آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

مولانا محمد عبداللہ لدڑوی رحمۃ اللہ علیہ

میرپورآزادکشمیرمیں چندمشہورروحانی خانوادوں میں سے ایک خانوادہ مولینامحمدعبداللہ لدڑوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے،مولیناکے اجدادمیں سے ایک روحانی بزرگ محمدآمین رحمۃ اللہ علیہ جن کا مزارآج بھی پرانا لدڑ زیر آب منگلاڈیم میں موجود ہے،کہا جاتا ہے کہ بابا محمدآمین رحمۃ اللہ علیہ لدڑ گاوں کے بانی ہیں انہوں نے اس زمین پرآکرڈیرہ ڈالااورآبادی کی بنیادرکھی، یاد رہے یہ خاندان اصل میں قریشی النسل ہے، اور اس میں روحانیت کا عنصر تسلسل سے چل رہا ہے،۔باباامین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں اورمریدوں کے ساتھ سرزمین لدڑ کو آباد فرمایا،اسی خاندان سے ایک بندہ باباکمال جوہندودورمیں مسلمانوں میں ایک ساہوکارتھا،اوراس نے اپنی دولت سے قرب وجوارکے راجاوں سے بھی زمینیں خریدلیں تھیں، توراجاوں نے ڈوگرہ حکمران سے ایک حکم جاری کرایا تھا کہ کوئی غیرزراعت پیشہ فرد زمین کا مالک نہیں ہوسکتا اسی وجہ سے زراعت پیشہ لوگوں کومحکمہ مال میں مالک لکھا جاتا ہے،اورباقی مالکانِ زمین کے لیے غیرموروث لکھاجاتا ہے،اس کی وجہ بننے والا بھی اسی خاندان مولینا عبداللہ کا ہی ایک فردتھا،مولیناعبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بتایا جاتا ہے، کہ آپ جوان ہوے شادی کی اورآپ کے ایک بچی بھی تھی،جب آپ گھرکوچھوڑکرعلم حاصل کرنے چلے گاجامع دہلی سے ہوتے ہوے آپ سرزمینِ عرب میں حصولِ تعلیم کے لیے چلے گئے آپ کی سندِ فراغت مدینہ شریف سے تھی، اسی دوران آپ اولیاء اللہ سے بھی فیض یافتہ ہوتے رہے، اس زمانے کے مشہورعالم اورروحانی بزرگ امداداللہ مہاجرِ مکی سے آپ کو سندِ خلافت بھی حاصل ہے، گھرسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاپتہ رہنے والے مولینا کے والد صاحب کوکسی حاجی نے بتایا کہ آپ کے بیٹے محمد عبداللہ مدینہ پاک کی مسجدنبوی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،تووالد جواپنے بیٹے کے فراق میں مغموم تھا مشکل حالات میں سفرکرتے مدینہ شریف میں اپنے بیٹے سے ملنے گئے،اورکعبۃ اللہ کی زیارت اورروضہ رسولﷺ کی زیارت سے بھی مشرف ہوے، بیٹے سے ملے اوربیمارہوگئے،اوروہیں وصال فرماگئے،اوران کو مدینہ پاک کی سرمین میں ہی تربت نصیب ہوگئی،مولیناعبداللہ اب جوواپس اپنے وطن کو آرہے تھے توکوئی صرف مولوی ہی نہ تھے، بلکہ اتنے بڑے روحانی بزرگ بن چکے تھے، کہ کہتے اس زمانے کے میرپورکے سب سے اعلیٰ نصب ولی جناب پیرسید نیک عالم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کسی حجام سے حجامت بنوارہے تھے، تواسے فرمایا ذرارک جا،وہ رک گیا تو آپ نے فرمایا ماشاء اللہ بھئی آپ کے قبیلے کا ایک فرد آج میرپورمیں آ رہا ہے،وہ نورکی ایک شمع کی طرح ہے جس کی روشنی بڑے دوردورتک پھیل رہی ہے،یہ پیرصاحب نے اپنے کشف سے فرمایا تھا،پھرکہا جاتا ہے،کہ جب مولینا عبداللہ اپنے گاوں میں پہنچے توپیرصاحب نے اپنے سنگیوں سے فرمایاصبح مولینا عبداللہ لدڑوی سے ملنے کے لیے چلناہے، جب پیرصاحب اپنے گاوں گڑھاسیداں سے چلے تومولیناعبداللہ کوبذریعہ کشف معلوم ہوگیا تو آپ نے اپنے سنگیوں سے فرمایا کہ پیر صاحب سید آلِ رسول ہیں وہ ادھرمجھے ملنے کے لیے چل پڑے ہیں،چلونکلو کہ پیرصاحب کے استقبال کے لیے آگے چلناہے تودونوں بزرگوار ایک دوسرے کو گورسیاں کے مقام پر ملے مولینا نے پیر صاحب کی قدم بوسی کی اورپھر انہیں ساتھ لے کر اپنے گاوں لدڑمیں تشریف لائے۔ آپ روحانیت اورعلم دین میں ایک بلندمقام کے حامل تھے،اس زمانے کے بڑے بڑے اولیاء اس بات کے معترف تھے،جن میں پیرسیدجماعت علی شاہ علی پورسیداں،پیرحیدر شاہ صاحب جلال پورشریف،پیرسیدمہرعلی شاہ صاحب گولڑہ شریف،اورباباقاسم جی موہڑہ شریف ان سب سے حضرت مولینا کی ملاقات اورتعلق ثابت اورواضح ہے، اوراس زمانے کے مشہورآستانہ باولی شریف کے صوفی باصفاپیرصوفی غلام محی الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت اورخلافت حاصل تھی۔ مولیناصاحب ِفتویٰ عالم تھے، آپ کے مسلک کے مطابق جمعہ صرف شہر کے اندرہوسکتا تھا، لہذاآپ نے اپنی مسجد لدڑ شریف میں جمعہ کاقیام نہ کیا بلکہ آپ نے میرپورشہرجواس وقت ہندووں کی حکومت کے علاوہ غالب ہندو آبادی کا شہرتھا، اس میں ایک مسجد محلہ گکھڑاں جوشاید گکھڑوں کی جب میرپورپرحکومت تھی اس وقت کی تھی، جوہندودورِ حکومت میں ویران اوربردپڑی تھی اس ٹوٹی پھوٹی مسجد کوہندووں کے دورمیں وہاں جاکرصاف اور درست کرایا جوکسی روحانی طاقت کے کرشمے کے علاوہ مشکل تھا،اورپھراس مسجد میں جمعہ کاقیام فرمایا۔ آپ کے تین بیٹے تھے، جن میں ایک مولینا عبدالعزیز رحمۃ اللہ اوردوسرے مفتی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ،تیسرے عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ جوسنِ طفلی میں اللہ کو پیرے ہوگئے تھے۔حضرت مولینا عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب پرانا میرپورمیں گکھڑوں والی مسجد کو بحال فرمایا تومولوی عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ایک شہرہ آفاق خطیب بن چکے تھے، آپ کومولینا نے ڈدیال میں جمعہ پڑھانے کے لیے مامورفرمایا ہواتھا،مولینا عبدالعزیزکی آوازمیں اس قدر سحرتھا جوآپ کی تقریرسن لیتا پھر آپ کا گرویدہ ہوجاتا،ڈڈیال میں ایک سکھ ساہوکارکا ایک ہی بیٹاتھا جس کانام ہربنس سنگھ تھا، اس نے مولینا کی تقریرسنی تووہ مولینا کے پاس بیٹھ گیا، اورشاید اس نے اپنے والد سے بتادیا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے،وہ سکھ بابالدڑ شریف میں مولیناعبداللہ صاحب کے پاس حاضر ہوا،توجناب نے پوچھا”سردار جی خیراے ناں“ تواس نے دست بستہ عرض کیا حضورمولوی عبدالعزیز صاحب کو ڈڈیال جمعہ پڑھانے نہ بھیجا کرو،تومولینا نے پوچھاوجہ؟ توروکرکہنے لگااگریہ اس بارجمعہ پڑھانے ڈڈیال آئے تومیراہربنس مجھ سے چلاجائے گا،توحضرت نے سردار سے فرمایاسردارجی میرے پاس مولوی تواورکوئی نہیں جسے میں وہاں بھیجوں،البتہ اگرتو نہیں چاہتا توتیراہربنس تیرے پاس ہی رہے گا،تواس کے بعدوہ سکھ لڑکاظاہراً اپنے باپ کے ساتھ ہی رہایہ آپ کا تصرف ِ قلوب تھا۔ گکھڑوں والی مسجد اس طرح مولینا محمدعبداللہ صاحب کی ذاتی مسجدتھی،وہ کسی محلے یا کمیٹی کی مسجد نہ تھی،جوپرانا میرپور آزاد ہونے کے بعدآپ کی ذاتی ملکیت اورجائیدادتھی جس پر آپ کے بیٹے مفتی عبدالحکیم مالک تھے،جواکیلے اپنے باپ کے وارث تھے، چونکہ مولیناعبدالعزیزبھی مولینا عبداللہ کی موجودگی میں ایک حادثے میں وصال فرماگئے تھے۔ پرانامیرپورجب زیرِ آب منگلاڈیم ہواتومفتی عبدالحکیم ضلع مفتی میرپورتھے، انہوں نے اپنی مسجداورمدرسہ کامعاوضہ نہ لیا، بلکہ واپڈانے انہیں اس زمین کے عوض میرپورمیں زمین اور مسجدومدرسہ تعمیرکرکے دیاتھا،جوان کی پراپرٹی ہے، مفتی صاحب کی وفات کے بعد سے اس پراپرٹی کوکچھ مافیاز ہتھیانہ چاہتے ہیں،جس کے لیے وارثوں میں اختلافات چلارکھے ہیں،جوقابلِ مذمت ہے،لہذاحکومت سے گزارش ہے،کہ وہ اس بات کونوٹ رکھے کہ مسجدومدرسہ مفتی عبدالحکیم میرپور،مفتی صاحب کی پراپرٹی ہے اس لیے اس کا تمام انتظام وانصرام وارثانِ مفتی عبدالحکیم کے پاس ہی رہ سکتا ہے ناکہ کہ کسی عوامی کمیٹی کے پاس۔، اللہ تعالیٰ حق وسچ پرعمل کرنے اوراس پرقائم رہنے کی توفیق عطافرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*