انسانی خدمت کا جذبہ رکھنے والے انسانوں کے حالات چائے کیسے بھی ہوں وہ پھر بھی خدمت خلق کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں اور جو اس جزبے سے محروم ہوں انکے پاس بے شک کتنی ہی دولت ہو وہ ہمیشہ اپنی مجبوریوں کا رونا روتے رہتے ہیں۔
کسی بھی قوم کو ترقی کے لیے صحت مند اور تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باشعور قومیں صحت اور تعلیم کے لیے سب سے زیادہ قومی بجٹ رکھتی ہیں لیکن ہمارے ہاں صورت حال سب کے سامنے ہے۔ سرکاری اداروں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے عام نسان کے لیے نحجی اداروں میں تعلیم اور صحت کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے جس کے پیش نظر معاشرے کے اندر انسانیت کا جزبہ رکھنے والے انسان کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن خلاء اتنا زیادہ ہے کہ رفاہی اداروں کے لیے ساری ضروریات پوری کرنا بہت مشکل ہے لیکن کچھ نہ کچھ کرنا بالکل کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے ۔ اسی جزبے کے تحت میرپور ایجوکیشن سپانسرشپ پروگرام کا قیام 2007 میں عمل میں آتا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ دو دوستوں ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید صاحب اور اعجاز بھٹی صاحب کی سوچ ہے جو صحت اور تعلیم میں سے کسی ایک شعبے میں خدمت سر انجام دینے کے لیے ایک این جی او کے قیام پر مشاورت کرتے ہیں۔ اعجاز بھٹی صاحب صحت کو ترجیع دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید صاحب کہتے ہیں کہ محتاجی نہیں خود انحصاری کو پروموٹ کرنا ہے۔ نوجوان نسل کے پاس تعلیم ہو گی تو وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ مشاورتی ٹیم میں ارشد ملک ایڈووکیٹ صاحب اور آصف محمود صاحب کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ نتیجہ تعلیم کے حق میں نکلتا ہے اور بعد میں ڈاکٹر توقیر قریشی صاحب، راجہ نوید صاحب، مولانا یوسف فاروقی صاحب اور چوہدری قمر صاحب بھی اس نیک کام کے لیے قائم کی جانے والی تنظیم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو تو نوجوان نسل کی صحت اور تعلیم دونوں کو مساوی اہمیت دینی چائیے لیکن این جی او کو اپنی صلاحیت کے مطابق ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اعجاز بھٹی صاحب نے ایک طویل عرصہ برطانیہ میں گزارہ ہے مگر اب وہ جزبہ خدمت خلق کے تحت میرپور ا گے ہیں۔ ان کا آبائی تعلق ڈڈیال سے ہے جبکہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب مائر امراض چشم ہیں جن کا میرپور کے مشہور بازار نانگی میں کلینک ہے اور وہاں بھی وہ مستحق افراد سے فیس نہیں لیتے جبکہ عام طور پر پہلے ڈاکٹروں کی فیس جمع ہوتی ہے اور پھر ملاقات ہوتی ہے۔
چند دن قبل مجھے میسپ کے دفتر جانے کا موقع ملا جہاں اعجاز بھٹی صاحب کی سرپرستی میں حافظ شائد صاحب اور ساتھیوں کی ایک متحرک ٹیم کام کرتی ہے۔ ضرورت مند طلباء و طالبات دفتر میں اپنی رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کا سارا کام اعجاز بھٹی خود کرتے ہیں۔ ابتدائی طور پر میسپ پرائمری لیول تک بچوں کی مدد کرتا تھا لیکن دفتر میں امریکہ سے واپس آنے والے راجہ محمد لطیف صاحب کا کہنا تھا کہ جو بچے آگے بڑھنے کا جزبہ رکھتے ہوں ادارہ انکو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ پروفیشنل تعلیم حاصل کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ ڈکٹر خواجہ حمید صاحب نے بتایا کہ اب تک ایسے پروفیشنل افراد کی کافی تعداد ہو چکی ہے اور ادارہ قدرتی حادثات و آفات کے شکار افراد کی بھی حسب توفیق مدد کرتا ہے۔
میرپور کو منی لندن کہا جاتا ہے لیکن یہاں صاحب حثیت کی زندگی جتنی آسان ہے متوسط طبقے کی اتنی ہی مشکل ہے کیونکہ منی لندن آزاد کشمیر کا مہنگا ترین شہر ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے بے شمار مسائل کی آماجگاہ ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ یا میسپ جیسی رفاہی تنظیموں کی مدد سے تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن روزگار مہیا کرنا حکومت کا کام یے۔ سرکاری ملازمتوں کے حصول کو بھی آسان اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی جب نوجوان نسل کو میرٹ پر نوکریاں نہیں ملتیں تو وہ غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرنے کا رسک مول لے لیتے ہیں جس کا نتیجہ یونان کشتی سانحہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران گزٹیڈ پوسٹیں رکھنے والے کئی افراد فیملی سمیت یورپ منتقل ہو گے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں سیاسی بنیادوں پر ملازمین کے تبادلے کر کے انہیں زلیل و خوار کرتی ہیں۔ یہ طریقہ کار فوری بند ہونا چائیے ورنہ علمی طور پر آزاد کشمیر بنجر بن جائے گا۔