ثقافتی گوگی کا افطار ناٹک اور محکمہ خزانہ کا مجاہد : ایڈووکیٹ ریاض

ثقافتی گوگی کا افطار ناٹک اور محکمہ خزانہ کا مجاہد : ایڈووکیٹ ریاض

تحریر: ایڈووکیٹ ریاض

صدا دینے والے کو حکم ہے کہ صدا لگائے۔ کوئی سنے نہ سنے اس سے قطع نظر معاشرتی علتوں پر بات کرنا زبان درازی نہیں۔ بات شاہوں کے دربار میں بیٹھے وزیر مشیر وہ گوئیے ہیں جو خود کو سننے سے بھی قاصر ہیں۔ موت اور زندگی کیا ہے؟ بزرگ بتاتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی جیا جا سکتا ہے جسم کو کھاد کرو اور اگلی نسلوں کے لیے سانس بنو۔ جاتی عمرہ کے قیدی کے زنداں کی دیواریں اتنی اونچی نہیں کہ ہر آواز اس دیوار سے سر ٹکرا کر نڈھال ہوتی رہے۔ کچھ آوازیں لا شعور کی بھی ہوتی ہیں جو شعور ڈھونڈھتے ڈھونڈتے اس پار ضرور جاتی ہیں جہاں خوشامد کا بسیرا نہ ہو۔ صدا لگانے سے اگر سماجی ارتعاش جنم لے تو سمجھ لیں ابھی آپ زندہ ہیں وگرنہ یہاں زندگی کی تعریف ہر میز پر مختلف ہے۔ سانس لینا زندگی نہیں؟ مریم بی بی آپ کو اونچا سنائی دیتا ہے؟ وگرنہ ہمیں آپ کی سماعتوں پر اختیار نہیں مگر اپنے کہے، کیے، سنے پر پشیمانی کا اختیار ضرور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو کوئی پشیمانی بھی نہیں سو صدا لگائیں۔ عدالتوں کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اچانک یہ خیال آیا کیا عدالتی نظیریں سب ردی کا ڈھیر ہیں جو ظلم کرتا ہے منصف اسی کو قانون کے مطابق تاکید کر کے دوبارہ ظلم دہرانے کا موقع دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار ظالم، ظلم کو دی گئی قانونی چھوٹ کے دائرہ کار میں ملفوف کر کے پیش کرتا ہے۔ مداخلت برداشت نہیں ہو گی۔ صاحب بہادر کو مداخلت برداشت نہیں مگر جو مداخلت ریاستی ادارے اور ان کے پرزے پاکستان کی ترقی میں کر رہے ہیں وہ ہم سب پاکستانیوں کو برداشت کرنی پڑے گی۔ کیوں کہ کون ہے جو صدا لگائے؟ یاد رکھو صدا لگاؤ یا نہ لگاؤ، موت برحق ہے تمہارے لاشے تمہارے ظلم کی منہ بولتی تصویر ہوں گے۔ تمہارے جنازوں پر ہونے والی سرگوشیاں تمہاری عوامی کہانیاں بیان کریں گی۔ موت ایک ایسا مسلسل عمل ہے کہ جس پر گریہ زاری آج تک انسانی سماج کا حصہ ہے۔ عدالتوں میں بھی روز گریہ زاری ہوتی ہے۔ یہ کوئی قبرستان ہے؟ آنکھ بند کی تو نا چاہتے ہوئے بھی ساہیوال آرٹس کونسل کے بابر کی موت کا پھر احساس ہوا۔ پرماننٹ ورک مین پرماننٹ بے غیرتوں کے سماج میں زندہ رہا۔ آج تک اسے انصاف نہیں ملا تو زندہ لاشوں کو انصاف کہاں ملے گا؟ اچھا ہوا بابر نے شعبدہ باز بلال حیدر کا دور زیادہ نہیں دیکھا۔ نفسیاتی بیمار کلرک نے جو ثقافت کے ساتھ کھلواڑ کر دیا ہے اس کے سہولت کار ساہیوال شہر کے زیڈ کے شیردل کا بیٹا نہیں بنے گا۔ یہی امید ہے کہ آئین اور عدالت عظمیٰ کے نظائر سے بالا ہر غیر قانونی عمل پر بلال حیدر کو جواب دینا پڑے گا۔ سوال کچھ ایسا ہی ہے؟ ادارہ پنجاب آرٹس کونسل کے جعلی اور غیر قانونی تشکیل پانے والے بورڈ آف گورنر کے ذریعے پنجبا بزنس رول 2011 کا مذاق اڑایا گیا اور محکمہ خزانہ کی منظوری کے بغیر آسامیوں کے نام، تعداد میں تبدیلی کر دی گئی۔ نگران حکومت کے گیسی غبارے نے خود کو زمینی خدا سمجھ رکھا تھا۔ عدالتوں کے دروازے پھر عوام پر ظالم کے آگے نئی شنوائی کا مژدہ سنا کر بند کر دئیے گئے۔ کئی آسامیاں ختم کر کے بھی آج تک ان آسامیوں پر تعینات ملازمین کا مستقبل واضح نہیں اور واضح کیوں کر ہو۔۔۔ سب کچھ ہی غیر قانونی ہے اور تھا۔ مریم بی بی یاد رکھیے گا کوئی ایکس پوز فیکٹو اپروول بھی نئے عدالتی نظائر میں غیر قانونی تصور ہو گی۔ ہاں مگر آپ کی سہولت کے لیے عدالتی نظام کی رسی بہت دراز ہے۔ ملازمین سر پٹختے رہیں گے اور آپ کا دور حکومت چلا جائے گا۔۔۔ آپ کو ہمت کرنا ہو گی ایسے ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا جو نظام میں پائی جانے والی خرابیوں سے سماجی بگاڑپیدا کر رہے ہیں۔ خدا نا کرے یہ سماجی بگاڑ ایک دن ہمیں وحشی کر دے۔ مجاہد شیر دل آپ کے دفتر کے ہر تیسرے چوتے دن چکر لگانے والا نوکر شاہی کی ثقافتی گوگی آئے روز آپ کے زیرِ سایہ کام کرنے والوں کو دھمکانے اور اکسانے آتا ہے۔ نگران وزیراعظم کا ہم لاحقہ اس کا بیج میٹ ہے۔۔۔بچئیے گا۔ قانون کے مطابق نگران حکومت کے دوران پنجاب آرٹس کونسل میں غیر قانونی تشکیل دئیے گئے بورڈ آف گورنر کے فیصلوں کی توثیق پنجاب بزنس رول 2011 سے انحراف ہو گا۔ اس گوگی نے ہر ممکن یہ کوشش کرنی ہے کہ اپنے ہوش و حواس میں کیے گئے غیر قانونی عمل سے آپ کو بدحواس کر دے۔ اس گوگی کے پنجاب آرٹس کونسل کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کا کوئی سر پیر نہیں الٹا آئے روز ثقافت پر حملہ آور ضرور ہو رہا ہے۔ عظمیٰ بخاری اور مریم بی بی تک آواز پہنچانے کے لیے ہمارے پاس بڑے بکاؤ پٹواریوں کا جتھا نہیں۔ سنا ہے الفاظ ہوا کے گھوڑے پر دیواریں پھلانگ لیتے ہیں سو ایک بار پھر دستک دے کر دیکھ لیتے ہیں۔ شتر بے مہار، مادر ہدر آزاد اس بلال حیدر المعروف ثقافتی گوگی کو نتھ نہ ڈالی گئی تو اس کا خمیازہ کہیں نہ کہیں پورا نظام بھگتے گا۔ سنا ہے کچھ ہی دنوں بعد بابر کی موت بھلانے کے لیے پنجاب آرٹس کونسل کے دالان میں چھوٹے ملازمین کے ساتھ یہ گوگی” بلال حیدر” افطار ناٹک لگانے جا رہا ہے۔ سرکاری خزانے سے بریانی کی پلیٹ کے بدلے ضمیر خریدنے اور آوازیں بند کرنے کا کھیل اس بابرکت مہینے میں بھی کھیلا جائے گا۔ اس کے بعد اس ہی تشہیر موجود بکی میڈیائی قلموں سے کی جائے گی۔ بابر مارا گیا مگر پنجاب آرٹس کونسل کے دالان سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ اتنے میں آواز بلند ہوتی ہے بابر بنام ثقافتی گوگی۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*