے، اور مرنے جینے سے آگے کچھ نہیں،اکبرالٰہ آبادی نے کہا تھا ”کیا بتائیں کہ دوست کیا کارہائے نمایاں کرگئے۔ بی اے کیا، نوکر ہوے، پینشن ملی اور مرگئے“۔ لہذا آزادیِ فکر جب بے سلیقہ ہو تو زندگی ایسے ہی ہوتی ہے جیسے پاکستانی قوم جی رہی ہے، علامہ اقبال لکھتے ہیں ”آزادیِ فکر سے ہے ان کی تباہی۔رکھتے نہیں جو فکروتدبر کا سلیقہ۔ہو فکر اگر خام تو آزادی ِ افکار۔ہے انساں کو حیواں بناے کا طریقہ“ اللہ اس قوم پررحم فرمائے،اوراسے فکرِ اسلامی سے نوازے، آمین وماعلی الاالبلاغ۔