تحریر: ارم صباء
کفر سارا ڈر گیا نام سے لرز گیا
یہ مشن رکا نہیں جاری ہے تھما نہیں
دھڑکنوں کی ہے صدا زندہ ہے خادم حسین
عشق کے میدان میں ذندہ ہے خادم حسین
عاشقوں کی جان میں زندہ ہے خادم حسین
سنیوں کی شان میں زندہ ہے خادم حسین
پیر کامل ،مرد مجاهد ،مرد دانا ،مجدد دوراں، دور حاضر کے صلاح الدین ایوبی ،جانشین مجدد الف ثانی ، شكل قول عمل سے عاشق مصطفی ﷺ، پیر طریقت ، امام انقلاب، آبروۓ رضویت، فنا فی خاتم النبین ،جذبہ صالح کے پیکر، حق و صداقت کے داعی ،فکر رضا کے شیدائی، مشن اعلیٰ حضرت کے بے باک نڈر سپاہی، قادیانیت صیہونیت رافضیت لادینیت کے خلاف آہنی دیوار ,محافظ ختم نبوت ,امام حریت، صاحب حلم و شجاعت ،امام بن حنبل کے روحانی جانشین، دافع کفر و ضلالت، راوی اقبال، عاشق رسولﷺ شیخ الحدیث علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی انیس نومبر2020کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میں کچھ سالوں سے ان کی تقاریر سن رہی تھی اور ان کے سحر انگیز لہجے کی صداقت اور جازبيت نے میرے دل کو اعلی حضرت کی محبت سے بھر دیا ۔فتنوں کے اس دور میں جہاں دینی لباده اوڑھے عقل و خرد سے دلیل دے کر مولوی اسلام کا درس دیتے ہوے ا ایمان کو لوٹ لیتے ہیں اس پیر کامل کے بیانات خطبات سن کر لا کھوں لوگ اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ عام طور پر کسی انسان کا جنازہ اس کے دنیا سے جانے کی دلیل ہے لیکن خادم حسین کا جنازہ تو ان کے ابتدا ے زندگی کی دلیل بن کر کروڑوں لوگوں کے لئے روحانی تصرف کا باعث بنا۔ٹی وی اینکر جرنلسٹ ادیب سکالرذ دانشور عالم دین مفتیان ہر مسلک کے رہنما نے آپ کی ناموس رسالت اور ختم نبوت کی پہرہ داری پر خدمات کا اعتراف کیا۔ان پر تحقیق ہر دور میں ہوتی رہے گی۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کے آ خری کچھ سالوں میں کہا گیا ہر جمله الہامی تھا تو مبالغہ ہر گز نہ ہوکا۔ اور یہ آ نے والا وقت ثابت کرے گا ۔ آپ کے والد کو اہل بیت سے اتنی محبت تھی کہ انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام امیر حسین اور خادم حسین رکھے ۔وه خادم حسین جس کو حسینؓ کی خدمت کے لیے چنا گیا۔
جس نے ختم نبوت پہ پہرہ دیا
ایسے خادم کی خدمت پہ لاکھوں سلام
حقیقی حسینیت خادم حسین رضوی کی سیرت میں جهلکتی تھی ۔ عظیم شہادت حکمی کا درجہ حاصل کرنے والے خادم حسین کو تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان نے سند دی اور فتاوی رضویہ میں آپ کا مكاله رکھا گیا ہے ۔کسی صحافی نےپوچھا کہ آپ کے نام کے ساتھ رضوی کیوں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اعلی حضرت سے عشق و محبت کی وجہ سے ۔آپ کو خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے حد عقيدت تھی یہی وجہ تھی کہ آپ جیسا خطیب وہی ہو سکتا ہے جس نے خالد بن ولید کی تلوار کو چھوا ہو۔اور یہ شرف آپ کو حاصل ہوا۔اسی فیضان کی بدولت آپ کی چار منٹ کی تقریر وه کام کر دیتی تھی جو بڑے بڑے علما کی تقریریں تحريریں نہ کر پاتی تھیں ۔خادم حسین رضوی بزات خود ایک تحریک کا نام تھے ۔اعلی حضرت کی نسبت خاص سے آپ نے تجدیديت کا حق ادا کر دیا ۔ دور حاضر کے جيد عالم دلایل اور وسائل سے اپنے نظر یات سے روشناس تو کرواتے ہیں لیکن ان میں وه خصآئل نہیں جو اس مرد قلندر میں تھے ۔آپ جب گفتگو فرماتے تو لگتا تھا کہ کوئ عالم دین وکیل فلاسفر محقق مفتی بیان دے رہا ہے ۔ آپ کا چہرہ بزات خود جنازے کے وقت اہل سنت کے نورانی عقیدے کی حقانیت کا مبلغ بنا رہا۔ ان کا جنازہ تو گویا اک ریفرنڈم تھا ۔جو ان کو نہ بھی جانتے تھے جاننے پر مجبور ہو گۓ ۔
میرے ہاتھ میں تھا جب میرے مصطفی کا دامن
میرے پاؤں چومتی تھی یہ گردش زمانہ
کسی صحافی نے مجھ سے کہا کہ وه پلانٹڈ تھے ۔ہاے افسوس عقل و خرد کے سانچے میں عشق و جنوں کب آیا ہے ۔وه ولی کامل جس پر لاکھوں لوگ لاکھوں روپے نچھاور کرتے تھے جس نے مسجد کے تین مرلہ مکان میں ساری زندگی گزار دی ۔چلو مانا کہ وه پلانٹڈ تھے تو لاو کوئی اور رضوی کاشت کرو نہ ۔لاؤ کوئی اور ۔کوہ طور کی کرنوں سے جھلملاتا ہوا ستارہ جو ملک کے اندر اور باہر کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرے ۔جس نے ٹک ٹاک پر وقت ضائع کرتی نوجوان نسل کے دل میں عشق مصطفی ﷺ کا بیج بویا ۔ اک آرزو کا بیج کہ حضور ﷺ سے محبت کرنی ہے تو انے وا
کرنی ہے ۔حضور ﷺ کی جہاں بات آ جاۓ تو سب باتیں ختم۔
پلانٹڑ تھے تو لاؤ نہ يزیدان عصر کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو برسر منبر للكارے ۔
جب روح میرے پیرا ہن خاکی سے نکلی
تو روضے سے آواز آئ ا ومیرا فقیر آ یا
یہ ان کی خطابت کا اثر تھا کہ اعلی حضرت اور اقبال کے اشعار لوگوں کی ذبان ذد عام ہو گئے۔ فکر رضا کا شیدآئ ناموس رسالت کی پہرے دارای کے لیے جذبہ صالح لے کے آ گے بڑھا بھارت فرانس يورپ کے گستاخ اس معذور بزرگ سےخو فزدہ ہوگئے کہ یہ تو لاکھوں لوگوں کےدلوں میں حرارت ایمانی پیدا کر رہا ہے ۔اس نے تو کروڑوں دلوں میں عشق مصطفی ﷺ کے چراغ روشن کر دیے ہیں ۔ ان کی ایک ویڈیو جس میں آنسو زار و قطار جاری ہیں اور وجد کی کیفیت میں یہ شعر سن رہے ہیں جس کو اہل دل صوفیا اور صحیح العقیدہ عالم نے بهانپ لیا
ذمانے بھر کی ہر اک نعمت انہیں کے صدقے خدا نے دی ہے
گر ان کی عزت پرحرف آیا تو اپنی عزت کو کیا کریں گے
ان کی آخری تقریر کے وه الفاظ کہ بابری مسجد بھی ہماری ہے ۔قطب مینار بھی ہمارا ہے دہلی کی جامع مسجد بھی ہماری ہے ۔ اور ایک ایک لفظ حب الوطنی اور جہاد کے جذبے سے معمور ہر آ نے والے وقت میں ہماری سمت کا تعین کرتا رے گا ۔ اور یہ نعرا کہ نعرا تو مالکوں کا لگتا ہے کسی انسان یا پارٹی کا نہیں۔ آپ کا جنازہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپ امام بن حنبل کے روحانی جانشین تھے۔ناموس رسالت ختم نبوت کی خاطر جیلیں نفرتیںں صعوبتیں برداشت کیں ۔
آپ کا جنازہ تو ابتدا ے زندگی ہے جو بہت بڑا علمی دینی فكری سیاسی سرمایہ پیچھے تحقیق کرنے کے لئے چھوڑ گیا ۔جانیں گے لوگ کہ خادم حسین رضوی عشق و عرفان کیف و سرور،صدق و صفا، عشق مصطفی کا وه جام تھے جسے پی کر ناموس رسالت اور ناموس صحابہ و اہل بیعت کی پاسبانی سچے مسلمان ہر سانس کریں گے ۔
مشن خادم حسین عشق رسول ﷺ ہے ۔ان سے عقیدت کا تقاضا ہے کہ ان کے مشن کو جاری رکھیں ۔سلام اے امیر المجاہدین ،مجاہداہلسنت ،مسلک اعلی حضرت کے بے تاج بادشاہ اللّه تعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقے آپ کی قبر انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماۓ ۔آمین ۔
غم امت تیرا رضوی تڑ پنا یاد آ تا ہے
گرجنا یاد آتا ہے تڑ پنا یاد آتا ہے
تیرا عشق رسالت میں چہکنا یاد آتا ہے
ہر دل میں تو ہے زندہ والله بالله زندہ
تیرے اخلاص کا سن کر دیوانے اب بھی روتے ہیں
تیرے لفظوں کے گلدستوں کے چرچے اب بھی ہوتے ہیں
رسول ﷺ کے خادم تو غازی بھی مجاهد بھی
تیری تحریک زندہ ہے تیرا سلسلہ قائم
تیرا ہے نام تابندہ تیری ہر ادا قائم
دنیا ے سنت پر احسان ہے تمہارا
ہر دل میں تو ہے زندہ والله بالله زندہ