ناروے میں پاکستانی صحافی و دانشور سید مجاہد علی کی کتاب " گفتگو" پر تبصرہ : قیوم راجہ
ناروے میں پاکستانی صحافی و دانشور سید مجاہد علی کی کتاب " گفتگو" پر تبصرہ : قیوم راجہ

ناروے میں پاکستانی صحافی و دانشور سید مجاہد علی کی کتاب ” گفتگو” پر تبصرہ : قیوم راجہ

تبصرہ : قیوم راجہ
گفتگو کے عنوان سے سید مجاہد علی صاحب کی کتاب گزشتہ سال 2023 میں اظہر سنز پرنٹرز لاہور نے شائع کی۔ گفتگو اسی اور نوے کی دہائی میں ناروے سے شائع ہونے والے ایک معیاری جریدے کاروان کے پر مغز، پر اثر اور تارکین وطن کی ہجر و ہجرت کی درد بھری تاریخی داستانوں پر مشتمل اداریوں کا مجموعہ ہے۔ یوں تو یورپ کے کئی اور ترقی یافتہ ملکوں میں جس طرح پاکستانیوں کی کشید تعداد بسلسلہ خاندانی کفالت گئی وہاں ناروے میں بھی کافی تعداد میں پاکستانی گے تھے لیکن سید مجاہد علی ان چند تعلیم یافتہ اور پر عزم پاکستانی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے اپنے ہموطنوں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے تارکین وطن اور مہمان ملک کے درمیان کاروان کی شکل میں ایک پل تعمیر کیا۔ انہوں نے جہاں زبان اور سماج سے ناواقفیت کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات حل کرنے کی کوشش کی وہاں کاروان کے ذریعے آنے والے وقت کے لیے اپنے لوگوں کو زہنی طور پر تیار کیا۔ قاری کو کاروان کی حقیقی تعریف کاروان کے پہلے اداریے کی پہلی سطر سے ہو جاتی ہے جس میں مصنف لکھتے ہیں:
"میں مستقل سفر ہوں اور سراپا عزم ہوں۔ میں جہد ہوں اور جہاد ہوں۔ میں مسلسل چلتے رہنے کھوجتے رہنے ، جستجو کرنے اور کبھی نہ تھکنے کا نام ہوں۔ میں کاروان ہوں۔ "

مصنف کی تعلیم یافتہ اہلیہ یاسمین مجاہد عزم کی اس داستان کا ایک جاندار کردار ہیں جنہوں نے تارکین وطن کے لیے مصنف اور انکے جریدے کاروان کی تاریخی خدمات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں کتاب کی شکل میں محفوظ کرنے کا دانشمندانہ مشورہ دیا۔ گفتگو کے نام سے یہ کتاب ناروے میں تارکین وطن کی ایک ایسی تاریخ ہے جسے تارکین وطن کی موجودہ نسل کو لازمی پڑھنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں انکے ابائو اجداد کا کیا کردار ہے ۔ ماضی اور حال کا موازنہ کرنے سے نوجوان نسل کے اندر اپنے مقام و مرتبے کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور انکے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آج ان کے پاس جو کچھ ہے وہ یوں ہی نہیں مل گیا بلکہ یہ انکے بڑوں کے خون پسینے کی کمائی ہے اور انہوں نے خود بھی آنے والی نسلوں کے لیے اپنے حصے کا ورثہ چھوڑ کر جانا ہے۔ گفتگو کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب سے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کسی بھی انسان کی ترقی کے لیے زبان کی جانکاری ایک بنیادی ضرورت ہے۔ زبان ہی کے ذریعہ سے دوسروں کی ثقافت سمجھنے اور اپنی تاریخ و ثقافت اجاگر کی جا سکتی ہے ۔ یہ کتاب 376 صفحات پر مشتمل ہے اور ائی جی ایف پبلیکیشنز 9 رینی گن روڈ لاہور سے دستیاب ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*