جبری گمشدگی کا عالمی دن : حوران بلوچ

تحریر : حوران بلوچ

30 اگست کو اقوام متحدہ نے بطور جبری گمشدگی کا عالمی دن منانے کا اعلان کر رکھا ہے. جبری گمشدگی کا شکار بنے والے افراد جن کو زبردستی ریاستی اداروں کے اہلکار گمشدہ کر دیتے ہیں. گمشدیوں کے جس فرد و ان افراد جن کو جبران اٹھایا جاتا ہے ان کے خاندان والوں کو اپنے پیاروں کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور نہ اس بابت ادارے کوئی معلومات فراہم کرتے ہیں. آئین پاکستان کے آرٹیکل 10 کے تحت کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکے اور اپنا حق دفاع استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے کوئی وکیل مقرر کرسکے. مگر انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور نہ انکے خاندان والوں کو سالہا گزر جانے کے باوجود کچھ معلومات فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے. پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر و قوانین کی پاسداری کرنا پاکستان پر لازم ہے جبکہ آئین پاکستان ہی کو لیجئے مگر کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا. شاید بقول مشرف آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں تبھی تو خفیہ ادارے آئین پاکستان کو ہی سرے سے تسلیم نہیں کرتے. ایسی جبری گمشدگی کی وجہ سے جس درد و الم سے جبری گمشدگی کا شکار بنے والا شخص گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ساتھ ساتھ پورے خاندان بھی شدید اذیت میں مبتلا رہتے ہیں. جبری گمشدگی کی وجہ سے ان کا انسانی حق بھی چھین لیا جاتا ہے ساتھ میں پورے کنبے اجتماعی سزا میں مبتلا رکھا جاتا ہے.

جبری گمشدگی غیر آئینی و غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے. بلوچستان میں ہزاروں بلوچ جبری گمشدگی کا شکار بن کے ریاستی زندانوں میں قید ہیں. ہر دوسرے تیسرے گھر سے کوئی نہ کوئی جبرا گمشدہ کیا جاتا ہے. اسی طرح سندھ میں سینکڑوں سندھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں. کراچی میں مہاجر , اردو اسپیکنگ , شعیہ کمیونٹی وغیرہ کے لوگ لاپتہ کئے جا چکے ہیں. خیبر پختونخوا میں بھی پشتون سینکڑوں کی تعداد میں جبری گمشدگی کا شکار بن چکے ہیں. بلوچستان میں تو بلوچوں کو جبران لاپتہ کرنا فرض سمجھا جاتا ہے. بلوچوں کے نام کے آگے جبری گمشدگی کی لسٹ میں ٹارگٹ کلنگ , مسخ شدہ لاشیں , جعلی مقابلے جیسے الفاظ تک لکھ دیئے گئے ہیں. بلوچ نسل کشی کا یہ سلسلہ 1947 سے بلوچستان میں جاری و ساری ہے. المیہ یہ ہے کہ جبری گمشدگی کا شکار بننے والے افراد کے خاندان کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر اپنے پیاروں کیلئے آواز اٹھائیں گے تو انکے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں موصول ہونگی اور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. وہ اپنے پیاروں کیلیے آواز بلند نہ کریں نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج کروائیں بس خاموش رہیں اور اس بات کو لوگوں سے پوشیدہ رکھیں. ایف آئی آر بھی تو نہیں کٹ سکتی کیونکہ ریاستی اداروں کے خلاف کسی کو ایف آر درج کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی. جبکہ فیملی لواحقین سمجھتے ہیں اگر وہ خاموش رہینگے تو ان کے پیاروں کو بازیاب کیا جاے گا نقصان نہیں دیا جاے گا تو یہ غلط ہے. ریاست جبری گمشدگی کا شکار بنے والے بلوچوں کو اب ہر ماہ جعلی مقابلے میں مار کر پھینک دیتی ہے. دو ماہ میں چار بار سی ٹی ڈی نے کئی بلوچوں کو جعلی انکاؤنٹر کرکے مار دیا ہے. یہ وہ افراد ہیں جو ریاستی اداروں کی تحویل میں تھے. سی ٹی ڈی بشمول ریاستی خفیہ ایجنسیوں والے اب اسی طرح مارتے رہینگے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور آواز بلند کرنا ہم بلوچوں کا آئینی و قانونی حق ہے. اس لئے میں انسانی حقوق کی تمام تظیمیوں اور سوشل ایکٹوسٹ سے درخواست کرتی ہوں کہ لاپتہ افراد کے خاندان کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ساتھ دیں اور تمام بلوچوں , پشتونوں , سندھیوں سے گزارش ہے کہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کیلئے خاموش نہ رہیں یہ آپ کا آئینی حق ہے جس کیلئے باہر نکلیں اور آواز بلند کریں۔ شکریہ

[/highlight]

 

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*