ثقافت اور اس کے تقاضے : قیوم راجہ

میں سترہ سال کی عمر میں میٹرک کے بعد اپنے بڑے بھائی نزیر راجہ کے پاس ہالینڈ چلا گیا تھا۔ یورپ میں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ گرفتاری کے بعد ایم اے جیل میں کی۔ میٹرک تک نصابی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ برصغیر میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلم آباد ہیں جنکی الگ الگ تہزیب تمدن اور ثقافت ہے لیکن عملی طور پر معلوم ہوا کہ ہندو کوئی ایک قوم ہے نہ بر صغیر کے مسلمان ۔ ہندو اگر ذات پات کی بنیاد پر اپنے ہی ہم مزہب لوگوں کا استحصال کرتے ہیں تو مسلمان بھی ذات پات پر پورا یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ اصل اسلام کے بجائے مسلکی اسلام اور فرقہ پرستی کا شکار ہیں۔ اس گروہ پرستی کے خلاف جو آواز بلند کرے گا اس پر کوئی نہ کوئی لیبل لگا کر بد نام کیا جائے گا۔ یہاں مزہب و سیاست نے جو رنگ و رخ اختیار کیا اس سے یوں لگا جیسے پیری مریدی اور لوٹ کھسوٹ پاکستان کا دوسرا نام ہے۔ اس کشمکش میں ہم یورپ جا پہنچے۔ اپنی تاریخ و ثقافت سے یورپی لوگوں کی گہری دلچسپی نے ہمیں بھی اپنے اندر جھانکے کی ترغیب دی اور سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم کون ہیں؟ جب ہم کہتے کہ ہم مسلمان ہیں تو پوچھا جاتا کون سے مسلمان ؟ سنی وہابی یا شعیہ۔ ایسے سوالات سے اندازہ ہوا کہ مغرب ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتا ہے۔ ہالینڈ میں میں نے ڈچ سیکھی۔ کسی وجہ سے میں وہاں سے جرمنی چلا گیا۔ ہالینڈ میں ڈچ زبان نے میرے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ کسی معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اس کی زبان بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ احساس جرمنی جا کر مزید پختہ ہو گیا جہاں کسی قوم کی تاریخ و ثقافت کی اہمیت کا حقیقی ادراک ہوا کہ تاریخ و ثقافت کے بغیر کوئی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جس کے لیے مادری زبان واحد چینل ہے۔ مادری زبان سے حقیقی محبت کا اندازہ مجھے ایک جرمن جج اور جرمن اور فرانسیسی نسل کے ایک پروفیسر فرینکلن بورس کے طرز عمل و فکر سے ہوا۔ جرمنی کی ایک کریمنل کورٹ میں مجھے بطور مترجم بلایا گیا جہاں دو ایشیائی باشندوں کا کسی مقامی شخص کے ساتھ جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس دن پھانسی پانے والے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے چھوٹے صاحبزادے شہنواز بھٹو اور معروف دانشور و ادیب راجہ انور بھی سٹٹگارٹ جرمنی پہنچے تھے جہاں مجھے بھی دعوت تھی۔ میں اس کشمکش میں پڑ گیا کہ عدالت جائوں یا مہمانوں سے ملوں جس کے نتیجے میں عدالت پہنچنے میں تاخیر ہو گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ جرمن وقت کے بہت پابند ہیں اور جج صاحب برا منائیں گے کہ میں نے عدالت کا وقت ضائع کیا۔ ٹرام سٹاپ پر اترا تو چلنے اور دوڑنے کے درمیان والی رفتار میں جب عدالت پہنچا تو دیکھا کہ سیاہ گوند میں ایک مرد کوری ڈور میں کھڑا ہے۔ میں نے سوچا کوئی وکیل ہوگا۔ سو اسے نظر انداز کر کے میں آگے بڑھ گیا۔ پیچھے سے اس مرد نے آواز دی: Sind sie Hernn Quayyum کیا آپ قیوم صاحب ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ اس مرد نے کہا :
"Bitte kommen sie mit. میرے ساتھ ا جائیں۔ میں جب ان صاحب کے ساتھ اندر گیا تو وہ جب جج کی کرسی پر جا کر بیٹھ گے تو میں انکی سادگی سے بڑا متاثر ہوا۔ جج صاحب نے گفتگو شروع کر دی ۔ مجھے
پوچھا آپ کہاں رہتے ہیں تو میں نے کہا شٹٹگارٹ ۔ جرمن میں ایس کو ش کی آواز میں پڑھا جاتا ہے لیکن ایشیائی لوگ ایس کو س کی طرح پڑھتے ہیں۔ جج صاحب کو لازمی اس کا علم ہوا ہو گا جسکی وجہ سے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کا لہجہ تو جرمن ہے۔ آپکو یہاں کتنا عرصہ ہو گیا؟ میں نے کہا ایک سال ۔ اس پر جج صاحب کو خوشگوار حیرت ہوئی تو پوچھا میں نے اتنی اچھی جرمن ایک سال میں کیسے سیکھ لی؟ میں نے کہا مجھے جرمنی اور جرمن دونوں بہت پسند ہیں۔ جرمن جج صاحب اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ابھی نوجوان ہوں اور مجھے وکالت کرنی چاہیے جس کے لیے میری رہنمائی کی بھی پیشکش کی لیکن مجھ پر تو تحریک آزادی کشمیر کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ جج صاحب کی پیشکش کو نظر انداز کر کے میں لبریشن فرنٹ کی شاخ قائم کرنے کے لیے پیرس چلا گیا۔ جرمنی سے میرے ایک دوست رزاق مغل نے کہا کہ جرمن خاتون کے ساتھ جرمنی میں شادی کسی وجہ سے رجسٹر نہیں ہو رہی اور میں پیرس میں متعلقہ ادارے سے اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کروں۔ اس صورت میں وہ ہونے والی بیوی کو لے کر پیرس ا جائیں گے۔ اپائنٹمنٹ مل گئی۔ رزاق مغل قلا بازیاں کھاتے ہوئے پیرس پینچے۔ نکاح کی رسم کے بعد اگلا مرحلہ مقامی پولیس سٹیشن جا کر پتہ لکھوانا تھا۔ وہاں اور بھی کافی ایشیائی تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ایشیائی ہماری گفتگو سمجھے جسکی وجہ سے میں اور رزاق جرمن زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ پاس کھڑا ایک یورپی مرد مسکرایا اور پھر کہا بڑی دلچسپ بات ہے۔ آپ چہروں سے ایشیائی لگتے ہیں۔ ہو فرانس میں اور بولتے جرمن ہو۔ چونکہ یہ بات اس نے جرمن زبان میں کئی تو میں نے اس کے ساتھ بھی جرمن تہزیب و تمدن کی تعریف کی۔ اس نے اپنا تعارف بطور سوشیالوجسٹ کروا کر ہمیں چائے کی دعوت دی۔ دوران چائے مسلہ کشمیر پر بھی گفتگو ہوئی تو پروفیسر نے ستے یونیورسٹی میں متوقع کانفرنس میں مجھے دعوت دی۔رزاق مغل کو تو جرمنی واپس جانا تھا۔ میں کانفرنس میں گیا جس کے بعد پروفیسر بورس مجھے جرمنی کے معروف قومی شاعر گوٹے کے نام پر قائم گوٹے انسٹیٹوٹ لے گے جہاں میرا تعارف ادارہ کی انچارج خاتون روزویٹا سے کروایا گیا جس نے مجھے کہا کہ وہ اوور ٹائم کام کر کے تین ماہ کی موسم گرما کی چھٹیاں لے کر سرینگر ہر سال جاتی ہے۔ ان تین شخصیات جج، پروفیسر اور گوٹے انسٹیٹوٹ کی ناظمہ نے محض جرمن زبان بولنے کی وجہ سے مجھے ایسی اپنائیت دی جیسے میں انکی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوں لیکن انکا اصل مقصد اپنی تاریخ ، ثقافت اور تہزیب و تمدن کو اجاگر کرنا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ کم عمر آدمی ہے ۔ اس کے اور بھی دوست ہوں گے۔ اس کے ذریعے ان تک ہماری ثقافت متعارف ہو گی۔ اسے لکھنے کا بھی شوق ہے اور یہ ہمارے کام آئے گا لیکن پاکستان پر مسلط سیاسی نظام اور اس کے ادارے اتنے عقل مند ہیں کہ وہ سوچتے ہیں کہ انکا معاشرہ صرف درآمد شدہ زبان، نصاب اور تہزیب و تمدن پروان چڑھانے سے ترقی کرے گا۔ اس کوشش میں وہ جموں کشمیر کی تاریخ تہذیب و ثقافت کو بھی مٹانے کے درپے ہیں لیکن انشاللہ اس ناپاک کوشش میں وہ خود مٹ جائیں گے کیونکہ اسلام کی جڑیں اتنی کھوکھلی ہیں نہ اس خطے کی کثیر الثقافتی تہزیب و تمدن اور ثقافت۔ جرمنی پر دوسری جنگ عظیم کے بعد چار بڑی قوتوں سوویت یونین، امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا لیکن جرمنی ایک بار پھر آج انکے برابر ایک بڑی قوت ہے۔ اگر وہ اپنی تاریخ تہزیب و تمدن اور ثقافت بھول جاتا تو جرمنی آج ان چار قوتوں میں تقسیم ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*