جنسی درندگی کا عفریت وجوہات اور تدارک : ارم صبا

تحریر:   ارم صبا

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے
درندوں میں نہیں

زیادتی, زیادتی, کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی ذی روح کو جنسی درندگی کا نشانہ نہ بنایا جائے اور افسوس بات صرف زیادتی تک ختم نہیں ہوتی اس وحشیانہ درندگی کے بعد قتل کرنا،لاش کو کنویں میں پھینک دینا، گلا کاٹ دینا تیزاب ڈالنا لاش کو مسخ کر دینا،حتی کہ قبر کے مردوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہماری روزمرہ معمول کی خبروں کا حصہ بن چکے ہین۔ جنسی درندگی کا عفریت ہمارے اسلامی ملک میں سر چڑھ کر بول رہا ہے خواجہ سرا قتل ہو رہے ہیں۔ کچھ مہینوں کے بچوں سے لے کر ادھیڑ عمر کے مرد اور عورتوں کے ساتھ یہ درندہ صفت لوگ رال ٹپکاتے بھوکی نگاہون سے اور خون رنگے ہاتھوں سے دندناتے پھر رہے ہین۔حالیہ رپورٹ کے مطابق میں ہر روذ گیارہ بچے جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن یہ اصل تعداد کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بھی نہیں کیوں کہ سماجی شرم رکھنے کی وجہ سے اور ظالم کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اکثر واقعہ سامنے ہی نہیں لگائے جاتے.

آنکھیں نم اور قلم ساتھ نہیں دے رہا ایسی دل چیر دینے والی تصاویر اور خبریں ہمیں روز سننے کو ملتی ہیں ان دلخراش واقعات کو دکھائیں، چھپائیں چیخین، چلائیں یا کوئی مہم چلائی جاے آخر ہم کیا کریں۔ یہ معاشرہ بے حسی کی زندہ مثال بن چکا ہے جیسے دہشت گردی کے واقعات سننا روذ کا معمول بن گیا ہے اسی طرح جنسی درندگی کے واقعات بھی ہمارے معاشرے کی بے حسی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ جنسی سرگرمی یا خواہش پر بات کرنا بھی ممنوع قرار دیا جاتا ہے افسوس یہ نہیں کہ بے حس ہین بلکہ افسوس یہ ہے کہ احساس بے حسی بھی نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار گند کار گندگی پھیلانے سے نہیں گھبراتا تو ہم بات کرنے سے کیوں کتراتے ہیں بداخلاقی پر خاموش رہنا اور اسے برداشت کرنا بڑی بذدلی ہے۔ جنسی درندگی کے سدباب سے پہلے اس کے اسباب اور محرکات کو سمجھنا بہت ضروری ہے تا کہ اس قبیح ترین فعل کا خاتمہ ہو سکے اگر ہم اسباب کی بات کریں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب ممبرومحراب محبت کے درس سے خالی ہوجائیں درسگاہ صرف مادیت کے فلسفے کا درس دیں جب ہر انسان مادی ترقی کی دوڑ میں اجنبیت اور وحشت کے جذیرون میں بسیرا کرے تو اس سے چھٹکارا ناممکن ہے.والدین کا اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن نہ دینا شادیون میں تاخیر، مدارس سکول کالجز میں سکیورٹی کیمروں کا نہ ہونا اسلامی شریعت کے نفاذ کا نہ ہونا کمزور عدالتی نظام طبقاتی تقسیم غیر ہموار سماجی تحفظ میڈیا کے ذریعے جنسی ہیجان کا بڑھنا فحش لٹریچر کا انتہائی سستے داموں میں ملنا نہ ہموار ازدواجی زندگی کا ہونا بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح جنسی گھٹن پر بات نہ کرنے کی اجازت نہ ملنا جنسی درندوں کو سیاسی پشت پناہی کا ملنا وغیرہ یہ سب جنسی درندگی کے عفریت کے محرکات ہیں.

بربریت کی ایسی داستانیں جنسی درندگی کے عفریت نے رقم کی ہے جن کو قلم کی نوک سے قرطاس کے سینے میں پیوست کرنا ناممکن ہے حضرت انسان کے ایسے کرتوتوں سے تو ابلیس بھی شرما جائے ہم سب کو مل کر اپنے اقتدار کو از سر نو دریافت کرنا ہے جنسی درندگی کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنا ہوگا نوجوان طبقے کی کیریرکو نسلنگ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان سماجی خرافات سے بچ سکے اس کے علاوہ یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنا کہ ہمارا بے لگام میڈیا معاشرے میں جنسی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی کوشش میں جنسی واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ماہر تعلیم،اسباب حل و عقد، علما ئے کرام ماہرتعلیم حضرات کو ملکی تعلیمی نظام کا جائزہ لے کر ہماری درسگاہ میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم و تربیت کے نفاذ کو بھی حصہ بنانا ہوگا۔ ضرورتاس امر کی بھی ہے کہ جنسی مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح تربیت اور نفسیاتی بحالی کے سائنسی طریقوں کا جائزہ لیا جائے تو بولڈ ڈرامے فحش لثریچر پر کشش مناظر کی افراط و تفریط لمحہ فکریہ ہے۔ نئی نسل کے لیے صحت مند تفریح کے ذرائع میسر نہ ہونے کی وجہ سے گھٹن کا ماحول ہے جنسی گھٹن کے مسئلہ پر نفسیاتی و فکری حوالوں سے جدید وقت کے خطرات کے حساب سے نمٹنے کی ضرورت ہے . ہم کب تک بے حس معاشرے کا کردار بن کر لاشوں پر بین کرتے رہے گے لاشوں پر بین کرنا متحرک معاشروں کا خاصا نہیں ہوتا.

معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی اپنی حیثیت میں کردار ادا کرنا ہوگا جنسی گھٹن کے موضوعات پر بات کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ جب تک معاشرتی برائیوں کی وجوہات پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو سامنے نہیں لایا جائے گا تب تک معصوم کلیاں کچلی جاتی رہے گی لہذا معاشرے میں جنسی زندگی کے عفریت کے خاتمے کے لیے تعلیمی نظام عمومی معاشرتی رویوں میں تبدیلی کا جامع منصوبہ تشکیل دینا از حد ضروری ہے کیونکہ معاشرے کی ذہنیت تبدیل کئے بغیر محض سخت سزاؤں کے نفاذ سے جنسی درندگی کے مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*