آزاد کشمیر کے ایک پسماندہ علاقہ میں الحبیب ہسپتال کی تعمیر : قیوم راجہ

آزاد کشمیر کے ایک پسماندہ علاقہ میں الحبیب ہسپتال کی تعمیر : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

ہر کہانی کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ الحبیب ہسپتال کی تعمیر کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ یہ وطن اور انسانیت سے محبت اور درد کی کہانی ہے۔ 1961 میں تتہ پانی اور ہجیرہ کے درمیان دھر بازار سے چار ہزار فٹ کی بلندی پر رکڑ۔۔۔۔۔ گائوں میں ایک غریب گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا والدین نے حبیب نام رکھا۔ اس بچے نے جوان ہو کر اپنی عملی زندگی میں اس نام کی لاج رکھی۔ بلا امتیاز ہر کسی کو پیار محبت و احترام دیا۔ تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باعث محمد حبیب 17 سال کی عمر میں میٹرک کے بعد کراچی چلے گے جہاں خاندانی کفالت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ سٹیل مل میں کام شروع کیا۔ محنت لگن اور دیانتداری کے باعث سٹیل مل میں ترقی کرکے ایک اہم منصب پر فائز ہو گے۔ اپنی ذہانت اور ویژن کے بل بوتے پر بالآخر وہ ایک مزدور سے ترقی کرتے کرتے ایس ایس انٹرپرئزز ایک کمپنی کے مالک بن گے جو ان کے بیٹوں سعد اور صدام کے ناموں سے موسوم ہے۔ اس میں آج 250 ادمی کام کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا کہ بڑے شہروں میں جا کر ترقی کی منازل طے کرنے والے ان شہروں کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن حبیب صاحب جو بعد میں حبیب کشمیری کے نام سے مشہور ہوئے وہ کئی میل پیدل چل کر سکول جانے کا زمانہ اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم اپنا گائوں کبھی نہ بھول پائے۔ چار ہزار فٹ بلندی والا رکڑ گائوں اور بھارتی فوجی پوسٹ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ آر پار گولہ باری سے زخمیوں کے لیے اس علاقہ میں فرسٹ ایڈ کی سہولیات تک نہ تھیں۔ ایک وقت تھا کہ وہاں سے ھجیرہ یا کوٹلی زخمیوں کو لے جانے کے لیے کوئی گاڑی بھی دستیاب نہ تھی۔ آج بھی اس علاقے میں جو سرکاری ڈسپنسری ہے اس میں عملہ نہیں ہے کیونکہ اجکل کے تعلیم یافتہ لوگ صرف تنخواہ مراعات اور جاہ و جلال کے لیے سرکاری نوکریاں حاصل کرتے ہیں نہ کہ عوامی خدمت کے لیے ۔ حبیب کشمیری صاحب نے اپنے گائوں کی قسمت بدلنے کا عزم کر رکھا تھا۔ اجتماعی جد و جہد سے سڑکیں تو تعمیر ہوئیں لیکن صحت کی سہولتوں کا فقدان موجود تھا۔ حبیب کشمیری صاحب کے زہہن میں جو منصوبہ تھا اس کو اسوقت مزید تقویت ملی جب ایک یخ بستہ رات کو انکے والد صاحب اس وقت بائر صحن میں نکلے جب سارے گھر والے سو رہے تھے۔ انکا پائوں پھسلا۔ گرے اور بے ہوش ہو گے ۔ نہ جانے کس طرح گھر کے کسی فرد کو کمرے میں انکی عدم موجودگی کا احساس ہوا۔ تلاش کرتے کرتے وہ مکان سے بائر بے ہوش پائے گے۔ گائوں میں پیار محبت اور اپنائیت کا ایک اپنا رنگ ہوتا ہے۔ چند منٹ میں پورا گائوں بیدار تو ہو گیا مگر وہ انکو لے کر کہاں اور کیسے جاتے۔ گاڑی تھی نہ ہسپتال۔ تب ہسپتال بنانے کے لیے حبیب کشمیری صاحب کے عزم میں مزید شدت آئی جس کے نتیجے میں کروڑوں روپے کا یہ پروجیکٹ سال 2023 کے اوائل میں مکمل ہوا لیکن اس میں کسی این جی او اور سرکاری ادارے کا عمل دخل نہیں ہے۔ یہ خالصتا حبیب کشمیری صاحب کی اپنی ذاتی کمائی کا نتیجہ ہے۔ اس میں کچھ نو سر بازوں نے انکی نیک نیتی سے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا لیکن پر عزم اور مصمم ارادے کے مالک حبیب کشمیری سنبھل گے جس کے نتیجے میں حبیب میڈیکل کمیلیکس لوگوں کی بھرپور خدمت کر کے انکی دعائیں لے رہا ہے۔ اس میں اسوقت ایک لیڈی ڈاکٹر سمیت پانچ ڈاکٹرز اور ایک لیبارٹری بھی ہے۔ انتہائی صحت افزا مقام ہے۔ ہسپتال کے نیچے سے قدرتی چشموں کا پانی ہر وقت رواں دواں رہتا ہے۔ ہسپتال بر لب سڑک ہے۔ پارکنگ بھی ہے اور ساتھ ایک میرج ھال بھی۔

حبیب صاحب کے ساتھ میری ملاقات تب ہوئی جب وہ کراچی سے آئی ہوئی اپنی فیملی کے ہمراہ گزشتہ سال موسم گرما میں میری عیادت کے لیے ائے۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں دوبارہ چلنے کے قابل ہوا تو انکا ہسپتال دیکھنے ضرور آئؤں گا۔ سرینگر کلینک میرپور کے ڈاکٹر امجد انصاری صاحب کی مخلصانہ کوششوں اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے میں دوبارہ چلنے اور ڈرائیو کرنے کے قابل ہو جس کے نتیجے میں آج میں نے ہمراہ اپنے دوست شوکت محمود جرال اپنا وعدہ پورا کیا۔ دوران ملاقات انکے چند عزیز و رفقا محمد مظفر اعوان، محمد فاروق، ظہور احمد اور گلفراز احمد بھی موجود تھے جنہوں نے کہا کہ حبیب میڈیکل کمپلیکس ان کے علاقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

0Shares

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*

0Shares