احساس رکھتا ہوں : ارم صباء

تحریر: ارم صباء

تکلیف نہیں مگر احساس تو رکھتا ہوں
خوش ہوں کتنا قیمتی اثاثہ پاس رکھتا ہوں

تحریر بھر دے گی کچھ تو زخم دل اس کے
احساس کی قندیل سے جلا قلب جو رکھتا ہوں

مگر شہر احساس کی حالت قلب کا نہ پوچھو
پتھر سے نہ ٹوٹے قلب اسے زندان میں رکھتا ہوں

بنجر زمین میں پھول اگنے کی طلب ہے
میں بس ناداں زخم دل کشا جو رکھتا ہوں

شہر مكین نے موند لیں آنکھیں سوا میرے
راہ میں پڑی بے کفن میت جو پاس رکھتا ہوں

نہ ہو کسی کے مقدر میں تنہائی اور رسوائی
كاسہ شب و روز میں یہ احساس بھرا رکھتا ہوں

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اچھائی اوروں میں اس لئے
اپنے عمل میں جواحساس تلاش بدی رکھتا ہوں

میری بھری آنکھوں کو چشم کم سے نہ دیکھ
احساس وطن کا چراغ روشن جلاۓ  رکھتا ہوں

محبت زندگی کی خوف موت سے مبرا نہیں
دے نجات خوف سے وہ مقصد حیات رکھتا ہوں

سرمايه غم کو سمجھ کر خاص عنايت رب کی
آ ہ سحر گاہی میں اک  ٹپكتا آنسو رکھتا ہوں

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*