تحریر : ارم صباء
یاد نبی میں ہجر کے جزبات امڈ آئے
کمال ضبط پر بھی میرے آنسو نکل آئے
پر خطا ہوں سرِ دربار جاوُں کیسے
یہ سوچ کر پلکوں پر آنسو نکل آئے
سلسلُہ زندگی ہو یا میدانِ محشر
گناہوں کا اپنے سوچ کر آنسو نکل آئے
شب خواب میں انکی زیارت کی تمنا ہے
خواب کی تعبیر کا سوچ کر آنسو نکل آئے
قافلہ مدینہ چلنے کا وقت ہوا چاہتا ہے
قافلے کی تاخیر کا سوچ کر آنسو نکل آئے
محمد نام لینے پر بیڑہ پار ہوتا ہے
وظیفہ یہ مجھے ملنے پر آنسو نکل آئے
سراپہ حضور کا لکھنے کو دل بے تاب ہے
ممکن نہیں احاطہ سوچ کر آنسو نکل آئے
گناہوں کے سبب روح میں جو چاک آئے
اسم پیمبر سے رفو کرنے پر آنسو نکل آئے
نام مصطفی کی مدح سرائی میں کرتی رہی
نعت کے صدقے آبرو ملنے پر آنسو نکل آئے
ہر شے تخلیق ہوئی ان کے واسطے سے
شانِ رسول کا سوچ کر آنسو نکل آئے
گنبد خضرا کی طرف نظر جو جاتی ہے
یہی معراج نظر ہے سوچ کر آنسو نکل آئے
محمد نام کام بگڑنے نہیں دیتا ہے
بگڑے کام سنورنے پر آنسو نکل آئے
درود شاہِ امم کی بڑی فضیلت ہے
صبا کی لاج رکھے سوچ کر آنسو نکل آئے
یادِ مصطفی کو روح میں اتار لیا ہے
روح کی بالیدگی کا سوچ کر آنسو نکل آئے
محشر کے دن صبا کو بخشوا دیں گے
قصیدہ ان کا پڑھنے پر آنسو نکل آئے