تحریر : وصال محمد خان
وطن عزیزپاکستان میں جنسی درندگی کے واقعات کاسلسلہ دوام پذیرہے ۔ آئے روزاس قسم کی دلخراش خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ” فلاں شہریاگاؤں میں چارسالہ بچی کیساتھ جنسی درندگی ، شقی القلب شخص یااشخاص نے درندگی کے بعدبچی کوگلاگھونٹ کرقتل کردیااورلاش کھیتوں میں پھینک دی ، چھ سالہ بچہ جنسی درندی کے بعدقتل ، مسجدمیں مولوی نے بچے کیساتھ جنسی بدفعلی کرڈالی اور فلاں مفتی صاحب کی بچے کیساتھ بدفعلی یابوس وکنارکی ویڈیووائرل“ ۔اس طرح کے ان گنت واقعات تسلسل سے وقوع پذیرہورہے ہیں مگر رپورٹ ہونے والے کیسزکی تعدادآٹے میں نمک کے برابرہے۔ ان میں بھی معدودے چندکیسزہی منطقی انجام تک پہنچ پاتے ہیں ۔
جنسی درندگی کے یہ واقعات اب ایک عفریت کاروپ دھارچکے ہیں ۔جس سے معاشرے کے ہر بچے،بچی ،لڑکی اورعورت کی عزت وآبروسمیت زندگی بھی خطرے سے دوچارہوچکی ہے۔معاشرے کے فہمیدہ حلقے اس ناگفتہ بہہ صورتحال سے تشویش میں مبتلاہوچکے ہیں اوراسکے خلاف دامے درمے سخنے مختلف فورمزپرآوازاٹھانے کاسلسلہ جاری ہے ۔حکومت اوراسکے متعلقہ ادارے بھی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں ۔مگرجنسی درندگی کاعفریت فی الحال قابو میں آتاہوانظرنہیں آرہااوریہ بدنماداغ معاشرے کے پیشانی پرپورے آب وتاب کیساتھ چمک رہاہے۔ جنسی درندگی کے حوالے سے اگرچہ سیاسی ،سماجی حلقوں سمیت حکومتی کارپردازبھی بیانات داغتے رہتے ہیں اسکی مختلف توجیحات اوروجوہات بھی بیان کی جارہی ہیں۔ مگران واقعات میں رتی برابرکمی دیکھنے کونہیں مل رہی ۔ اگران واقعات کامآخذ جاننے کی کوشش کی جائے تومعاشرتی بے راہ روی اسکی سب سے بڑی وجہ نظرآرہی ہے۔ نوجوان نسل کوفحاشی اورعریانی کے بے پناہ وذرائع دستیاب ہیں ۔انٹرنیٹ پرفحش موادکی کمی نہیں ۔
کچے اورناپختہ ذہن کے مالک نوجوان جنسی ہیجان پرمبنی مواد دیکھتے ہیں جنسی ادویات بھی اب بازارمیں عام دستیاب ہیں۔ جس سے جنسی ہیجان کاکنٹرول انسانی بس سے باہرہوجاتاہے ۔اوپرسے ہمارے معاشرے میں عورت کابے پردہ باہرنکلنااورنامناسب لباس کے استعمال کو بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے اگرلباس کے حوالے سے ایک بیان دیاتواسکے خلاف ملک کے طول وعرض سے بیانات کا طوفان کھڑاکردیاگیا۔حالانکہ وزیراعظم کابیان باد ی النظرمیں بالکل درست تھا۔ہم الحمداللہ ایک مسلمان ملک اورمعاشرہ ہیں اورہماری عورت مسلم عورت ہے ۔مسلم عورت کیلئے دین اسلام نے جس قسم کے لباس کاحکم دیاہے خودکومسلمان کہلانے والی عورت پر ان حدودوقیودکی پابندی لازم ہے ۔مسلم عورت ایک باپردہ عورت ہواوراس کے لباس میں سے جسم کے نشیب وفرازجھلکتے ہوئے نظرنہ آرہے ہوں۔ ہم سب اگراپنے دل پرہاتھ رکھ کریہ غورکریں کہ کیاہمارے معاشرے ، ہماری بستی،محلے یاپھرمیرے گھرکی عورت کالباس ایک مسلم عورت کالباس ہے؟ تویقیناً ہمیں اس کوتاہی پر اپناضمیرملامت کرے گا۔ہم باتیں توبی بی فاطمہ ، بی بی عائشہ ،حضرت عمر اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کی کرتے ہیں مگرہمارے خواتین کالباس ہندوؤں کی پیروی کرتاہوانظرآرہاہے۔ عورت کاجسم نیم برہنہ ہونااوراس پرغیرمردکی نظرلگنے سے ”پاپ جھڑنا“ جیسی واہیات توہندوانہ عقائدہیں۔کیا ٹک ٹاک لائیکی اورسنیکس وغیرہ کیلئے بیہودہ قسم کالباس پہن کراسی قسم کی حرکات کرناکسی مہذب اسلامی معاشرے کے خاتون کوزیب دیتاہے ؟ جنسی ہیجان ابھارنے اورجنسی بے راہ روی میں ہمارے میڈیاکاکرداربھی بدرجہء اتم موجودہے ۔
یہاں بائیک ، شوپالش ، بلیڈ، شیونگ کریم اورداڑھی کے کلروالے اشتہارات میں بھی عورت کانظرآناضروری قرارپایاہے ۔ کپڑے دھونے والے صابن اورسرف میں توعورت لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب توجدیدیت کے نام پراشتہارات میں سرعام عورت کی جانب سے آنکھ مارنا،معنی خیزاندازمیں ذومعنی جملے اداکرنااورقابل اعتراض اشارہ بازی کو بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔شام کوکسی بھی ٹی وی چینل کے سامنے بیٹھ جائیے آپکو 100میں سے 98اشتہارات قابل اعتراض اورجنسی ہیجان والے نظرآئیں گے انہی اشتہارات کودیکھ دیکھ کرشریف زادیوں نے بھی طوائفوں اوررقاصاؤں والاچست لباس اپنالیاہے۔ وہی لباس جوجنس مخالف کے جنسی ہیجان کوبڑھاوا بلکہ دعوت گناہ دیتاہے ۔ناسمجھ اورعقل سے عاری نوجوان کوانٹرنیٹ پربلاروک ٹوک فحش مواددستیاب ہیں ، ٹی وی پراشتہارات کی شکل میں جنسی ہیجان برپاکردینے ولاموادسرعام اور مفت بٹ رہاہے۔ معاشرے کی شریف زادیاں طوائفوں کے چست ، فحش اورنامناسب لباس میں سرعام گھومتی پھرتی نظرآرہی ہیں۔ اس ملک کی عورت آج تک طوائف اورشریف گھرانوں کی لباس میں تمیزکی قابل نہ ہوسکی ۔ جس کے جی میں جوآتاہے وہی پہن کرباہرنکل پڑتی ہے ۔
عورت کانامناسب لباس معاشرے کی بے راہ روی ،جنسی بگاڑ ،جنسی عفریت اوردرندگی کی صورت میں ہمارے سامنے موجودہے ۔ ناپختہ ذہن کے نوجوان کاجب کسی بڑی عورت ، لڑکی پربس نہیں چلتاتووہ کسی آسان شکارکی تلاش میں نکل پڑتاہے۔ ایسے میں اسکے ہاتھ کوئی پانچ چھ سالہ بچی لگتی ہے یابچہ ، وہ اپنے ہوس کی آگ بجھانے سے نہیں چوکتا ۔جنسی ہیجان سردہونے پرجب عقل ٹھکانے آتی ہے توہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں اوروہ اپنی ”عزت“ بچانے کیلئے شیطان کاآلہء کاربن کرقتل جیسے قبیح جرم کاارتکاب کربیٹھتاہے۔ جہاں تک مدرسوں کی بات ہے تومدرسوں میں جنسی بے راہ روی کی بڑی وجہ ”سافٹ ٹارگٹس“ ہیں۔ مدرسے میں استاد کے پاس پانچ سے پندرہ سال کے بچے ہمہ وقت موجودرہتے ہیں جن کے ماں باپ اکثرمیلوں دوررہتے ہیں اوروہ برسوں اپنے بچے کاحال احوال تک نہیں پوچھتے ۔ایسے بچے جومدرسے میں رات بسرکرتے ہیں یہ بچے بڑے لڑکوں اورنام نہاداساتذہ کیلئے آسان ہدف ہوتے ہیں ۔جنہیں وہ بلاروک ٹوک جنسی استحصال کانشانہ بناتے ہیں ۔ایسے اساتذہ کے سرپرشیطان اس قدرحاوی ہوجاتاہے کہ وہ اپنامنصب پدری تک بھلادیتے ہیں اوراللہ کے گھرمسجدمیں اسکی عظیم کتاب کوبھی نظراندازکردیتے ہیں ۔چونکہ معاشرے میں ہرطر ف بگاڑہی بگاڑہے ، افراتفری کاعالم ہے ، آبادی بے تحاشابڑھ رہی ہے ، لوگ اپنے بچوں کودووقت کی روٹی اورچھت مہیاکرنے سے قاصرہیں ،ہرغلط فعل انجام دیناآسان اوردرست کام مشکل ترہورہاہے ۔ انٹرنیٹ ہرخاص وعام چھوٹے بڑے بالغ ونابالغ کے دسترس میں ہے ۔ملکی قانون میں اتنے سقم ہیں کہ بڑامجرم اس سے باآسانی نکل جاتاہے ۔
وزیراعظم نے اس قسم کے مجرموں کو جنسی طورپرناکارہ بنانے کی بات کی۔ جسے کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ اگراس بات کوبغیرسوچے سمجھے مستردکرنے کی بجائے اس پرغوروخوض ہوتا۔جنسی درندگی کاارتکاب کرنے والوں کیلئے کوئی عبرتناک سزاتجویزکی جاتی ۔انتہائی مختصرعرصے میں متاثرہ فریق کوانصاف مل جاتاتویقناً ایسے کیسزمیں کمی ممکن ہے۔ جہاں تک معاشرے کی ذمے داری کاتعلق ہے تواقوام کی تقدیرافرادکے ہاتھوں میں ہے ہم میں سے ہرفرداگراپنی ذمے داریوں کااحساس کرے اورملت کے مقدرکاستارہ بننے کی سعی کرے ، ہرشخص اپنی نوعمربچوں ، بچیوں اوربہنوں کے لباس پرنظررکھے ، انہیں اچھے بھلے کی تمیزسکھائے ، انہیں شریف زادیوں اورطوائفوں کے لباس کافرق سمجھائیں ، اپنے نابالغ اورناپختہ ذہن بچوں بچیوں کواینڈرائیڈموبائل سے دوررکھیں ، یاان پرچیک رکھیں ،اپنے بچوں کی اخلاق سازی پربھرپورتوجہ دیں ، جنسی بے راہ روی اورفحش مواد سے انہیں دوررکھیں ،اپنے کمسن بچے نظروں کے سامنے رکھیں ، انہیں گلی میں کھلاگھومنے پھرنے اورآسان ہدف بنوانے سے گریزکریں ، مائیں اپنی بچوں پرکڑی نظررکھیں ، میڈیاکے ذریعے جنسی درندگی کے عفریت پرپروگرامزنشرکئے جائیں ، اخبارات اس حوالے سے ہفتے یامہینے میں ایک مرتبہ خصوصی اشاعت کااہتمام کریں ، حکومت جنسی درندگی کے خلاف مئوثرقانون سازی کرے ، عدلیہ اس قانون کے مطابق سپیڈی جسٹس مہیاکرے اورسب سے بڑھ کریہ کہ ہم اپنے دین سے حقیقی قربت اختیار کریں، قرآن وسنت کومشعل ِراہ بنائیں ،خیالات کی پاکیزگی کوفروغ دیں،اپنی زندگی کے تمام معاملات پراسلام کواسکی روح کے مطابق نافذ کریں،آئیڈیل ریاست مدینہ اوراعمال شیطنیہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ،لابالی قوم کالیبل اتارپھینکناہوگا۔
ہم آج تک زبرزنااورقتل کے مجرم کوکڑی اورعبرتناک سزاپرہی متفق نہ ہوسکے ،فوری سزاسے جرم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ، والدین اپنے نابالغ یاکمسن بچے کوگھرسے باہررات بسرکرنے کی اجازت قطعاًنہ دیں ۔بچوں کی بلوغت کے فوری بعدانکی شادیوں کابندوبست کیاجائے ۔ہرقدم پراپنے دینِ مبین سے راہنمائی لیں۔ توکوئی وجہ نہیں کہ ہم جنسی درندگی کی بیخ کنی ،سدباب اور تدارک میں کامیاب نہ ہوں ۔ جنسی درندگی کے وجوہات اظہرمن الشمس ہیں۔ان پرسنجیدہ غوروفکر،بحث مباحثوں اورپارلیمنٹ کیلئے واضح قانون سازی کی ضرورت ہے ورنہ معاشرے کے بے لگام وبے سمت قافلے کوذلت کی ا تھاہ گہرائیوں میں گرنے سے روکنامشکل ترہوجائے گا۔