آزاد ترکیہ کی دوسری صدی کا آغاز : قیوم راجہ

آزاد ترکیہ کی دوسری صدی کا آغاز : قیوم راجہ

آج سے ٹھیک ایک صدی قبل کمال اتا ترک نے مسلمانوں کے ساتھ ناراض ہو کر ایک سیکولر ریپبلک کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے اپنی نئی ریاست میں اسلام کے تمام نشانات مٹانے کی مہم شروع کی۔ یہ کام انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بالخصوص عربوں اور بالعموم مسلمانوں کی مغربی اتحادیوں کی حمایت کے خلاف رد عمل کے طور ہر کیا تھا۔ مغربی اتحادیوں نے عربوں کو کہا تھا کہ تم پیغمبروں کی اولاد کی حیثیت سے اسلامی دنیا کی قیادت کے حقیقی حقدار ہو جبکہ ترک تو خانہ بدوش ہیں۔ دوسری طرف بر صغیر کے مسلمان بھاری تعداد میں انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے اپنی فوج میں بھرتی پر مسلمانوں کو آمادہ کرنے کے لیے فتوے بھی لے کر دیے اور کئی ہیروں اور مولویوں نے مسلمان فوجیوں کو تعویز دیے کہ یہ تعویز تمہیں دشمن کی گولی سے بچائے گا۔ آتا ترک نے عربی زبان پر پابندی عائد کر دی اور مساجد اور اسلامی درسگاہوں کو تالے لگا دیے۔ پھر بھی انہیں برداشت کیا گیا کیونکہ انہوں نے چار سال کی قلیل مدت میں سابق قسطنطنیہ اور موجودہ استنبول سمیت ترکی کو مغربی اتحادیوں سے آزاد کروا لیا تھا۔ ترک ریپپلک نے فرانس اور برطانیہ سے دس سال قبل خواتین کو 1936 میں ووٹ کا حق دیا تھا۔

آج ایک صدی بعد ترکیہ طیب رجب اردغان کی قیادت میں نئی نسل کے نئے جنم کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عمر رفتہ کو آواز دیتے نظر آتے ہیں۔ بیس سال قبل اقتدار میں ا کر انہوں نے اسلام پر پابندی ختم کرتے ہوئے مساجد اور اسلامی درسگاہیں کھول دیں۔ عربی اب ترکی میں دوسری بڑی زبان یے۔ 2012 میں جب میں بری ہونے کے بعد پہلی بار ترکی گیا تو ترکیہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت تھی۔ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ صفر تنازعہ کا نعرہ بلند کر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے ترک دانشور کہہ رہے تھے کہ مغرب ترکی کے اس سفر کو روکنے کے لیے کسی نئی جنگ کا آغاز کرے گا جو آج سب کے سامنے ہے۔ نوم چومسکی جیسے صف اول کے امن پسند اور غیر جانبدار مغربی دانشور اور کئی سیاسی شخصیات کھل کر امریکہ برطانیہ اور اسرائیل پر تیسری عالمی جنگ چھیڑنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس سے پہلے مغرب مسلمانوں کو مزہب کی بنیاد پر کیمونسٹ دنیا کے خلاف بیوقوف بناتا رہا لیکن اب تو صرف مسلمان براہ راست نشانے پر ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان حکمران ماضی اور حال سے سبق سیکھیں گے یا نہیں؟ اگر نہیں سکھیں گے یہ دنیا انکے لیے جہنم کدہ بن جائے گی۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*