طلباء سرکاری سکولوں سے کیوں بھاگتے ہیں؟ قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

آج میں اپنے پڑوسی گائوں بنڈلی ایک بنک آفیسر راجہ شاہنواز صاحب کے والد صاحب کی فوتگی پر تعزیت کے لیے گیا۔ واپسی پر دو مقامات پر مجھے کہا گیا کہ راستے میں گورنمنٹ پرائمری سکول بنڈلی کو دیکھ جانا اور ہوسکے تو اس ہر قلم اٹھانا۔ اس سے مزید اندازہ ہوا کہ لوگ میرے کالم پڑھتے بھی ہیں اور اثر بھی قبول کرتے ہیں۔ سڑک پر رک کر اس سکول پر نظر ڈالی تو اس کی حالت نے مجھے پیدل چل کر اسے قریب اور غور سے دیکھنے پر آمادہ کیا ۔ یہ سکول سرکار نے 1985 میں تعمیر کیا ۔ اس کی حالت بتا رہی ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد اس پر کیا جبر اور ظلم ہوتا رہا۔ تصاویر سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سکول کسی بھی وقت گر سکتا ہے ۔ دیواریں بوسیدہ ہو چکی ہیں ۔ چھت کا کوئی علم نہیں کیسے کھڑا ہے۔ موسم ٹھیک ہو تو بچے بائر زمین پر بٹھائے جاتے ہیں اور اگر بارش ہو تو پھر چھٹی لازمی ہے کیونکہ اس سکول کے اندر بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس وقت یہاں ساٹھ بچے اور بچیاں ہیں جو اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہاں کو ایجوکیشن یے۔ 35 سال قبل تعمیر ہونے والے اس سکول کی توسیع ہونی چاہیے تھی مگر توسیع تو درکنار اس کا کسی نے رنگ تک نہیں کرایا ۔ سٹاف کا کہناہے کہ انہوں نے کئی مرتبہ حکام بالا سے اس سکول کی مرمتی کی درخواست کی مگر کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی ۔ یہ صرف کسی ایک ادارے کا مسلہ نہیں بلکہ اکثر سرکاری عمارتوں اور املاک کا یہی حال ہوتا ہے۔ سرکاری املاک کی حفاظت ہر زمہ دار شہری کا فرض ہے مگر فرض ادا نہیں ہوتا سرکاری اداروں کی مرمت اور مینٹنینس کا باقاعدہ فنڈ ہوتا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہاں جاتاہے۔ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر اس سکول سے ڈیڈھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں جبکہ شاہراہِ عام ہونے کی وجہ سے وزیر حکومت کا بھی ادھر سے اکثر گزر ہوتا رہتا ہے۔ بنڈلی کے راجوں اور چوہدریوں نے بھی آزاد کشمیر بھر کے ولائتیوں کی طرح الیکشن کے دوران یہاں ا کر آپسی سیاسی مقابلہ بازی میں کروڑوں روپے الیکشن مہم پر اڑائے ہیں لیکن حلقے کے اندر اداروں کی یہ حالت کسی کو نظر نہیں ائی۔ ان کی صرف یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنا راجہ اور اپنا چوہدری وزیر بن جائے۔ تعلیمی اداروں کی یہ صرف ایک مثال ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طلباء سرکاری اداروں سے بھاگ کر کیوں نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ یہ عوام ان بے حس اور غیر زمہ دار سیاستدانوں کی الیکشن مہم میں جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں لیکن شکایت کے لیے وہ ہم جیسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی ذمہ دار ملک ہو تو حکومت کے خلاف ایسی عمارت کے اندر بچوں اور سٹاف کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ دائر ہو جائے۔ کیا اس حلقے کے اندر کوئی ایسا زمہ دار اور جرات مند شخص ہے جو حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرے۔ جن والدین کے بچے اور بچیاں یہاں زیر تعلیم ہیں ان کو تو لازمی یہ قدم اٹھانا چاہیے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*