کہا جاتا ہے کہ وفادار لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور ان پر (ان کے آقاؤں کی جانب سے) خوب انعام واکرام ہوتا ہے، اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ محبت کا دستور بھی کچھ اس طرح ہی ہے کہ:
ہماری شرط وفا یہی ہے، وفا کرو گے وفا کریں گے
ہمارا ملنا ہے ایسا ملنا، ملا کرو گے ملا کریں گے۔۔۔۔۔!
کچھ روز قبل قائد مسلم لیگ (ن) جناب میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی ہوئی اور ان کی ملک واپسی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لاہور میں ایک شاندار جلسہ منعقد کیا گیا، اس جلسے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مینار پاکستان پر منعقد ہونے والے جلسوں میں یہ اب تک کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ میاں نواز شریف ایک سیاستدان اور پارٹی رہنما ہیں، موجودہ وقت میں ملک کے سینیئر ترین سیاست دانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، آپ ان کی طرز سیاست سے اتفاق کریں یا اختلاف آپ کو بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عوام میں مقبولیت تو وہ بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں دو مرتبہ ہی کوئی سیاسی جماعت دو تہائی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتی اور دونوں مرتبہ میاں نواز شریف صاحب کی سربراہی میں یہ جماعت مسلم لیگ (ن) ہی تھی، لیکن اس قدر شاندار جلسہ ذہن میں چند ابہام پیدا کر گیا۔۔۔۔۔ اور یہ ابہام تا دمِ تحریر دور نہ ہوئے!
میاں نواز شریف صاحب ملک واپسی پر قدرے بدلے ہوئے دکھائی دیئے، ان کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا بیانیہ کہیں نظر نہیں آیا، شاید اب جب سپریم کورٹ کی جانب سے ان کو اڈیالہ جیل سے (عارضی طور پر ہی سہی لیکن) نکال دیا گیا ہے تو اب ان کا یہ پوچھنا بنتا بھی نہیں تھا کہ جو استطاعت، قوت اور حیثیت (مالی حیثیت اور اختیارات) رکھتا ہے وہ جب چاہے کسی پرندے کو قفس میں بند کر دے اور جب چاہے اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو آزادی دلا دے۔ اور شاید میاں صاحب نے یہ سوچ کر بھی ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ جیسا سوال پوچھنے سے اعراض کیا ہو کہ اب جب نکال ہی دیا ہے تو کہیں پوچھنے پر دوبارہ زیر عتاب نہ آجائیں۔۔۔۔ میاں نواز شریف صاحب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اور بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بھی مذکورہ جلسے میں کہیں نظر نہیں آیا نہ میاں صاحب نے جوش میں آکر اس طرح کا کوئی مطالبہ کیا۔۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک دو وجوہات جو فی الوقت سمجھ میں آ رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ میاں صاحب کا ملک واپسی پر جس طرح استقبال کیا گیا، ایئر پورٹ پر ان کو ’’موبائل بائیو میٹرک‘‘ کی سہولت دی گئی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی جانب سے جس طرح خاموشی اختیار کی گئی (ان کے خلاف کوئی بیانیہ دینا تو دور کی بات ایک سزا یافتہ مجرم کے سیاسی مستقبل پر بھی کوئی سوال اٹھایا نہ گیا) اور ان کی آمد سے قبل ہی اُن کو سبز چھنڈی دکھائی گئی اس سے میاں صاحب شاید یہ سمجھ چکے ہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ طرز کا کوئی بھی مطالبہ اب اپنے معنی کھو چکا ہے، یا پھر یوں کہہ لیں کہ میاں نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت کی نظر میں جس طرح میاں صاحب کو ریفری نے گراؤنڈ سے باہر نکالا تھا اب اس کو پھر سے گراؤنڈ میں بلانے پر ووٹ کو عزت دے دی گئی ہے اور اب یہ سوال بھی پوچھنا نہیں بنتا۔۔۔
جلسے میں میاں نواز شریف صاحب کی تقریر کے دوران ایک سفید کبوتر اڑتا ہوا آیا اور میاں صاحب کے ہاتھ پر بیٹھ گیا، جس پر میاں صاحب کا چہرہ چمک اٹھا تھا، اس کبوتر پر بھی دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ کبوتر میاں صاحب کی واپسی پر امن اور خوشحالی کا ایک پیغام تھا، جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ شاید یہ کبوتر لاہور کا تھا ہی نہیں کہ میاں صاحب کے مخالفین خصوصًا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان دنوں کہا جا رہا ہے لاہور اب میاں صاحب کا ہوم گراؤنڈ نہیں رہا اور لاہور شہر میں ان کو وہ مقبولیت حاصل نہیں رہی جو ماضی میں تھی، اس لئے یہ کبوتر راولپنڈی سے اڑ کر آیا تھا اور میاں صاحب کی واپسی پر ان کو (کسی کی جانب سے) خوش آمدید کہا تھا، میری مجبوری یہ ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار لکھ کر کر رہا ہوں اگر کیمرہ کے سامنے ہوتا تو مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کی طرح شاید کندھوں پر انگلیاں لگا کر کسی قسم کا اشارہ بھی کر دیتا۔۔۔ اور شاید نہ بھی کرتا کیونکہ ’’ان‘‘ کی طرف انگلیاں اٹھانے والوں کو آج کل اڈیالہ کی مفت میں سیر کرا دی جاتی ہے اور ساتھ ہی پریس کانفرنس یا ٹی وی پروگرام بھی آرگنائز کر کے دے دیا جاتا ہے (یہ سہولت صرف صف اول یا دوم کے سیاست دانوں کو میسر ہے) اور میں اتنا مشہور انسان بھی نہیں کہ میں واپس آ کر شکایتوں کے انبار لگا سکوں سو جو جوتے قسمت میں لکھے ہیں وہ کھا کر میں بھی یہی کہہ سکوں گا کہ ’’میں نے سب کچھ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے‘‘ جس طرح آج کل میاں نواز شریف صاحب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما کہتے سنائی دے رہے ہیں۔
جہاں جلسے سے ذہن میں کئی ابہام پیدا ہو گئے، وہاں کچھ باتیں واضح بھی ہو گئیں، ایک بات تو یہ ہے کہ ’’بڑوں‘‘ کی نظر میں سب برابر ہیں، کبھی کسی کا گال چوم کر اُس کو گود میں اٹھا لیتے ہیں اور دوسروں کو یہ تلقین کرتے ہیں ’’اس کو تنگ نہ کرو، یہ میرا بہت پیارا بچہ ہے‘‘ اور دوسرے کو ڈانٹ کر بھگا دیتے ہیں، اور کچھ ہی دیر بعد دوسرے کو گود میں اٹھا کر چومتے ہیں اور اول الذکر بچے کی جانب چھوٹی انگلی لہرا کر کہتے ہیں کہ ’’بس اب میری آپ سے کُٹی‘‘، اور دوسرا یہ ہمارے سیاست دان عتاب کے دنوں میں جن کو بڑا ماننے سے انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ تمہارا کام سیاست نہیں ہے، دفاع ہے، ان کو ماضی کی جنگیں ہارنے کے طعنے دیتے ہیں ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد بھی ’’اُن کو ہی بڑا بھی مانتے ہیں، اور ان ہی کے مارنے کے کچھ دیر بعد روتے ہوئے ان کے پاس ہی آتے ہیں‘‘ اور پھر سے اُن کی گود میں سوار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ اگلا تھپڑ کھانے تک!
بہرحال میاں صاحب کو اب کی بار ایک حافظ صاحب جو سید بھی ہیں اور حساس ادارے میں ملازمت بھی کرتے ہیں نے I love you کہہ دیا ہے اور میاں صاحب نے بھی مسکراتے ہوئے I love you too کہہ دیا ہے تو ’’جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘!
