آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

نئے سال کی سوغات : قاری محمدعبدالرحیم

ہمارے ملک میں ہرسال بدلنے کے ساتھ خودنہ بدلنے والے کچھ نہ کچھ ضروربدل دیتے ہیں،اس کی ایک زندہ مثال ہمارا تعلیمی نظام ہے، جہاں ہر سال نصاب کی کتابیں ٹائٹل تبدیل کرکے یا اندرون میں لکھے ابواب کو آگے پیچھے کرکے بدل دیتے ہیں، اب ایک بچے کو جو کتاب پہلے نیلے رنگ کے ٹائٹل میں تھی اب سبز رنگ جو ہوگی تو وہ،اپنے ابوسے کہے گا ابو اسکول میں اب یہ نیلے رنگ والی نہیں پڑھائی جاتی بلکہ یہ سبز رنگ والی لاکر دیں، توباپ بے چارے کو اپنے بچے کواحساسِ کمتری سے بچانے کے لیے،اب سبز رنگ والی جس کی قیمت پہلے سے پانچ گناہ زیادہ ہوگی ہوتی ہے خرید کردینا پڑے گی،اسی طرح ہماری ”کماٹھو“ ریاست بعض سال میں نصاب کی کئی کتابیں مارکیٹ میں لاتی ہے،اوراکثر بڑی کلاسزکی کہ جہاں پہنچے ہوے بچے کو امتحان پاس کرنا،یا خودکشی کرنا ان دونوں میں سے ایک کو چننا ہوتا ہے،نصف سال گزر چکا ہوتا ہے، سرکاری اداروں کو بالخصوص نصاب کے متعلق پتا نہیں ہوتا کہ کون سی کتاب تیار کرائیں یعنی پرچے کس کتاب سے آئیں گے،اس طرح تعلیم حاصل کرنے والے نونہالانِ قوم پیسوں پہ پیسوں کی فرماءئشیں اپنے والدین سے کر کے خود تو خودکشی سے بچ جاتے ہیں لیکن والدین کو بے موت مرنے پرمجبور کردیتے ہیں،اسی طرح ریاست کاہر کارندہ اس میں جتنا اختیار ہے وہ پورے زور سے لگا کر اس ملک کو بنانے کے لیے اوراس قوم کو لوٹنے کے لیے لگاتا ہے، لیکن عجیب تماشہ قدرت ہے کہ قوم تو کنگال ہولیکن ملک بھی کنگال ہوچکا ہے۔کبھی کسی نے سوچا کہ ایساکیوں ہے؟لیکن سوچنے کے لیے اس قوم کے پاس وقت نہیں،کیونکہ سوچتے وہ ہیں جو عوام سے لے کر کارکنانِ ریاست تک سب ایک قوم ہوں،لیکن یہاں ایک قوم ہونا تو دور کی بات ہے،انسان ہونا بھی نہیں سمجھا جاتا،جوملازم ہوجاتا ہے،وہ باقی لوگوں کو ڈھوردنگر سے بھی کم سمجھتا ہے، پاکستان بننے کے بعد سے اور بالخصوص پاکستان نیا ہونے کے بعد سے آج تک پستی ہی میں ڈھلتا جارہا ہے، مہنگائی قحط کی طرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے، انتشار اور بدامنی صومالیہ کی سی صورت اختیار کرچکی ہے، ریاستی ادارے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں، ریاست ملک کو بچانے کے لیے وزیروں مشیروں اور ملازموں کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافے کرنے میں مصروف ہے، ادھر غریب عوام کے منہ سے نوالاچھیننے کے لیے، کئی طرح کے قانونی ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں بجلی کے بلوں، گیس میں،تیل پیٹرول میں ہوش ربا اضافہ اورپھر اس کے ساتھ جرمانوں اور سرکاری دستاویزات بنوانے کی فیسوں میں اضافہ ہر بدلتے سال کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے،کیوں کہ ملک کی اکانومی کو بچانا ہے، ابھی نئیے سال کی یکم تاریخ سے دوسرکاری اعلان جو نظر سے گزرے وہ یہ تھے،گوکہ انکی خبر سوشل میڈیا سے دیکھی ہے، اور سوشل میڈیا پاکستان کیا دنیا بھرمیں قابلِ اعتبار نہیں، لیکن ہم بہرِ صورت پاکستان کی روشِ جاریہ کے تحت اس کو ماننے پرمجبور ہیں، پہلی خبریہ تھی کہ یکم جنوری سے انٹر نیٹ چارجز میں دس فی صد اضافہ ہوجائے گا، اوردوسری ٹریفک پولیس کی تھی کہ ٹریفک قوانین کے کی خلاف ورزی کی صورت میں جو جرمانے پہلے سینکڑوں میں تھے،وہ اب ہزاروں میں ہوں گے۔کیوں؟ کیا جب ہزاوروں میں تھے تولوگوں نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں نہیں کیں، کہ اب ہزاروں میں کرنے سے وہ بالکل بھی نہیں کریں گے،یا پھرکیا محکمہ نے اپنے کارکنوں میں اضافہ کرلیاہے، جن کی تنخواہ کوپورا کرنا ہے، یا پھر پچھلے زمانے میں ایک حکومت نے اس کارِ خدمت کے بدلے میں پچیس فی صدجرمانے میں سے اہل کارکو دئیے جاتے تھے، کہیں اب بھی وہ انشورنس کا کاروبارجاری تو نہیں،ٹریفک پولیس کی کارکردگی یہ ہے، پچھلے دنوں ایک کارڈرائیورنے بتایا کہ ترقی والے موڑوں میں راولپنڈی جاتے ہوے مجھے روکا گیا کہ یہاں رفتارچالیس میل ہونی چاہیے،تم اسی میل کی رفتار پرہو جرمانہ دو دوسری کار والا بھی اسی میل رفتار پرہی تھا لیکن اسے چھوڑ دیا کہ ہمارے سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے ایک فیصلے میں کہا ہوا کہ ”ہوسکتا ہو اسے یاد نہ رہا ہو، لہذاہرکسی کو سزاور جرمانہ نہیں کیا جاسکتا“ اورچونکہ سپریم کورٹ کا کوئی غلط فیصلہ بھی اس وقت تک قابلِ عمل ہوتا ہے، جب تک خود سپریم کورٹ ہی اس فیصلے کو فل کورٹ سے ختم نہ کرے،لہذاپولیس بھی اس طرح ایک کو چھوڑ کر ایک کو جرمانہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے تحت مجبور ہے،دوسرایہ کہ اس ڈرائیورنے کہامیں نے عرض کیاجناب آپ جرمانہ کررہے ہیں،لیکن یہاں کوئی سائن بورڈ اویزاں نہیں جس سے ڈرائیور آگاہ ہوسکے کہ اس ایریا میں رفتار اتنی رکھنی ہے،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ محکمہ ہائی وے کاکام ہے، ہم توصرف سپیڈ چیک کرسکتے ہیں،کیا جس ملک میں سرکاری مشینری،صرف عوام کو قابوکرناہی اپنا فرض سمجھتی ہو،اور خود کسی کام کی ذمہ داری قبول نہ کرتی ہو،وہاں پھر عوام اداروں پر حملے کرنے والوں کو ہی ہیروسمجھے گی نا، حکومت کو چاہیے ہے کہ پہلے سرکاری اہل کاروں کو عوام کوجرم سے بچانے کیلیے ایسی جگہوں اور حالات کی نشاندہی کریں کہ یہاں اس لمٹ سے تجاوز کرناجرم ہے، لہذااس سے بچیں۔دوسرایہ کہ ملکی حالات اس وقت جس ظلم کی حد تک مہنگائی اور بے روزگاری میں جکڑے ہوے ہیں، ایسے حالات میں جب لوگ روٹی کے نوالے کوترس رہے ہیں، عوام پراس قدر جرمانے بڑھانے سے کیا عوام کو ملک سے نفرت پر مجبور نہیں کیا جارہا،کیاانتشار کو ہوا نہیں دی جارہی، قوم اور ملک کے ہمدرداہل اقتدار واختیار اس پرتوجہ دیں، کہ یہ چھوٹی چھوٹی چنگاریاں جب الاو بن گئیں توسنبھالنا مشکل ہوجائے گا،جوقوم کئی سانحات سے گزر چکی ہے،اسے اب کی انتشاری قوتوں کی تھریڈ کو بھی پیش ِنظر رکھنا چاہیے،طاقت اور اختیارکااستعمال چاہے وہ قانونی ہی ہونفرت کا سبب بنتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ بااختیار افسران کو بھی ملکی اور قومی صورت حال کے مطابق ہی اپنے احکامات جاری کرنے چاہییں،اگر حکومت کنگال ہوگئی ہے، جو آئی ایم ایف کھلے قرضوں پر چل رہی ہے تو کیا عوام کے کوئی ڈالر اگانے والے درخت ہیں، کہ جن سے وہ ڈالر اتار اتارکر ضائع کررہے ہیں،چلووہ جرمانوں اور سرکاری دستاویزات بنوانے کے لیے قومی خزانے میں جمع کرادیں،اب شاید صاحبانِ دانش یہ کہیں کہ غریبوں کے پاس تو گاڑیاں ہوتی نہیں، لیکن کیا اکثر گاڑیوں کے ڈرائیورنہایت غریب نہیں ہوتے، اور کیا جو جرمانہ ڈرائیور کو ہوگا، وہ گاڑی مالکان دیں گے؟لہذاتما م صاحبانِ اقتدار واختیار سے دردمندانہ گزارش ہے، کہ وہ اس انارکی کے دورمیں قوم کو سیدھی راہ سوجھنے کا موقع دیں،ناکہ وہ بھوک ننگ سے تنگ ہوکر کسی کھائی میں کودنے پر مجبور ہوجائیں، اللہ تعالیٰ پاکستان کے مخلص اوردرد رکھنے والے لوگوں کوعقابی نظر بھی عطافرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*