تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت بند کر کے میرٹ اور معیار قائم کیا جائے ۔ قیوم راجہ

برطانیہ میں ‘ریسٹوریٹیو جسٹس” مہم میں کشمیری کمیونٹی کہاں کھڑی ہے؟

تحریر : قیوم راجہ

برطانیہ میں اس وقت درجنوں مختلف رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں جس کی وجہ سے اب برطانیہ کو کثیر الثقافتی معاشرہ کہا جاتاہے۔ بڑی کمیونیٹیز میں یہودی، افریقی، بھارتی، پاکستانی، بنگلہ دیشی اور کشمیری ہیں جبکہ ہانگ کانگ اور چین کی بھی کافی تعداد موجود ہے لیکن پارلیمنٹ میں سب سے بڑی عددی قوت افریقی پس منظر کے مالک نمائندوں کی ہے۔ 2.4 ملین افریقی ابادی برطانیہ کی کل ابادی کا 4.2 فی صد ہے جس کے 39 نمائندے پارلیمنٹ میں ییں۔ جنوبی ایشیا کی 5.4 ملین ابادی برطانیہ کی کل ابادی کا 9.6 فی صد ہے ان میں 1.5 ملین بھارتی ہیں جنکے 15 نمائندے ہیں اور وزیر اعظم بھی بھارتی نژاد ہیں جبکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی 1.5 ملین ابادی کے بھی 15 پارلیمنٹرینز ہیں جن میں 9 کشمیری کہلواتے ہیں لیکن ایک ملین کے قریبی جموں کشمیر کے باشندوں میں سے صرف 22000 نے ابھی تک خود کو بطور کشمیری رجسٹر کروایا ہے۔ ووٹ کشمیریت کے نام پر لئیے جاتے ہیں لیکن برطانیہ میں دوسری کمیونیٹز کی طرح اپنی شناخت نہیں کروائی اور نہ ہی رجسٹر کروایا ۔ بنگلہ دیش کے ساڈھے چار لاکھ کے قریب ابادی کے پانچ اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ یہ سب خواتین ہیں جن میں ایک بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمن کی نواسی بتائی جاتی ہے.

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سابق کالونیوں سے بھاری تعداد نے برطانیہ ہجرت کی جو جنگ سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے یہاں لیبر پوری کرنے کے لیے لائے گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں دوسری بڑی تبدیلی یونیورسل سفریج تھا جس کے تحت خواتین کو بھی غیر مشروط ووٹ کا حق دیا گیا تھا مگر مرد کے برابر پروفیشنل پوزیشن اور تنخواہ کا حق ایڈورڈ ہیتھ کی حکومت میں 1976 میں دیا گیا تھا۔

یوں تو 1865 میں پیٹر مکلیگن سکاٹ لینڈ میں منتخب ہونے والے پہلے سیاہ فام لبرل پارٹی کے برطانوی رکن پارلیمنٹ تھے جو 1893 تک متواتر کامیاب ہوتے رہے لیکن افریقی کمیونٹی کا متحرک کردار 1987 میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والی افریقی خاتون ڈیانا ایبٹ کے بعد شروع ہوا۔ ڈیانا ایبٹ 1953 میں لندن میں پیدا ہوئی۔ اعلی تعلیم رکھنے والی یہ ایک بے باک انقلابی خاتون تھی جس نے نہ صرف برطانوی افریقی کمیونٹی کی بھرپور نمائندگی کی بلکہ مستقبل میں منتخب ہونے والے افریقی پس منظر کے مالک رکن پارلیمنٹ سے مل کر نو آبادیاتی نظام اور انسانی خرید و فروخت کرنے والے انگریزوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔ اس مہم کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ برطانیہ کا شاہی خاندان ، روزنامہ گارڈین کے مالکان اور برطانیہ کا دفتر خارجہ بھی ملوث تھا۔ دفتر خارجہ میں باقاعدہ سلیو ٹریڈ ڈیپارٹمنٹ قائم تھا جو دفتر خارجہ کا اسوقت سب سے بڑا یونٹ تھا۔ 1690 میں افریقہ میں ایک سلیو ٹریڈ رائل افریکن کمپنی تھی جس میں ولیم سوم کی بھاری انویسٹمنٹ تھی۔

روزنامہ گارڈین نے اپنے بانیوں کی زیادتیوں پر افریقی غلاموں کی موجودہ نسل سے معافی مانگی۔ بی بی سی کی ایک صحافی لورا ٹریولائن نے بھی استعفی دے کر صرف یہی نہیں کہ معافی مانگی بلکہ گریناڈا کے ترقیاتی فنڈ میں ایک ملین پونڈ جمع کرا کر برطانیہ کے موجودہ بادشاہ چارلس سے مطالبہ کیا کہ وہ ولیم سوم کے جرائم پر معافی مانگیں جو افریقیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں ملوث تھا۔ برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ نو آبادیاتی دور میں غلامی ایک عالمی ٹریڈ تھی جس میں برطانیہ سے پہلے کچھ افریقی قبائل خود اپنے لوگوں کو روم اور عرب میں فرخت کیا کرتے تھے۔ برطانوی حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ برطانیہ نے انسانی خرید و فروخت کے کاروبار کی آہستہ آہستہ حوصلہ شکنی کی اور آخر اس کو غیر قانونی قرار دیا جسکی وجہ سے برطانیہ سے معافی کا مطالبہ نہ کیا جائے مگر بحالی انصاف کے حامی برطانوی حکومت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ بھارت نژاد موجودہ برطانوی وزیر اعظم پر دبائو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

افریقی پس منظر کے مالک اراکین پارلیمینٹ کے ان انقلابی اقدامات کا جب جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے برٹش اراکین پارلیمنٹ کے طرز سیاست کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ خود کو ریاستی باشندہ کہنے اور کہلوانے میں بھی جھجک اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ ان اراکین پارلیمنٹ نے ابھی تک کشمیری کمیونٹی کو رجسٹر کروانے میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا چہ جائیکہ وہ اپنا آزادانہ اور مشترکہ بیانیہ اور اہداف سامنے لاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ابھی تک پاک-ھند بیانیہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاک-کشمیر سیاست کی امپورٹیشن نے برطانوی کشمیری کمیونٹی کو تقسیم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے نمائندگی کا تناسب بھی کم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قابل افسوس حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ اور کونسل میں منتخب ہونے والے ہمارے نمائندوں کی اکثریت وہ انقلابی سوچ فکر ، جزبہ اور ویژن نہیں رکھتی جو افریقی پس منظر کے مالک رہبرانہ اور فولادی شخصیت کے حامل نمائندے رکھتے ہیں۔ بعقول ایک کشمیری سکالر ، ہمارے لوگ اپنی قدر و قیمت ہی نہیں جانتے ورنہ کیا وجہ ہے کہ جن افریقیوں کا سامراجی قوتیں سامنا کرنا سے گریز کرتی ہیں وہ ہماری پرواہ ہی نہیں کرتیں۔ عزت ہر دور میں موقف اور اصول کی بنیاد پر کی جاتی ہے نہ کہ منصب کی بنا پر ورنہ حضرت حسین کے بجائے دنیا یزید کو یاد کرتی۔ اندرون ریاست آر پار اقتدار پرست اپنا موقف اور اصول چھوڑ کر زلت و رسوائی کا نشان بن چکے ہیں۔ ان حالات میں یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں بسنے والے ہمارے ریاستی باشندوں کا کردار اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ انہیں سوچنا ہو گا کہ اگر ان کے ساتھ بسنے والے افریقی ماضی کی نا انصافیوں کا ازالہ کروا رہے ہیں تو وہ اپنی ریاست کے ساتھ جاری نا انصافی کو کیوں نہیں روک اور رکوا سکتے؟نو آبادیاتی دور کے افریقی غلاموں کی اولاد ایک فولادی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے جبکہ ہم اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک بس چھوٹی موٹی ایڈجسٹمنٹ پر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔

0Shares

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*

0Shares