"بیگانی شادی" سید فرحان الحسن

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں : سید فرحان الحسن

دنیا میں بیش بہا فنون اور علوم ہیں اور ان کے ماہرین کی بھی ہر دور میں ایک کثیر تعداد موجود رہی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ان علوم و فنون کو عوام سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارا بحیثیت قوم ایک المیہ ہے اور وہ یہ کہ ہم خود کو ہر علم وفن کا ماہر سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت جتنے مسائل ہیں ان سب کا بہترین حل صرف ہمارے پاس ہی موجود ہے.

آج سے قریباً 5 برس قبل پاکستان کے طول و عرض میں 5th Generation Warfare کے نعرے لگنا شروع ہوئے، عوام کو اور خصوصاً نوجوان نسل کو بتایا گیا کہ یہ جنگ کی ایک قسم ہے جس میں بیانیہ کے ذریعے دشمن قوم کو زیر کیا جاتا ہے اور اس بات کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن کے حوصلے میدان میں آنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر جائیں.

پھر اس کے بعد ان نوجوانوں کو مختلف Youth Organizations میں شمولیت کے مواقع فراہم کیئے گئے، اور پھر ان کے ذریعے اپنے چند اہداف کو حاصل کیا گیا (ان کو یہ بتایا گیا کہ آپ جو کر رہے ہیں درست محض وہی ہے اور آپ سے مخالف نظریہ اور بیانیہ رکھنے والا آپ کا دشمن ہے) بدلے میں ان نوجوانوں کو مختلف مشہور شخصیات کے ساتھ بیٹھنے اور بلا تکلف گفتگو کے مواقع فراہم کیئے گئے اور مختلف سوشل میڈیا ایکٹیویٹیز پر Certificate of Participation سے بھی نوازا گیا، یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، ملک و قوم کا دفاع محض وردی میں ملبوس سرحد پر کھڑے ایک سپاہی کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ ملک کے ہر ایک شہری کا فرض ہے کہ جب بھی ملک و قوم کو اس کی ضرورت ہو وہ لبیک کہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنگ ایک حکمت عملی کے ساتھ لڑی جاتی ہے، دشمن کی قوت، ردعمل اور ممکنہ خطرات کو ذہن نشین کرکے کوئی بھی کارروائی کی جاتی ہے، ٹھیک ہے کہ ایک سپاہی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے اس کے سامنے کیا صورت حال ہوگی اور وہ وقت آنے پر کچھ فیصلے خود بھی کرتا ہے لیکن ہم اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کر سکتے کہ فوج کا ہر سپاہی بنیادی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہی فوج میں شامل ہوتا ہے اس کو جسمانی طور پر بھی تیار کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی ایک فوجی کی حیثیت سے ذہن سازی بھی کی جاتی ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ دشمن کون ہے اور نقصان کس کو پہنچانا ہے، کس صورت حال میں کیا کرنا ہے۔

لیکن یہاں ٹریننگ، دشمن اور اس کے طریقہء واردات سے نا آشنا نوجوانوں کے ہاتھوں میں کی بورڈ تھما دیئے گئے، ساتھ ہی ساتھ ہمارے اداروں میں موجود چند افسران نے ان نوجوانوں کو ایک تیر سمجھ کر بیک وقت اپنے دشمنوں پر بھی چلایا اور ملک کے اندر بھی ان سیاسی جماعتوں پر چلا دیا جو ان کے مطابق ان سے مخالف نظریات کی حامل تھیں۔
دفاعی اسٹریٹیجیز کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں ان نوجوانوں کا استعمال کسی طور درست نہ تھا، وہ جن کو لاشعوری طور ایک خاص سیاسی جماعت کے عشق میں مبتلا کیا گیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کل جب لاڈلے آنکھیں دکھائیں گے تو "فوج کے یہ فوجی” بھی فوج کے خلاف اعلان بغاوت کر دیں گے جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، کس کے لیئے کر رہے ہیں اور کس مقصد کے تحت کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں لانے کے لیئے اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے نوجوانوں کو استعمال کیا اور ان ہی نوجوانوں کے ذریعے ایک خاموش کیمپین کروائی گئی۔ ان کو تحریک انصاف کے عشق میں مبتلا کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ دور حاضر میں اگر کوئی محب وطن جماعت ہے تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔ پھر جب تحریک انصاف الیکشن جیت کر وفاق،پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو اسٹیبلشمنٹ نے آہستہ آہستہ ان نوجوانوں سے دامن چھڑا لیا لیکن عین اسی وقت عمران خان صاحب اور تحریک انصاف نے ان کو اپنی انگلی تھما دی، نوجوان اب تک ان سے مانوس تو ہو چکے تھے اس لیئے بغیر چوں چراں کے جہاں عمران خان صاحب ان کو لے گئے وہ چلتے گئے۔

پھر جب 2022 میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان صاحب کے درمیان رنجشیں شدت اختیار کر گئیں اور نتیجتاً عمران خان صاحب کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے تو یہی نوجوان اس مرتبہ عمران خان صاحب کے فوجی بن کر سامنے آئے اور ہر اس فرد اور ادارے کے خلاف بولے جو عمران خان صاحب کی مخالف صف میں تھا۔ عمران خان صاحب کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ پاکستان کا کوئی دشمن کبھی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، فوجی تنصیبات پر حملے کیئے گئے اور دنیا کو بتایا گیا کہ پاکستان میں عوام اور فوج ایک دوسرے کے مد مقابل صف آراء ہو چکے ہیں۔

نتیجتاً اپنے بیانیئے سے دشمن کو شکست دینے کے لیئے بنائی جانے والی فورس نے خود اپنی ہی فوج اور اداروں کے خلاف بیانیہ تشکیل دے دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابھی تک کچھ بگڑا نہیں لیکن بگڑنے میں کوئی کسر باقی بھی نہیں رہی، اداروں میں بیٹھے افسران اگر اپنا کام ایمانداری سے کریں اور سیاست کو سیاست دانوں کے حوالے کر دیں تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے، بہتر نتائج کے لیئے محض نیت نیک ہونا اہم نہیں بلکہ جس میدان جنگ میں جنگ لڑی جا رہی ہے اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی ضروری ہے اور سپاہیوں کی بہترین ٹریننگ بھی۔ باقی اگر صرف شوق کی بناء پر ہی انسان ہر ایڈونچر کر سکتا ہے تو وزیراعظم بننے کا شوق تو کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں ہے کوئی مانے یا نہ مانے!

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*