قاری محمد عبدالرحیم
میں اپنے شدائد وطالب علمی کے زمانے میں تھا گوکہ طالب علمی توابھی بھی ختم نہیں ہوئی البتہ اس وقت ابتدائی طالب علم تھا،،توایک نوجوان خطیب جامع مسجدانوارِ مدینہ رکھیال اسلام گڑھ میں لائے گئے،وہ اچھے سریلے اوردلکش آوازوالے تھے،اس کے علاوہ وہ اس وقت کے مطابق ایک اچھے عامل یا پیربھی تھے،جس کی وجہ سے اکثرعوام انہیں شاہ جی کہنے لگی،حالانکہ وہ آرائیں برادری سے تھے،اوروہ اکثر لوگوں سے مختصر جملے میں کہہ دیتے تھے کہ میں سید نہیں ہوں،اسی طرح وہ حافظِ قراں بھی نہیں تھے،لیکن لوگ انہیں حافظ صاحب ہی کہتے تھے،یہ لوگ بھی بڑے ضدی ہوتے ہیں اورانہوں نے اسی طرح ہندوستان میں اکثر غیر اولادِرسول ﷺ لوگوں کو،اولادِ رسول ﷺ بننے پر مجبور کردیا ہے،اور پھرایک مقولہ بھی ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہِ خدا سمجھو،لہذاآج دنیا میں اکثر فسادی قسم کے اولادِ رسول ﷺ جوہیں وہ اسی نقارہِ خداکے ذریعے ہی اس منصب تک پہنچے ہوے ہیں، چلوہمیں کیا،ہاں تومولینا جن کا اسم شریف محمداسحاق ساقی تھا،اور یہ ساقی کا لقب شاید انہیں ان کے مربی پیر سید محمدامین علی شاہ نے دیا تھا،البتہ وہ اصل نام کے بجائے اپنے لقب ہی سے مشہور ہوے،میں بھی جوایک مدرسے کا طالبعلم تھا،ان ساقی صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا،اور مجھے بھی عملیات وغیرہ کا بہت شوق تھا،میں اکثران سے ان معمولات کے بارے میں پوچھتا ر ہتا،اورمیرے خیال میں بھی اکثر لوگوں کی طرح یہی تھا کہ یہ سب ان کے پیرومرشد ہی کی دَین ہوگی،لہذامیں ان سے ان کے پیر صاحب کے بارے میں پوچھتا تووہ کہتے وہ بڑے صاحبِ زہدو تقویٰ اور اولادِرسول ﷺبھی ہیں،انہوں نے ہم نوجوانوں کو اپنے پاس رکھ کرزہد کی تعلیم وتربیت دی، ہم راتوں کو جاگتے تھے اکثرروزے رکھتے تھے،اورہم کو چندوظائف باقاعدگی سے آپ نے کرائے ہیں، جن کا یہ ثمر ہے،میرے دل میں لالچ پڑی اور ان سے پتا مانگا،اور پیرصاحب سے خط وکتابت شروع ہوگئی،پیرصاحب ایک فیاض آدمی تھے،وظائف کی طلب پر سورہ مزمل شریف کی ایک خاص ترکیب اور اسمِ یا ودود کی اجازت عنائت فرمادی،اور میں اس میں جُت گیا،اسی دوران میں جناب پیر صاحب سے بیعت بھی کرلی،اب جوعرض کی کہ قبلہ ساقی صاحب توجنات وموکلات کا کام بھی کرتے ہیں،یہ اگر مجھے بھی عنایت ہوجائے تو،توپیر صاحب نے فرمایا،ہماراتومقصدرضا الٰہی ہے،ہم کسی مقصدوفن کے لیے نہ عمل کرتے ہیں،نہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں،ساقی صاحب نے کیا پتا کس سے سیکھاہے،اس کے ساتھ ہی مجھے کھوج ہوئی کہ ساقی صاحب جس مدرسے میں پڑھتے ہیں ان استادِ محترم سے ملنا چاہیے،چونکہ اس سے پہلے تو میں اس مدرسے میں نہیں گیا تھا حالانکہ وہ مدرسہ بھی ہمارے علاقے میں ہی تھا،لیکن ہمارے مدرسے ایک ہی مسلک کے ہونے کے باوجود،ایک دوسرے سے طلباء کودورہی رکھتے ہیں،اورمیں پہلے جس مدرسے میں پڑھتا تھا،وہ اس مدرسے کواچھی تربیت گاہ نہیں سمجھتے تھے،یہ رقابت چاہے اپنی حرصِ شہرت کے لیے ہوتی ہے یا حرصِ مال کے لیے البتہ یہ انسانی کمزوری ہے ضرور،توبالآخر میں بھی قرات وتجویدسیکھنے کے لیے بوساطت ِساقی صاحب خود اس مدرسے میں داخل ہوا،اب جا کے عقدہ کھلا کہ حضرت استاذی المکرم صرف علومِ اسلامیہ ظاہری کے ہی نہیں بلکہ علومِ باطنی کے بھی فقیدالعصرشخصیت ہیں،توپھرمجھے آپ قبلہ سے شرفِ تلمذ کے علاوہ نیازِ باطن بھی ہوگئی،قبلہ حضور چونکہ ہمارے استاد تھے،اور ہمارے معاشرے میں ادب واحترام کی ایک شق یہ بھی ہے کہ جس کا بندہ احترام کرے اس کے نام تک کوبھی نہ لے،اسی لیے بعض لوگ اپنے پیر مرشد کو،صرف حضرت صاحب یا قبلہ صاحب کہتے ہیں،بلکہ بعض خدارسیدہ تو یہ زبردستی کہلاتے ہیں،میرے ایک محسن صاحب جاہ جلال عالمِ دین بزرگ جب گدی نشین ہوے توہمارے علمائے دین نے انہیں قبلہ صاحب کا خطاب دے دیا،اگر کوئی میرے جیسا نادان انہیں صاحبزادہ صاحب کہہ دیتا تووہ اس سے بات ہی نہ کرتے تھے،اسی طرح ہمارے معاشرے نے عورتوں کواس پر بات پر پابند کیا ہواتھا کہ عورت اپمے خاوند کا نام نہیں لے سکتی بلکہ بعض لوگ توسمجھتے تھے، کہ اگر عورت خاوند کا نام لے گی تواس کانکاح ٹوٹ جائے گا،اسی لیے کوئی مجبور عورت جس کے خاوند کانام رحمت اللہ تھا،وہ جب نماز پڑھتی توسلام پھیرنے کے وقت کہتی السلام علیکم و”نکے کا ابا“کہتی یعنی رحمۃ اللہ نہ کہتی،اسے ڈر تھا،کہیں نماز پڑھتے پڑھتے اس کا نکاح ہی نہ ٹوٹ جائے، اسی طرح سے ہم نے پابندادب رہ کراپنے استاذی المکرم کا شجرہِ نسب نہ پوچھا کہ کہیں بے ادبی ہی نہ ہوجائے،اوریہی وجہ ہے کہ آج ہم ان کے حالاتِ زندگی سے بے خبرہیں،البتہ شمع کب تک جلی اورکہاں سے جلی کے بجائے جہاں سے ہماری آنکھ کھلی توہم نے شمع کوجلتے دیکھا وہاں سے روداد چلاتے ہیں،استاذی المکرم اس وقت چکسواری ضلع میرپور آزاد کشمیر میں ایک نہایت ہی نوتعمیر مدرسہ میں بطورصدر مدرس تعینات تھے، اگر یہ کہا جائے کہ وہ بانی مدرسہ تھے تو بے جانہ ہوگا،جب بندہ نے بطورِ طالبِ علم اس میں شرفِ باریابی پایا،تواس وقت اس کی حالت اصحابِ صفہ کے چبوترے سے قدرے ملتی تھی،ایک برآمدہ نمامسجد جس کی چھت کیکر کی لکڑی کے کے کمزور بالوں اور اس پر شاید بھٹے کی ٹائلیں پڑیں تھیں،چھت اوپر سے کچی مٹی سے بند تھی،دیواریں بھی گارے کی چنائی کی تھیں،سامنے دروازے نہیں تھے،کھلا بر آمدہ ساتھا،فرش مٹی سے لیپا ہواتھا،ایک استنجا خانہ تھا،ایک نیم پختہ سی نالی وضوکا پانی بہانے کے لیے تھی،پانی کی ٹینکی کے بجائے ڈرم بھرے پڑے تھے،لوٹے جا بجا کھلے پڑے تھے،جیسے آج کل ہماری سیاسی جماعتوں میں لوٹے پڑے ہوتے ہیں کوئی کسی کا استنجا کرا رہاہے توکوئی کسی کووضوکراررہا ہے،ہاں تواس مسجد کا فرش تو مٹی کا تھا ہی لیکن اس پر بچھی چٹائیاں بھی ٹوٹی پھوٹی تھیں،انہیں ٹوٹی چٹائیوں پر ایک معذورشخص جس کا بائیاں بازواور دائیں ٹانگ پیدائشی پولیوزدہ تھیں ،البتہ وہ بچپنے اور جوانی میں لاٹھی کے سہارے چل پھرسکتے تھے،وہ نہایت طمانیت اور سکون کے ساتھ دن بھر تعلیم دیتے،آپ کے علم وفضل اور تدریس کی بھرپور صلاحیت جو آپ نے اس سے پہلے بعض دوسرے مدرسوں میں دکھائی تھی،طلباء کے لیے وجہ کشش تھی،بنا بریں آخری درجات کے طلبارہائش کہیں باہررکھ کربھی آپ سے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے،اس وقت چکسواری شہر کے اندر ایک مدرسہ جو حفظ اور ابتدائی درسِ نظامی کی کتابیں پڑھاتا تھا اور وہ مدرسہ ڈھانگری شریف کے مدرسہ سے منسلک تھا کچھ طلباء اس کے بھی پڑھنے کے لیے حضرت استاذی المکرم کی خدمت میں حاضر ہوتے،آزادکشمیر کے نام سے مشہور طوطی آزاد کشمیر جناب مولینا غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ جوسرائے عالمگیر کے علاقے کے تھے،وہ بھی اس وقت استاذی المکرم سے ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے،چونکہ وہ ابتداً نعت خوان تھے،اور پھر فیضانِ استاذی المکرم سے انگلینڈ کے مشہور خطباء سے ہوکر رحلت فرمائی،بندہ نے جب اس حالات کے مدرسہ میں پہلی بار قدم رکھا توکچھ حیران ہوا کہ یہ کیا حالت ہے،اس رتبے کے اساتذہ توبڑے جاہ جلال والے ہوتے ہیں،تویہ معذور شخص کس قدر عالی ظرف ہے کہ نہ کروفر نہ اسباب و آسائش لیکن بڑے بڑے طلباء سرجھکائے بیٹھے ہیں، تومجھے خیال آیا کہ علامہ نے انہیں کے لیے کہا ہے،نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہوتو دیکھ ان کو،یدِ بیضالئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں۔(جاری ہے)