حضرت قبلہ مفتی محمد محمود الوری اورعدم تشدد

تحریر : علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ عزیر محمود الازہری ( رئیس جامعة الازہر(مصر) پاکستان کیمپس کراچی)

احادیث میں آتاہے کہ ایک یہودی نے نبی کریمﷺ سے کھجوروں کاسوداکیا،رقم پہلے اداکردی اورآپ ﷺ سے مال لینے کیلئے دن اوروقت مقررکرلیالیکن وہ یہودی کہتاہے اورایک روایت کے مطابق زیدبن سنعہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کاواقعہ سناتے ہیں کہ میں وقت مقررہ سے دویاتین دن پہلے ہی نبی کریمﷺکے پاس پہنچ گیااورآپ کی چادر کے ایک کونے کوکھینچ کرانتہائی بے ہودگی اور غصے کی حالت میں کہنے لگا،اے محمد!(ﷺ) تم میراحق ادانہ کروگے ،اللہ کی قسم تم سب آلِ مطّلب بدمعاملگی کرنے والے ہویعنی تمہارے آباؤ اجداد کابھی یہی حال ہے ۔میں تمہاری لاپرواہیوں کوخوب جانتاہوں۔
اس کی اس قدربے ہودگی اورگستاخی کودیکھ کر حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوگیا،آپ جلال میںآ گئے اورآپ نے فرمایا”رب کعبہ کی قسم ہے کہ اگرمجھے رسول اللہﷺ کااس درجہ احترام نہ ہوتاتو تیرا سرمیری تلوارسے کب کااڑچکاہوتا۔

میرے حبیب علیہ الصلوٰة والسلام نے جب عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرتِ ایمانی اورجلالی کامشاہدہ فرمایاتو انتہائی پُرامن رہتے ہوئے تحمل وبردباری کاتاریخ ساز درس دیتے ہوئے مسکراتے ہوئے فرمایا”اے عمر!مجھے بھی سمجھادیتے کہ یارسول اللہ ﷺآپ حسنِ اداسے معاملہ کیاکریں یعنی جب کوئی معاملہ کریں تواچھے طریقے سے ادائیگی کیاکریں اوراسے بھی سمجھادیتے کہ اگرمال کامطالبہ کریں توتہذیب کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔بہرحال اب جاؤان کامال بھی دے دو(جس کے دینے کاوعدہ دویاتین دن بعدکاہے) اورصرف مالِ مقررہ نہ بلکہ بیس صاع کھجورزیادہ دوتاکہ اس کوجودلی رنج پہنچاہے اس کاازالہ ہوجائے(سبحانہ اللہ )۔

رب کعبہ کی قسم ،وہ یہودی کہتاہے کہ ” اے عمر!مجھ سے جوبے ادبی سرزدہوئی ہے اس کی بھی ایک وجہ تھی اور وہ یہ تھی کہ تورات میں نبوت کی جتنی نشانیاں یاصفات کاذکرتھاوہ تمام محمدمصطفیﷺ میں موجودتھی مگر ایک صفت ایسی تھی جس کیلئے آزمائش شرط تھی،اوروہ یہ تھی کہ آپﷺ کے سامنے جہالت کاجتنا زیادہ اظہارکیاجائے گاآپﷺ کاحِلم اتناہی بڑھتاچلائے جائے گا،اوروہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔کوئی شک نہیں کہ حضورﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں،میں زبان سے اقرارکرتاہوں”لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ“۔

یہ حدیث یہ واقعہ صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ اقوامِ عالم کی رہنمائی اورسربراہان مملکت کی ہدایت کیلئے بھی ایک انمول تحفہ ہے ۔اس حدیث میں کیاکیارموز پوشیدہ ہیں اس کوسمجھنے اور بیان کرنے کیلئے توایک عمردرکار ہے لیکن بعض نکات جوہمارے اس موضوع سے تعلق رکھتے ہیں وہ یہ ہیں۔
(۱): اسلام میں شدت پسندی (Violence) اورتعصب(Bigotry) کی کوئی گنجائش ہیں نہیں جیساکہ مذکورہ حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی کے ساتھ کاروباری معاملہ طے کیا،حالانکہ وہ مسلمان نہ تھا ،نبی کریمﷺ کی رسالت کونہ مانتاتھا لیکن آپﷺ نے اس کے ساتھ کاروباری سودافرماکر اوراس کی زیادتی وظلم کے باوجود اس کے ساتھ اچھابرتاؤ کرکے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کواس حقیقت سے آشناکردیا کہ حقیقةً اس دنیامیں اگرکوئی مذہب ہے ،کوئی دین ہے جوشدت پسندی اورتعصب کے خلاف ہے تووہ آمنہ کے لال محمدمصطفیﷺ کادین ہے۔

(۲): دوسرااہم پیغام اس حدیث سے یہ بھی ملاکہ جب اس یہودی نے نبی کریمﷺکے ساتھ کاروباری سودے میں زیادتی کی اور بدتمیزی اوردہشت گردی کی انتہاکوپہنچ گیا(آپﷺکی چادرمبارک کوکھینچا، مسلمانوں کے بھرے مجمع میں ان کے قائدولیڈرکی توہین کرنے کی کوشش کی پھراسی پربس نہیں کیابلکہ آپ کے خاندان اورآباؤ اجداد کوبھی لپیٹ میں لے لیا) توباوجوداس کے کہ آپﷺ اس کی بدتمیزی اوردہشت گردی کاجواب سختی سے دینے کی طاقت وقدرت رکھتے تھے لیکن اسی لمحہ آپﷺ نے پُرامن رہ کرعفوودرگزرکی اعلیٰ مثال قائم کرکے امت اورسربراہان کویہ پیغام دے دیاکہ اگرتم بھی امن(Peace) کے داعی ہو،اس زمین پرامن کافروغ چاہتے ہوتوصرف زبانی کلامی دعوے نہ کروبلکہ محمدعربیﷺکے لائے ہوئے اصولوں کواپنالو ،یہ خطہٴ ارض امن کاگہوارہ بنتاچلاجائے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کادورہویاتابعین کایاان کے بعدآنے والے علماء اورصوفیاء کاملین کا جنہوں نے ہردورمیں نبی کریمﷺکے انہی آفاقی سنہری اصولوں کواپناتے ہوئے حکومتوں میں رہ کربھی یعنی بحیثیت حاکم وحکمراں بھی امن وسلامتی کے فروغ اوراسے قائم کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی بلکہ تاریخ میں ان ادوارکو سنہری ادوارGolden eraکے نام سے رقم کروادیا،اورحکوموں سے باہر رہ کربھی یعنی عام فردکی حیثیت سے یاایک جماعت ،تنظیم ،روحانی سلسلہ کے قائد،بانی،پیشواہونے کی حیثیت سے بھی لوگوں کے دلوں میں امن وسلامتی کے پھول کھلادیئے اوربھائی چارے کی فضاقائم کردی ۔قبلہ جدامجدقطب وقت حضرت شاہ مفتی محمدمحمودالوری نواللہ مرقدہ نے جہاں اپنی ساری زندگی اتباع رسولﷺ میں بسرکی اٹھنے،بیٹھنے،جاگنے،سونے،کھانے ،پینے،چلنے پھرنے،غرض کہ ہرہرشیٴ میں اتباع کاخیال کیاوہاں حبیب نبی علیہ السلام کی مذکورہ صفات (حلم،نرمی،عدم تشدد) سے بھی اپنے آپ کومتصف کرکے دین اسلام کی تبلیغ کافریضہ بہت ہی عمدہ طریقہ سے سرانجام دیا،مجھے وہ واقعہ یاد آتاہے جب احباب میں سے کسی نے آپ کے سامنے سنیوں کی مجالس اورمحافل کاذکراس اندازمیں کیاکہ حضور!ہمارے ہاں ایک جلسہ ایساہوا کہ جلسہ کے آغازمیں ہی خطیب نے اعلان کردیاکہ ہماری اس محفل میں کسی بدعقیدہ ،بدمذہب یاسنیوں کے علاوہ کسی کوبیٹھنے کی اجازت نہیں برائے مہربانی وہ اس محفل سے اٹھ کرچلے جائیں۔

توقبلہ حضرت صاحب علیہ الرحمة نے برجستہ فرمایا: تواس کی مثال توایسی ہی ہوگی کہ کوئی شخص ہسپتال بنائے اوراس میں بہترین ڈاکٹرز،مشینیں اورادویہ کا انتظام کرے عمدہ سہولیات سے مزین وآراستہ کرے اورپھرباہر یہ بورڈآویزاں کردے کہ اس ہسپتال میں مریضوں کاداخلہ ممنوع ہے۔(سبحان اللہ) قبلہ حضرت صاحب رحمة اللہ علیہ نے کس خوبصورت اندازمیں اپنی محفل میں بیٹھنے والوں کی تربیت فرمائی کہ اسلام میں بلاوجہ اورچھوٹی چھوٹی باتوں پرسختی اور تشدد کارویہ اپنانایہ کونسااسلام کاطریقہ ہے ،یہ کہاں کااسلام ہے کہ جس کوچاہا کافربنادیا ،جس کیلئے چاہا فسق وفجور کے فتوے جاری کردیئے جس کو چاہااسلام سے نکال دیا۔

اللہ رب العزت ہمیں ایسی صفات سے محفوظ رکھے اوراسلام کے صحیح مفہوم کوسمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*