تحریر : راجہ عمر فاروق
آزاد کشمیر کا دنگل رواں ماہ کے آخری ہفتے میں ہوگا اس الیکشن کے حوالے سے دل تھا کہ کچھ لکھوں نہ لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ میری یہ خواہش تھی کہ ہر حلقے سے ہر سیاسی جماعت کے نظریاتی امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہو جائے آپ یقین کرینگے کہ میری نظر میں جو مطلوبہ تعدار تھی اس سے بھی زیادہ تعداد میں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ آپ سے کہنے کا مطلب یہ کہ الیکشن کے قریب آتے ہیں ہر سیاسی کارکن اپنے آپ کو سیاسی رہبر تصویر کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ وجہ ہے کہ میرے حلقے اسلام گڑھ میں اس وقت مسلم لیگ کے نامزد امیدوار کے علاوہ ایک ایسے امیدوار بھی ہیں جن کو پانچ سال تک یہ کہہ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا کہ آمدہ الیکشن میں آپ کو ٹکٹ جاری کیا جائے گا لیکن ستم یہ ہوا کہ جن کے وعدے وعید کیے گے تھے جماعت کے پارلیمانی بورڈ نے ان سرخ جھنڈی دکھا کر ہمیشہ کے لیے اپنے سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن مزہ اس بات پر آتا ہے جب جماعتی امیدوار کے علاوہ دیگر امیدوار یہ کہہ کر الیکشن میں حصہ لیتے ہیں کہ میں اپنے قائد کی نظریات کا پابند ہوں قائد نے ہمیں ہمیشہ حق کے لیے ڈٹ جانے کا درس دیا ہے میں ہمیشہ اپنی جماعت میں رہوں گا یہ ایسے زریں اقوال ہیں جو میری نظر میں سنہری حروف میں درج ہونے چاہیں چاہے کیونکہ ماضی میں ان کی جماعت نے اپنے ہر نتھو اور خیرے کو یہ کہہ کر رام کرنے کی کوشش کی وہ ہمارے آئندہ کے امیدوار ہونگے لیکن سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ ان کی جگہ ان کے مخالف کو ٹکٹ جاری کر دیا بہرحال مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں یہ نورا کشتی جاری ہے حالانکہ اگر میں اپنے حلقے اسلام گڑھ کی بات کروں تو ماضی کے انتخاب کے وقت مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ نے دو چارسے یہ وعدہ کیا تھا کہ ٹکٹ آپ کو جاری کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ نے پھر ایک مرتبہ ایسے امیدوار کو ٹکٹ جاری کر دیا جو ہمیشہ سے ہی ہارے ہوئے لشکر میں شامل رہے ہیں مسلم لیگ نون کے اس کلچر یا وعدہ خلافی کے خلاف مسلم لیگ نون اسلام گڑھ میں سہیل سرفراز گروپ کے کارکنان میں غم و غصہ بھی پایا جاتا تھا اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں میرا موضوع بحث اکثر اوقات میرا آبائی حلقہ ہی رہا ہے جہاں زمانے بھر کی قد آور سیاسی شخصیات رہتی ہیں زمانے بھر کی اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ یہاں ہر سیاسی رہنماء اپنے آپ کو حلقے کی عوام کا مسیحا اور خیر خواہ تصور کرتا ہے اور یہی اسکی سوچ ہے کہ وہ ہی حلقے کے عوام کے مسائل کو حل کروا سکتا ہے ایک یہی سوچ اور نظریہ اسکو ٹکٹ کے حصول کا خواہش مند بنا دیتا ہے آپ اس بات سے اندازہ کر لیں کہ جیسا کے سطور بالا میں تحریر کیا گیا ہے یہاں حلقہ چکسواری و اسلام گڑھ میں مسلم لیگ نون کے تین امیدوار میدان میں اترے ہوئے ہیں جب حلقہ کی یہ صورتحال ہو گی تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے الیکشن کے دنوں میں کیا نتائج اخذ ہونگے دوسرا مسلم لیگ نون کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ پانچ سال تک ہر "نتھو خیرے” کو یہ کہہ کر رام کرتی رہی ہے کہ جماعتی ٹکٹ نتھو کو بھی دیا جائے گا اور خیرا بھی اس فہرست میں سرفہرست ہے .
بہرحال جب پانچ سال تک یہی صورتحال رہی تو یہ امکانات اور ممکنات میں بات آ جاتی ہے کہ ہر امیدوار الیکشن لڑنے کا اہل بن جاتا ہے اب اس الیکشن میں مسلم نون کے کیا نتائج اخذ ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اب اگر الیکشن میں کی طرف ایک نظر دہرائیں تو مقابلے میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مقابل صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار قاسم مجید سے ہوگا کیونکہ اور کہنا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا اس کی ایک خاص وجہ چودھری مجید کا الیکشن سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے چودھری مجید نے طبعیت ناسازی کی وجہ سے جماعتی ٹکٹ واپس کر اپنے بیٹے قاسم مجید کو ٹکٹ جاتی کی درخواست کی جو پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے تسلیم کر لی اس لیے اب وہ وقت بھی ختم ہو چکا جو چودھری مجید کے لیے کبھی سازگار ہوا کرتا اب چودھری مجید کے فرزند قاسم مجید کا مقابلہ دو تین جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنی برادری کے ساتھ بھی ہے بلاشبہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار ظفر انور موجود ہیں جو اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جس سے چودھری قاسم مجید کا تعلق ہے جبکہ ماضی میں ظفر انور کے والد چودھری انور مرحوم اللہ پاک مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ جن کا تعلق مسلم کانفرنس سے ہوا کرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ کیپٹن سرفراز مرحوم کو بظاہر سپورٹ تو کرتے تھے لیکن اندرن خانہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ چودھری مجید کو الیکشن میں فتح سے ہمکنار کروایا جائے جبکہ دوسری طرف سائیں ذوالفقار علی جو مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر اپنا الیکشن لڑ رہے ہیں وہ بھی اس الیکشن میں ان دونوں امیدواروں کو مشکل سے دوچار کر سکتے ہیں جس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت مسلم کانفرنس کا ایک مضبوط ووٹ بینک آزاد کشمیر کے تمام حلقوں میں موجود ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ریاست کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس ایک مرتبہ پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کرئے یا اپنے مخالف امیدوار کو الیکشن میں اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے ناکوں چنے چبوائے جائیں حالانکہ مسلم کانفرنس اس پوزیشن میں موجود نہیں۔ہے کہ وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر لے لیکن یہ کہنا حق بجانب ہے کہ مسلم نفرنس حلقے میں اپنے۔مضبوط اور نظریاتی ووٹ کی وجہ سے کسی ایک جماعت مسلم لیگ نون یا پیپلز کو نقصان سے دوچار کرئے مسلم کانفرنسی ووٹ بینک مسلم لیگ نون کے امیدوار کے لیے اس لیے پریشانی کا سبب کیونکہ مسلم کانفرنسی یہ خیال کرتا ہے کہ مسلم کانفرنس کو توڑنے میں اہم کردار مسلم لیگ نون کا ہے جس نے مسلم کانفرنس کو توڑ کرمسلم لیگ نون کی بنیاد رکھی اور اسی تناظر میں آج جب مسلم لیگ میں اندرون خانہ کو گروپ بندی اور ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی طرف سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے اعلانات سامنے آئے تو ان کی طرف سے وہی ردعمل دیا۔گیا جو آج سے ایک دہائی قبل مسلم لیگ نون کی بنیاد رکھتے وقت دیا گیا تھا۔۔۔۔
حلقہ اسلام گڑھ چکسواری میں الیکشن کی وہ۔صورتحال بن چکی جو تصور میں بھی نہیں آ سکتی اس وقت تین امیدواروں کے درمیان الیکشن فتح کرنے کا مقابلہ ہے جس میں چودھری ظفر انور تحریک انصاف، چودھری قاسم مجید پیپلز پارٹی اور سائیں ذوالفقار علی چودھری مسلم کانفرنس جہاں تک بات ہے چودھری ظفر انور کی تو بلاشبہ انہوں نے ان پانچ سالوں میں الیکشن انتخاب کے حوالہ سے ورک کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ووٹ بینک میں کچھ فرق ضرور پڑا ہے اس حوالہ سے سیاسی پنڈت یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ظفر انور کے لیے الیکشن میں فتح ابھی مشکل عمل ہے اس کے لیے ظفر انور کو مزید محنت کی ضرورت ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ بہت بڑا۔ووٹ حاصل کر لیں گے یہ بات ناممکن ہے تاحال زمینی حقائق کے مطابق ظفر انور اپنے سابقہ حاصل کیے گئے ووٹوں کے قریب ہی پہنچ سکے ہیں جس کی ایک خاص وجہ ان کا ماضی ہے جو لوگ بھول نہیں پا رہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ نون کے امیدوار نذیر انقلابی کی بات کی جائے تو انکے لیے بھی سہیل سرفراز کی صورت میں ایک کٹھن راستہ بن چکا ہے کیونکہ کے الیکشن میں نذیر انقلابی کی سہیل سرفراز نے مکمل حمایت کی تھی جس کی وجہ سے نذیر انقلابی الیکشن میں بھرپور انداز نظر آئے لیکن اس دفعہ جماعت فیصلے کی وجہ سے۔سہیل سرفراز کے ناراض ہونے سے نذیر انقلابی کے لیے سخت مزاحمتی مراحلے ہیں جو پار کرنا تاحال ناممکن ہے اور رہی بات قاسم مجید کی تو وہ بھی اپنے پہلے الیکشن کا مزا لے رہے ہیں جبکہ ماضی میں وہ اپنے والد گرامی کی الیکشن مہم کو بھرپور انداز میں چلاتے رہے ہیں جبکہ اس مرتبہ چودھری مجید فیکٹر یہاں کی عوام کو اس لیے مطمئن نہیں کر سکتا کیونکہ الیکشن میں قاسم مجید الیکشن لڑ رہے ہیں اس کی اہم وجہ دور اندیش لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب وزیراعظم کے عہدے پر چودھری مجید براجمان تھے تو قاسم مجید نے حلقے کی عوام کو وزیراعظم سے دور رکھا جس کی تمام تر ذمہ داری فرزند مجید پر عائد ہوتی اس لیے اس دفعہ الیکشن میں ووٹ اپنی مرضی سے اور اپنے ضمیر کی آواز پر دینگے۔۔۔
یہاں یہ بات لکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ماضی کے الیکشنوں میں حلقے کی عوام کےساتھ منتخب اور غیر منتخب امیدواروں نے جو کیا اس کی وجہ سے حلقہ کی عوام پہلے سے زیادہ سمجھدار ہو چکی ماضی میں بڑے بوڑھوں کے فیصلوں پر ہر چھوٹے بڑے سے سر تسلیم خم کیا اور اپنے بزرگوں کا فیصلہ قبول کر کے ووٹ دیا لیکن اس دفعہ حلقہ دو چکسواری میں ہر امیدوار کے ساتھ ہر ووٹر ہے اور ووٹر بھی اس قدر ہوشیار اور چالاک کے دن کے وقت ہار کسی اور پہنواتے ہیں اور رات کو انہیں ہاروں سمیت کسی دوسرے کو خوش کر کے اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اور اس تمام تر سیاسی صورتحال کا کریڈٹ ہمارے من پسند لیڈران کو جاتا ہے جنہوں نے ہم عوام کو اس قدر لالی پاپ دئیے کہ آج عوام ان کو لالی پاپ بھی دے رہی ہے اور ڈگڈی کی طرح ناچ گانا بھی کروا رہی ہے