بازار حُسن ۔۔ "ایک مکڑی کا جالا” : رانا علی زوہیب

تحریر :    رانا علی زوہیب

بازارِحسن وہ بازار ہے جہاں سورج ڈھلنے کے بعد دن نکلتا ہے ۔ یہاں کے ریت و رواج بھی نرالے ہیں ۔ یہاں کئی ایسی لڑکیاں موجود ہیں جنکا تعلق اچھے گھرانوں سے ہے مگر وہ یہاں لاوارثی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ لاہور کے بازار حسن میں ہر سال 250 سے 300 لڑکیاں آ پھنستی ہیں ۔ یہ لڑکیاں کون ہیں اور کہاں سے آتی ہیں ؟ اس آرٹیکل میں یہی سچ جاننے کی کوشش کی ہے ۔

بازار حسن میں موجود لڑکیوں میں سے کچھ محبت کے غم میں ماری کسی کے ہتھے چڑھ جاتی ہے ، کوئی ممتا کی ماری ہوتی ہے تو کوئی باپ کی شفقت سے محروم ، کسی کو خوابوں کی زندگی میں جینے کی آرزو ہوتی ہے ۔ کچھ لڑکیاں گھروں سے بھاگ کرآتی ہیں تو کچھ کو مجبوریاں یہاں کا راستہ دکھاتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جنکو انکے بھائی ، ماں یا باپ بذات خود بھی یہاں آکر چھوڑ جاتے ہیں پیسے کمانے کے لیے ۔

کوٹھے خانے کی نوکرانیاں اکثر لاہور میں موجود حضرت داتا گنج بخش کے دربار کا چکر لگاتی ہیں اور وہاں سے عورتوں اور لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر بازار حسن کی زینت بناتی ہیں ۔ کوٹھے پر لاکر لڑکی کو نائیکہ کے حوالے کرنے کے 500 روپے لیتی ہیں اور خود چلتی بنتی ہیں ۔ جب لڑکیاں زیادہ عمر کی ہوجاتی ہیں تو انکو کوٹھے کے کمرے سے ہٹاکر باہر چوکھٹ پر دلالی کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے ۔

مکڑی کے جالے کی طرح پھیلے ہوئے جسم فروشی کے اس دھندے میں زیادہ تووہ لڑکیاں پھنس جاتی ہیں جو کسی کے ورغلانے ،عشق ، محبت ، فلمی ہیروئین بننے کے شوق کو سینے میں دبائے اپنے گھر کی دہلیز چھوڑ دیتی ہیں ۔ ایک بار اس دلدل میں پھنس جانے والی لڑکیاں خواہش کے باوجود یہاں سے نکل نہیں سکتیں ۔ انکی واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ایک معاشرہ ہے تو دوسری روپیہ پیسہ ۔۔ جبکہ اس جال کو بننے والے بھی انکو باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دیتے۔

یہ کام ہی ایسا ہے کہ ایک لڑکی جو یہاں آجائے اسکو ہر آدمی بولتا ہے کہ یہ طوائف ہے تو اسکو داغ تو لگ گیا ۔ وہ جہاں بھی جائے گی طوائف ہی کہلائے گی ۔ لے جانے والا کوئی کوئی ہوتا ہے ۔دلاسے دینے والے چند لوگ آتے ضرور ہیں وعدہ بھی کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں ۔۔

بازار حسن کی ٹبی گلی اس حوالے سے بدنام ترین جگہ مانی جاتی ہے ۔ اس گلی میں 300 کے قریب گھر ہیں اور کسی بھی گھر میں بنا اجازت داخل ہوسکتے ہیں ۔ یہی عمل جو یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں انکو ایسی عبارتیں (یہ پردہ دار گھر ہے یہاں اجازت کے بغیر داخل ہونا منع ہے ) لکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ٹبی گلی میں زیادہ تر چھوٹی عمر کی لڑکیاں ہیں جو گناہ کی اس دلدل میں آدھنستی ہیں ۔گناہ کے اس کاروبار میں ملوث ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ گاؤں سے اپنی بہن سے ملنے آئی تھی ۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ کیا کام کرتی تھی ۔ یہاں آکر پتا چلا تو اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ رکھ لیا ۔

بازار حسن میں موجود لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوتا ہے ۔ ان میں سے بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جنکے گھر والوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں ۔ ان پر شہر کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں لیکن دیہات میں مقیم انکے اہل خانہ کو یہی پتا ہے کہ وہ شہر میں نوکری کررہی ہے اور پردیس میں گھر والوں کو ماہانہ خرچ بھی بھیجتی ہیں جن سے انکا چولہا جلتا ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق گھر سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں میں سے 70 فیصد لڑکیاں لاہور کے مختلف درباروں پر آتی ہیں ۔ 18 فیصد لاری اڈہ پر ، 10 فیصد ریلوے اسٹیشن اور 2 فیصد سڑکوں پر گھومتی رہتی ہیں ۔ درباروں ، سٹیشن اور لاری اڈے سے انہیں خاص گروہ کے لوگ ورغلا کر بازار لے آتے ہیں جبکہ بعض لڑکیوں کو پولیس والے بھی پکڑ کر انہیں گلیوں میں جھونک دیتے ہیں ۔

تحفظ کے نام پر پولیس اہلکار لڑکیوں کو پکڑتے ہیں اور بازار حسن کی زینت بنا دیتے ہیں ۔ ایسی لڑکیوں میں سے چند ہی دارالامان یا ایدھی ہوم جیسے فلاحی اداروں تک پہنچتی ہیں ۔ ان میں سے کئی لڑکیاں واپس اپنے وارثوں تک نہیں پہنچ پاتی۔انہیں کوئی نہ کوئی ورغلاکر ایسی ہی اندھیری گلیوں میں لے جاتا ہے ۔ پھر انکی واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے ۔

یہ کہانی ہے اس بازار کہ جہاں کوئی سہارا ہوتا ہے تو نہ سکھ کا کنارہ ، یہ وہ دلدل ہے جس میں دھنستے ہی جانا ہے ۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*