منانا دراصل یاد دلانا ہوتا ہے از سید اعجاز بخاری (لائف کوچ)

ہوا یوں کے1969 میں ساوٗتھرن کیلیفورنیا میں تین ملین گیلن سے زیادہ کروڈآئل بہہ گیا۔اس کی وجہ سے دس ہزار سے زیادہ سمندری حیات کو نقصان پہنچا۔نتیجے کے طور پر
ما حولیاتی تنظیمیں سرگرم ہوگئیں۔اس پر امریکن سینٹیر جے لارڈنیلن نے ارتھ ڈے تجویزکیا۔یوں ۲۲اپر یل 1970کو اسے پہلی مرتبہ منایا گیا۔1990 میں اسے بین العقومی پہچان حاصل ہوئی۔جبکہ 2009 میں یو این نے اسے مادر ارتھ کا عنوان دیا۔اب تقریبا 190ممالک اسں کو منانے میں شریک ہوتے ہیں۔ یہاں پر یاد رہے کہ منانا دراصل یاد دلانا ہوتا ہے۔یاد رکھیں اوریاد دلاتے رہیں۔گو کہ یاد بھی ایک عمل ہے مگر عمل اگر احساس کا نتیجہ ہو تو فرق پڑتا ہے۔اپنے حصے کی کوشش احساس کا با عمل نتیجہ ہے۔رب کائنات توفیق عطا فرمائے۔
زمین سے محبت،گھر سے محبت، وطن سے محبت، زمین پر رہنے والوں سے محبت،زمین پر کھڑی عمارتوں سے محبت،کھیت کھلیان سے محبت،میدانوں سے محبت،پہاڑوں کے دامن سے محبت،جہاں جہاں قدم پڑیں ان مقامات سے محبت،یہ سب کی سب زمینی محبتیں ہیں جو زمین سے محبت کا ثبوت ہوسکتی ہے۔ زمین متاثر ہوتی ہے تو ماحول متاثر ہوتا ہے۔جسں سے محبت کی جاتی ہے اس کا خیال رکھا جاتاہے اور پھراس خیال کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ خیال رکھ رہے ہیں کہ نہیں۔ذریعہ رہتا ہے تو وسیلہ رہتا ہے۔وسیلہ رہتا ہے تو وسائل سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے،جب دن منانے پڑ جائیں تو سمجھ لیں توجہ نہ رہی۔توجہ نہ رہے تو مطلب اہمیت نہ رہی۔اہمیت جب بتلانی پڑجائے تو یہ اہمیت کی توہین ہوتی ہے۔لمحہ بھر کو غور کریں تو بتلانے اور جتلانے کا فرق سمجھ آنا شروع ہوجائے گا۔بیوی اور شوہر میں سے اگر کسی ایک کو اگرشادی کی سالگرہ یاد کرانی پڑ جائے تو کیا ہوتا ہے۔ شادی شدہ شحض جانتا ہے۔برسوں سے ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے صرف ایک دن یاد نہ رکھ پائیں تو کیا کیا نہیں ہوتا۔اور یہ زمین جو برس ہا برس سے ہم سب کو چلنے دے رہی،بعدازک مرگ امان بھی دے گی ہماری لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ گئی اور چڑھ رہی ہے۔ اسس قدر بے دردی سے اسکی بے قدری کی گئی کے اب قدر کرنا یاد کرانی پڑتی ہے اور وہ بھی سال میں ایک مرتبہ۔یعنی سارا سال جی بھر کر برباد کریں اور سال میں صرف ایک دن اسکی بربادی کا ماتم،کچھ مشورے اور نصحتیں اور پھر لگ جائیں برباد کرنے پر،یا پھر بقول فراز احمد فراز ۔
”خود قتل کیا،خود روتے ہیں
ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
بس یہ ایک سلسلہ ہے جو نہ جانے کب سے چل رہا ہے اور نجانے کب تک چلتا ہے رہے گا،جی ہے کے جل رہا ہے،جی ہے کے شاید جلتا رہے گا۔مگر جی جلا نا حل تھوڑی ہے۔حل تو صرف یہی ہے کہ ہم اپنے حصے کی یاد دہانی کی ذمہ داری خود اٹھالیں۔اقوام کو یاد کرانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے لے رکھی ہے۔یہ اچھی بات ہے۔مگر چونکہ مجھے جواب اپنے حصے کا دینا ہے تو مجھے اپنے حصے کاخیال رکھنا چاہیے۔میں ایک لائف کوچ کی حثیت سے یہ گزارش کروں گا کہ لہجوں کی کڑواہٹ سے اس زمین کو زہریلا مت کریں۔اٹھیں اور اپنوں سے اچھی بات اچھے طریقے سے کہہ کر زمین اور ماحول کو بچائیں۔لہجوں میں سختی سے بھی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور زمین کو اسں سے بڑا نقصان ہو تا ہے۔کیونکہ جسں نے زمین کا خیال رکھنا ہوتا ہے وہ خراب ہو کر خراب کرتا ہے،بچیں اور بچائیں۔ مد ر ارتھ منائیں اور یہ سمجھ کر منائیں کے مزاج کی گرمی ماحول کو زیادہ آلودہ کرتی ہے۔ یہ آلودگی رشتوں کو کھا جاتی ہے اور نسلیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*