تحریر: محمداویس مصطفائی
سید ہجویر مخدوم اُمم
مرقد اُو پیر سنجر را حرم
خاک پنجاب از دم اُو زندہ گشت
صبح ما ازمہراُو تابندہ گشت
گیارہ صدیاں گذر گئیں لیکن اپنے پرائے کی تفریق کو مٹاتا ہوا صوفی درویش آج بھی ماہتابِ ولایت بن کر برصغیر کے آفاق تصوف پر تابانیاں بکھیر رہا ہے۔ امت مسلمہ کے اس مخدوم کو صدیوں کی گرد دھندلانے کی بجائے اور نکھارتی چلی آرہی ہے۔بادشاہوں کی قبروں پر چمگادڑوں اور مہیب اندھیروں کا راج ہے لیکن سیدِ ہجویرحضور داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزارِ اقدس پر لوگ ہزاروں چراغ روشن کرتے ہیں اور اپنی روحانی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔دنیا بھر میں اولیائے کرام کے بارے میں ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ یہ فرش نشین آخر کیوں شہرت کے آسمان پر قیامت تک کے لئے امر ہو گئے؟۔۔۔ اس کا جواب ان کی بلا تفریق رنگ و نسل اور بلا امتیاز مذہب و لسانیت معاشرے کے مقہور طبقے سے محبت ہے ۔صدیوں پہلے کا برصغیر معاشرتی ناہمواریوں اور ذات پات میں منقسم معاشرہ تھا جہاں نیچی ذات کے انسان جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ہندو معاشرے میں شودر کا کام صرف اونچی ذات کے ہندوؤں کی خدمت تھی اور وہ ذلت کے سمندر میں گم کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کر رہے تھے۔حضور داتا گنج بخش علی ہجویری کی لاہور تشریف آوری اور اسے اپنا مسکن بنانا یقیناً اس خطے کے بے کس لوگوں پر اللہ کارحم اور احسان ہے۔صوفیائے کرام نے اسلام کی تبلیغ اپنے عمل سے کی ۔بزر ِ گان دین کے مزارات پر لنگر کھلانے کی روایت سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہے یہاں سے سنت رسول ﷺ کے مطابق بھوکوں کو کھانا،بے گھروں کو رہائش اورپیاسوں کو پانی ملتا تھا۔ قطب الاولیا شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہاکہ ساری دنیا کی دولت مجھے مل جائے تو میں غریبوں کو کھانا کھلانے میں خرچ کردیتا۔حضرت علی ہجویری نے بھی اس معاشرے کی ضرورت کے تحت دستر خوان بچھا کر لنگر کا آغاز کر دیا، اپنے ساتھ شودر کو بٹھایا ، اس کی داد رسی کی، اپنے برتن سے نوالہ بنا کر ان کے منہ میں ڈالا ، اپنے ساتھ اس طبقہ کو کھانے میں شریک کیا جو زندگی بھر مردار اور لوگوں کے بچے کھچے باسی ٹکڑوں پر زندہ تھا ۔ داتا علی ہجویری نے اپنے اس عملِ خیر سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا اور رہتی دنیا تک کے مجبوروں اور مقہوروں کیلئے مرکز ِ امید بن گئے۔ آج بھی ان کے لنگر کی بدولت ان گنت غریب افراد کو باعزت طریقے سے روٹی مل جاتی ہے اور انہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے ۔
یہی وہ اولیا ء کا اسلوب ہے جسے المصطفیٰ ویلفےئر سوسائٹی نے اپنایا اور 1988سے حضور داتا گنج بخش کے در پر آنے والے زائرین کے لئے اس کا آغاز کیا ۔چونکہ ان دنوں عرس کی تقریبات گرمیوں کے دنوں میں آئیں اس لئے اس لنگر کا آغاز ٹھنڈے پانی کی سبیل سے کیا گیا ۔ اس سبیل کو شروع کرنے والے مصطفائی رضاکاروں میں چو ہدری اعجاز احمد فقہی ایڈ وکیٹ ، امانت علی زیب ،رانا خالد قادری ، شیخ محمد گلزار فیصل ،، محمدعلی خان اور دیگر احباب کے نام شامل ہیں ۔ بعد ازاں اس پانی کی سبیل کو شربت کی سبیل کا درجہ مل گیا اور مشہور زمانہ سٹار مکسر بنانے والی کمپنی سکس بی فوڈ انڈسٹری پرا ئیو یٹ لمیٹڈ نے سٹار مکسر عطیہ کرنا شروع کیا اور پھر بڑے پیمانے پر مکسر سے داتا کے مہمانوں کی توا ضع کی جانے لگی یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور حلیم کی ایک دیگ اور تازہ نان سے لنگر کا آغاز کیا گیا جسے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی پذیرائی ملی اور سرکار داتا گنج بخش کی جانب سے ایسا شرفِ قبولیت ملا کی لوگوں کی بڑی تعداد اس لنگر کے لئے آنا شروع ہو گئی ۔ مذکورہ دوستوں کی مستقل مزاجی کے با عث دیگر مصطفائی رضاکار بھی اس کی طرف قائل ہو ئے اور لنگر کا پیمانہ اور دائرہ کار وسیع ہو تا گیا۔
بزرگان ِ دین اپنے در پر آنے والے عقیدت مندوں اور حاجت مندوں کی سب سے پہلے شیکم سیری کا اہتمام کرتے تھے ۔الحمد اللہ 2010میں دارالعلوم حزب الاحناف کے وسیع ترین لان میں حضور سید ابوالبرکات کے مزار پر انوار کے زیرسایہ ایک بڑا پنڈال تیا ر کیا گیا جس میں میز کر سیاں آراستہ کی گئیں ۔ روٹی کی تیاری کیلئے درجن تنور لگا ئے گئے اور خالص ترین اجزاء سے حلیم کی متعدد دیگیں تیا ر کی گئیں ۔ جبکہ رات کے وقت حلوہ اور سردی کے موسم میں زائرین کیلئے چائے اور قہوہ کی سبیل بھی لگا کر وسیع پیمانے پر انتظام کیا گیا ۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے سا لانہ عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات میں دنیا بھر سے لا کھوں زا ئرین نے داتا کی نگری لا ہور میں مرکز تجلیات کی زیا رت کی اور اپنی حاضری کے دوران امتِ مصطفیٰ کر یم ﷺ کی سر بلندی عالم کی خیر و فلاح اور وطن عزیز پاکستان کے تخفظ و سا لمیت کیلئے دعا ئیں ما نگتے اور دلی مرادیں حاصل کرتے ہیں ۔ ملک بھر کے کو نے کو نے سے آنے والے داتا کے مہمانوں کیلئے المصطفیٰ ویلفےئر سوسائٹی نے اپنی گزشتہ روایات کو بر قرار رکھتے ہو ئے زائرین کیلئے ”مصطفائی لنگر“ اور میڈیکل ایمر جنسی سروس فراہم کرنے کیلئے المصطفیٰ ایمبو لینسیز اور میڈیکل کیمپ کا انعقا د کیا گیا ہے۔ داتاگنج بخش روڈپر واقع قدیم دینی درسگاہ دارالعلوم حزب الا حناف میں حضرت سید ابو البرکا ت مزار مبارک کے زیرسایہ تین دنوں میں ایک لا کھ سے زائد زائرین کیلئے مصطفائی لنگر کا عظیم الشان انتظام کیا گیاہے ۔تا ہم عر س مبا رک کی تین روزہ تقریبات میں آنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد زائرین المصطفیٰ کی جانب سے تیار کئے گئے بہترین مصطفائی لنگر سے بھی مستفید ہونگے۔
الحمد للہ مصطفائی لنگر ایک عظیم الشان روایت کا درجہ حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں آنے والے لاکھوں زائرین امن و اخوت اور بھائی چارے اور ایثار و قربانی اور دوسروں کوکھانا کھلانے کا درس لیکر جاتے ہیں ۔ یہاں آنے والی نامور شخصیات خود داتا کے مہمانوں کی خدمت کرنا با عث اعزاز تصور کرتی ہیں ۔ اس لنگر کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس لنگر کے منتظمین سے لیکر ان تمام مہما نانِ خصوصی تک جو افتتاح کیلئے تشریف لاتے ہیں خود آگے بڑھ کر زائرین کو لنگر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقی معاشرے کا خوبصورت منظر پیش کیا جاسکے۔اس سال بھی حضور داتا گنج بخش 978واں عرس مبارک 26/27/28ستمبرکو منعقد ہوگا ،عرس کے موقع پر مصطفائی تحریک پاکستان کے زیر اہتمام شاہ ہجویر کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا ۔کانفرنس کی صدارت مرکزی امیر مصطفائی تحریک پاکستان غلام مرتضی سعیدی کریں گے جبکہ کانفرنس سے مختلف جماعتوں کے قائدین اور اہم قومی رہنما خطاب کریں گے،مصطفائی لنگر26ستمبر دن 12بجے سے 28ستمبر بروز منگل رات گئے تک مسلسل جاری رہے گا ۔ داتا کی نگری میں ہم آپکی آمد کے منتظر رہیں گے ۔ مصطفائی لنگر حضور داتا گنج بخش کے کرم سے ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ یہی دعا ہمیشہ لنگر سے مستفید ہونے ہونے والے لاکھوں زائرین ہر سال کرتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ خالق کائنات اپنی مخلوق کی دعائیں رد نہیں کرتا۔۔۔