ضرب افضل
لاہور ہائی کورٹ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے ابھی بہت کم عرصہ ہوا ہے میری زیادہ تر صحافتی پریکٹس سیاسی ہے ، آج کا آرٹیکل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کے کمرہ عدالت کا احوال ہے جس میں چیف جسٹس قاسم خان نے ایک اہم کیس کی سماعت کی تو اس کیس میں انہوں نے کیا کہا اور کیا ریماکس دیے ، پبلک نیوز کے اینکراورکورٹ کے سنیئرجرنلسٹ میرے بھائی ادریس شیخ صاحب اور میں کمرہ عدالت میں حیران کھڑے چیف جسٹس کے ریماکس سن اور لکھ رہے تھے اور حیران تھے کہ جو سچ ہم نجی محفلوں میں تو ڈسکس کرتے ہیں لیکن کسی قانونی پلیٹ فارم پر اسکا اظہار کرنابھی غداری ہے اور اس قدر ممنوع ہے کہ اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.
قارئین اب آپ لفظ با لفظ وہ پڑھئیے جوچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے محکمہ اوقاف کی زمین پر ایلیٹ فورس کے قبضے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران کہے ، چیف جسٹس قاسم خان نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پولیس کی بات کررہے ہیں یہاں آرمی نے ہائیکورٹ کی 50کینال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے، آرمی چیف کو رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ خط لکھیں گے، میں آج رجسٹرار کو کہہ رہا ہوں آرمی چیف کو لیٹر لکھیں یہ آرمی کیا کر رہی ہے، رجسٹرار میری طرف سے یہ لیٹر لکھے گا،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ لگتا ہے فوج سب سے بڑی قبضہ گروپ بن گئی ہے، کل کور کمانڈر اور ڈی ایچ اے کو بلا لیتا ہوں ، یہ معاملہ رسہ گیری کی ایک قسم ہے،فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے ، میرے منہ سے فوج سے متعلقہ جملہ غلط نہیں نکلا، اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے سچ بلوایا ہے، آرمی کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنا رسہ گیری کی ایک قسم ہی ہے.
درخواست گزار نے کہا کہ اراضی سے متعلق مخالف کا تعلق آرمی سے ہے اور وہاں سے جواب نہیں آتا،چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ مجھے بطور جج11سال ہوگئے ہیں کسی کی جرات نہیں کہ آج تک مجھے جواب نہ جمع کروائے، مجھے جواب منگوانا آتا ہے اور یہ صرف دو دن کا کام ہے، ڈی ایچ اے لاہور اور سی سی پی او لاہور کو بلوا لیں آج اور ابھی، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کے وکیل سے مخاطب ہوئے اورکہا کہ آپ لوگ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں ،لوٹ کر کھا گئے ہیں آپ لوگ اس ملک کو، وردی قوم کی سروس کے لیے ہے بادشاہت کے لیے نہیں ہے، آپ وردی پہن کر بدمعاشی کرتے ہیں اور لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں.
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر ستی کو طلب کر تے ہوئے ڈی ایچ اے کے وکیل کو کہا کہ برگیڈئیر صاحب کو کہیں اپنے سٹار اور اپنی کیپ اتار کر آئیں،ہو سکتا ہے ادھر سے ہی انھیں جیل بھیج دوں، چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او لاہور کو کہیں کہ اگر پانی ہے تو خود ا جائے ورنہ آئی جی آئے، چیف صاحب نے زرہ مسکراتے ہوئے ریماکس دیے کہ ویسے تو آئی جی میں بھی پانی نہیں ہے، سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی ،سی سی پی او عدات میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے غلام محمود ڈوگر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سی سی پی او صاحب، ڈی ایچ اے نے اندھیر نگری بنائی ہوئی ہے، اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو نوکری چھوڑ دیں..
چیف جسٹس نے سی سی پی او کو حکم دیا کہ اگر ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی بھی درخواست آجائے تو فوری پرچہ دیں، تمام ایس ایچ اوز کو کہہ دیں،آرمی کے وردی پہننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دوسروں کی جائیدادوں پر قابض ہو جائیں، اگر انتقال نہیں ہوا تو یہ تو نہیں ہے کہ سپاہیوں کی چار پانچ گاڑیاں بھریں اور قبضہ کرنے چلے گئے یہ بدمعاشی ہے ،سارے ادارے کام کررہے ہیں، پولیس اور ہم کام نہیں کررہے، ان کے ریٹائرڈ آدمیوں کیلئے سب کچھ، ہماری لیے کالونیاں نہیں بن سکتی.
چیف جسٹس نے ریماکس دیے یہی لوگ اقتدار پر قابض رہے ہیں، انھی نے تو قانون سازی کی ، وکیل صاحب بریگیڈیئر سے کہیے گا کہ کل سارا ریکارڈ لیکر آئیں، عدالت نے ڈی ایچ اے کے لاہور کے سب سے بڑے افسر کو طلب کر تے ہوئے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمینوں پر قبضے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملک کے ساتھ کھلواڑ چھوڑ دیں، کل میں رجسٹرڈار کی مدعیت میںڈی ایچ اے کے خلاف پرچہ کروا رہا ہوں، عدالت نے کمشنر لاہور ،ڈپٹی کمشنر لاہور کو بھی پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ریماکس دیے کہ آپ کی جو کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں وہ سب منہدم کروا رہا ہوں،عدالت نے چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کو بھی فوری طلب کر لیا.
متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر ڈی ایچ اے کے قبضے کیخلاف درخواستوں میں درخواست گذار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 300 کنال سے زائد متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی 2020سے لیز پر حاصل کی،ڈی ایچ اے نے لیز شدہ اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ ڈی ایچ اے سے قبضہ واگزار کروانے کا حکم دیا جائے، کیل ڈی ایچ اے نے عدالت کو بتایا کہ 2007ءمیں لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار نے بطور چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ ڈی ایچ اے کو 1742 کنال زمین دی، 2007میں متروکہ وقف املاک نے 1742 کنال زمین کے بدلے 33 فیصد ڈویلپڈ پلاٹ مانگے.
پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف اختر ہاشمی نے بطور چیئرمین 33 فیصد کی بجائے 25 فیصد پلاٹ مانگے ،متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی میں سکھ کمیونٹی کا گوردوارہ بھی آتا تھا، سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے از خود نوٹس لیا اور گوردوارہ سکھ کمیونٹی کو دینے کا حکم دیا،چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے کہاں کہا کہ آپ قبضہ کرلیں، آپ اپنے افسران کو بلوا لیجیئے آپ کےخلاف پرچہ دیتا ہوں، وردی قوم کی سروس کیلئے ہے بادشاہت کیلئے نہیں،وردی ملک کی خدمت کے لیے ہے بدمعاشی کے لیے نہیں.
چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے پوچھا کہ اس وقت میں کون ہے ڈی ایچ اے کا سربراہ، میرے پاس پٹیشن آجائے تو پھر بتاو¿ں گا کہ قبضہ کیسے کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہے کوئی مردمجائد جو عدالت کی پچاس کینال پر فوجی قبضے کے خلاف پٹیشن فائل کرئے ، اس موقع پر وکیل سردار فرحت عباس چانڈیو نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا کہ مائی لارڈ میں کروں گا…
ایڈوکیٹ فرحت عباس چانڈیو نے کچھ ہی دیر بعد پٹیشن تیار کرکے رجسٹرار ہائی کورٹ کو دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ پلیز آپ ڈائریکٹ چیف جسٹس صاحب کو دیں ، انہوں نے پٹیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ کو دے دی مزید کاروائی کل ہو گئی ۔۔۔ یاد رہے اس آرٹیکل میں لفظ با لفظ وہ لکھا گیا ہے جو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کے کمرہ عدالت میں ہوا لہذا مجھے غداری کا سرٹیفکٹ دینے سے پہلے حقائق کو مدنظر رکھا جائے ۔۔۔ شکریہ