مشرکوں کی آگ سے روشنی نہ لو!۔

قاری محمدعبدالرحیم
فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ میں کافر طبیب سے علاج کے حوالے سے،مسائل کے بیان میں امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ نے بعض سلف علمائے امت کے حوالے دیتے ہوے، کچھ واقعات نقل فرمائے، جن میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ قابلِ توجہ ہے، آپ لکھتے ہیں کہ امام رازی بیمار ہوگئے،تو ایک یہودی طبیب سے علاج کرانے لگے، لیکن آپ مکمل تندرست نہ ہو پارہے تھے ایک دن اس طبیب کو تنہائی میں بلا کر پوچھاکہ سچ بتا کہ تو علاج درست کررہا ہے تو اس نے کہا اگر آپ سچ پوچھتے ہیں تو ہمارے نزدیک آپ جیسے امام کو مسلمانوں سے کھونا، اس سے بڑا ثواب کاکام اور کوئی نہیں، تو آپ نے اس سے نجات حاصل کی اور اس کے بعد صحت یاب ہوگئے، پھر آپ نے علمِ طب پرتوجہ دی اوراس میں کتابیں لکھیں اور اپنے شاگردوں کو طبیبِ حاذق بنایا، فقیر نے کورنا کی آمد سے قبل ہی علماء کی ایک میٹنگ میں (مولینا خادم رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر)عرض کیا تھا کہ آپ علمائے کرام اپنے نصابِ تعلیم میں پرانے درسِ نظامی کے نصاب کو نافذ کریں کہ اس میں میز ان الطب پڑھائی جاتی تھی، اوراکثر علمائے کرام ہی اعلیٰ درجے کے حاذق طبیب ہوے ہیں، لہذااس زمانے میں جب ماڈرن ڈاکٹری نے انسانوں کو صرف تجربہ گاہ بنا یاہوا ہے، اور طبِ یونانی بھی جوموجودہ دورمیں ایلو پیتھک کی لونڈی بن چکی ہے، اور اس کے ماہرطبیب بھی بجائے طبعی طریقہِ علاج کے علاجِ ِ جراثیم کررہے ہیں، جس سے انسان کی قوتِ مدافعت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اور اس کے علاوہ چونکہ ایلوپیتھک طریقہ علاج ایک بین الاقوامی تجارتی ذریعہ بن گیا ہے، اس میں ڈاکٹر اپنی رائے اور اپنی تحقیق کچھ نہیں رکھتا بلکہ جو اسے whoکہے اسے وہ ہی کرنا پڑتا ہے، بلکہ اس کے علم میں سوائے مشینی رپورٹیں پڑھنے کہ اور کچھ بھی نہیں ہے، امراض پرتحقیق ادارہ کراتا ہے، اور ادویات ادارہ بنواتا ہے، آگے ان ادویات کو مریضوں پر تجربہ ہمارے یہاں کے ڈاکٹر کرتے ہیں، خودوہ نہ دوابنا سکتے ہیں، نہ کسی مرض کی تشخیص کرسکتے ہیں، اور پوری دنیا کے داکٹر اس جال میں پھنس کر انسانی مسیحائی کے بجائے انسانی قصائی کا کردار بنے ہوے ہیں، یہودیوں نے اس شعبہ صحت کو اپنے قبضے میں کرکے پوری دنیا کو آج یرغمال بنا لیا ہے، کورونا کیا ہے کیا نہیں،اس کو چھوڑیں لیکن غور اس بات پرکریں کہ ہنی مین نے لکھا ہے کہ اس نے ایک کتے کو دیکھا جسے بخار تھا وہ ایک پہاڑی پر گیا، اوروہاں وہ کوئی گھاس کھارہا تھا ہنی مین نے دوسرے روز بھی اس کا مشاہدہ کیا وہ پھر گیا ور وہی گھاس کھائی اب کتا صحت یاب ہوگیا ہنی مین نے اس بوٹی کو اکھاڑا ور اسے کھایا تو ہنی مین کو بخار ہوگیا اب اس نے اسی بوٹی کی مقدار کم کر کے لی تو بخار ختم ہوگیا،اس سے اس نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج بنایا،اورآج کل ویکسین بھی اسی طریقہ پربنائی جاتی ہے، آپ سوچیں کہ کتے کو توا للہ نے عقل دی تھی کہ وہ اپنی مرض کا علاج ڈھونڈے اور آج کے انسان کو یہ حق بھی حاصل نہیں یا اسے ایک جانور جتنی بھی عقل نہیں کہ وہ خود اپنی بیماری کا علاج ڈھونڈے، کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کہ اس کا علاج whoوالے جب ڈھونڈیں گے تو پھر اس کاعلاج ہوگا، آج پوری دنیا کے انسانوں سے گذارش ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہیں، اس انسانی ہمدردی کے پردے میں انسانوں کو غلام تو نہیں بنایا جارہا ، اور پھر مسلمان اس بات پر توجہ دیں کہ کیا ان کا دین اس قسم کی خود سپردگی، کسی کافرکو کرنے کی اجازت دیتا ہے َ؟ایک طرف تو ہم نعرے لگاتے ہیں کہ ایمان پر جان بھی قربان ہے اور دوسری طرف ہم جان بچانے کے جھوٹے لالچ میں آکر کہیں ایمان سے ہاتھ تو نہیں دھورہے،؟اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ تو فرماتے ہیں کہ کفار ومشرکین کبھی تمہارے خیرخواہ نہیں ہوسکتے، لیکن ہم پوری امت کو بزورِ حکومت مجبور کررہے ہیں کہ ان کو خیرخواہ مانو! اور ان کے ہر حکم پہ سرِ تسلیم خم کرلو!آج پوری دنیا اس وبا کے خوف سے اپنے دین ودھن سے جارہی ہے، بت پوجھنے والے بتوں سے ڈرتے ہیں خدا کو پوجھنے والے اس کے گھر سے ڈرتے ہیں، اورصوفیا کہتے ہیں ”اک بندے دا دل نہ توڑیں رب دلا ں وچہ رہندا“ تو بندہ بندے کو دور ہی سے کہتا ہے، ”لا مساس“مجھے چھونا نہ، لہذاحکومت اور عوام کو چھوڑ کر میں علمائے امتِ اسلامیہ سے گذارش کروں گا، خداراامت پررحم کریں،اور امامِ رازی کی طرح طبِ اسلامی کی طرف رجوع کریں اور اس پر تحقیق کریں، اور سب سے پہلے اپنے علاج ومعالجے ڈاکٹر سے بندکریں اور اس بات پر یقین کرلیں کہ ”لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا“ کہ ہرگ زہمیں وہ نہیں پہنچ سکتا جو اللہ نے ہمارے لیے نہیں لکھا ہوا، اور موت کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے وہ نہیں آسکتی،فروعی مسائل میں امت کو الجھانے کے بجائے، امت کی بقاکے اصلی مسئلہ پرتوجہ دیں ورنہ کل بارگاہِ رسالت میں کیا جواب دوگے، حکمران تو اسوقت کہیں گے ہم جاہل تھے، یہ آپ کے وارثانِ دین نے ہم کوکب بتایاتھا، لیکن آپ کے پاس کیا جواب ہوگا؟ جبکہ میرے نبی ﷺ نے فرمایا ہوا ہے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمہِ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے، لہذااس جہاد کے لیے نکلواوراپنے اسلام کی نورانی قندیلوں کو چھوڑ کر مشرکوں کی آگ سے روشنی نہ لواللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی عزت وسربلندی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے،کہ انسانیت کی نجات صرف اور صرف اسلام کے ہاتھ میں ہے، کہ میرے نبی ﷺنے ہرقل کو لکھاتھا ”اسلم تسلم“ اسلام قبول کر سلامتی میں آجاے گا۔ وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*