Marriages of Minds اور ہمارے خیالاتِ واہیات : سید فرحان الحسن

انٹرنیٹ پر مشتاق احمد یوسفی صاحب کی کتابیں دیکھتے ہوئے ان کی دیگر کتب کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی کتاب نظر سے گزری جس کا سرورق تھا The Mirages of Minds لیکن ہم نے اس کو پہلی مرتبہ Marriages of Minds پڑھا، اور کئی مرتبہ پڑھنے پر جب ہماری آنکھیں اور دماغ اس بات پر قائل ہو گیا کہ یہ دراصل Mirages of Minds ہے تب بھی دل ہمارے سینے میں انگلیاں چبھو کر آہستہ سے کہہ رہا تھا کہ یہ Marriages of Minds ہیں!
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک مشرقی معاشرے میں پیدا ہوئے لیکن شاید مشرقی معاشرے کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اس میں پیدا ہو گئے کہ ہم مشرقی دوشیزاؤں کو مغربی رنگوں میں تصور کرکے اکثر خوش ہوا کرتے ہیں، کبھی گھر سے بازار جاتے ہوئے کسی دوشیزہ کو اپنے بھائی، شوہر یا والد صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر دیکھ لیں تو ہمیں وہ اپنی اپنی سی محسوس ہونے لگتی ہے، اتنی اپنی محسوس ہونے لگتی ہے کہ اس کے ساتھ موٹرسائیکل پر براجمان اُس کا وہ اپنا ہمیں اس کے لئے بیگانہ اور نامحرم نظر آنے لگتا ہے، دل ہی دل میں ہم اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں بھی کر لیتے ہیں، پھر ابھی وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی ہوتی کہ بات شادی تک پہنچ جاتی ہے اور ہم فوراً طیش میں آجاتے ہیں کہ ہمیں یہ بات بھلی محسوس نہیں ہوتی کہ ہماری اہلیہ اس طرح ایک ایسے انسان کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرے جس کو ہم جانتے نہیں۔
ویسے ہماری یہ عادت بہت پرانی ہے، سکول میں داخل ہوئے تو اپنی نرسری کی ٹیچر سے یک طرفہ محبت میں گرفتار ہو گئے، حالانکہ کچھ عرصہ بعد ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ یہ یک طرفہ محبت نہیں کہ ہم نے کئی مرتبہ ان کو اپنی کسی بات پر مسکراتے ہوئے اپنا گال مروڑتے ہوئے پایا تو کبھی ہم سے سبق سنتے ہوئے اپنے بال سنوارتے ہوئے دیکھا لیکن کبھی اپنے دل میں موجود ان کے لئے خیالاتِ واہیات کا اظہار ان کے سامنے نہ کر سکے۔
تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا اور کچھ بڑے ہوئے، پرائیویٹ سکول میں پانچویں جماعت تک لڑکے اور لڑکیاں ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے ایسے میں ہماری کلاس میں بہت سی لڑکیاں ایسی تھیں جن کے ساتھ ہم اپنا مستقبل دیکھا کرتے تھے، کبھی کتاب کے اوپر سے جھانکتے ہوئے کسی ہم جماعت (لڑکی) کو دلہن تصور کرتے اور خیالوں ہی خیالوں میں اس کا گھونگٹ اٹھایا کرتے تو کبھی اپنی سست رفتاری سے بڑھتی ہوئی عمر کو دیکھ کر طیش میں آجاتے۔
جب بچپن سے نوجوانی میں قدم رکھا اور برسر روزگار ہوئے تو نوکری پر پہلے دن ہمارے باس ہمیں کام کا باقاعدہ آغاز کرنے سے پہلے ٹیم سے ملوانے لے گئے، ٹیم کے لڑکوں سے مل کر تو کچھ خاص خوشی محسوس نہ ہوئی لیکن جب کسی لڑکی کے ڈیسک پر پہنچتے اور اس کو السلام علیکم کہنے کے بعد اپنا نام بتاتے تو جواباً مسکرا کر سلام کا جواب دینے والی اور اپنا نام بتانے والی وہ لڑکی ہمیں اپنی مستقبل کی زوجہ زوجہ محسوس ہونے لگتی۔ اور ہم اگلی خاتون کولیگ سے ملنے تک اس (پرانی والی) کے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر خوش ہوتے رہتے کہ دونوں کے نام ساتھ کتنے بھلے محسوس ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ جب تک اس دفتر میں کام کرتے رہے تو وہاں موجود تقریبًا سب لڑکیوں سے ہم Marriages of Minds کے رشتے میں منسلک ہو چکے تھے کہ خیالی شادیوں میں چار کی شرط بھی نہیں ہوا کرتی۔
پھر جب اس بات کا ادراک ہو گیا کہ شادی ایک نیک عمل ہے اور نیک عمل کے بارے میں سوچنا بھی نیکی ہے تو ہمیں اپنا آپ نیک نیک محسوس ہونے لگا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خیالات میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی اور اپنے بارے میں ہمارے خیالات میں صرف اتنا فرق آیا کہ اب بھی ہم اپنے آپ کو نیک تصور کرتے ہیں صرف ایک حرف کی کمی کے ساتھ۔
آج جب ہم نوجوانی کی سرحد عبور کر چکے ہیں اور کسی کے چاچو کہنے پر بالکل ویسے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں جیسے بچپن میں ندیم انکل کو ’’السلام علیکم انکل، آپ کی شادی نہیں ہوئی؟‘‘ کہتے تو وہ سلام کا جواب دینے کی بجائے ہمیں گالیاں دینے لگتے تھے اور پھر دور تک ہمارے پیچھے بھاگتے تھے۔ ایسے میں جب موبائل پر کوئی حسین دوشیزہ غلطی سے میسج کر دے تو ہم اس کے اس میسج کو ’’اعترافِ محبت‘‘ سمجھتے ہوئے خیال ہی خیال میں اس کے ساتھ Marriage of Minds کر لیتے ہیں اور خیال ہی خیال میں اس کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوا کرتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ بچپن میں ہم اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کے فوائد گنا کرتے تھے اور آج اپنے سے کم عمر لڑکی سے شادی کو قبیح نہیں جانتے، اور آج بھی ان شادیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ Marriages of Minds میں چار کی کوئی حد بھی مقرر نہیں ہے.

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*