ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر یکجہتی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اس سال فرق یہ دیکھا گیا کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے 5 فروری کے بجائے 2 فروری کو مظفرآباد میں یکجہتی کشمیر کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن تھے۔ حافظ نعیم الرحمن پیشے کے لحاظ سے سول انجنئیر ہیں۔ کراچی سے انکا تعلق ہے اور حال ہی میں امیر منتخب ہوئے ہیں۔ انکی شخصیت میں سب سے پرکشش چیز انکی سادگی ہے۔ وہ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی آزاد کشمیر راجہ جہانگیر خان اور نائب امیر صغیر قمر کے ساتھ وزیر حکومت آزاد کشمیر راجہ فیصل ممتاز راٹھور کی طرف سے دیے گے ناشتہ میں شرکت کے لیے پہنچے جہاں کھوئی رٹہ سے ہمارے ہمراہی حبیب الرحمن آفاقی اور دیگر ساتھی پہلے ہی موجود تھے۔ آزاد کشمیر و پاکستان کے لیڈروں کی آمد پر جو اکثر ہلڑ بازی اور نعرہ بازی ہوتی ہے وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی آمد پر دیکھنے میں نہ ائی۔ وہ آرام سے صغیر قمر اور راجہ جہانگیر خان کے ہمراہ آئے۔ ناشتہ روم میں موجود ہم چند لوگوں سے ملے اور آرام سے انکے بیچ بیٹھ گے۔ ناشتے کی میز پر خاص مہمان کے لیے کوئی مخصوص کرسی نہ تھی۔ ناشتے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی۔ پنڈال میں بھی ان کی آمد کا علم تب ہوا جب وہ اپنی نشست پر لا کر بٹھائے گے۔ ہم بھی دیگر مہمانوں کے ساتھ پہلے ہی سٹیج پر موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اہل جموں کشمیر سے مخاطب ہو کر کہا کہ اپکو پاکستانی حکومتوں سے تو شکوے شکایت ہو سکتے ہیں لیکن پاکستانی عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ مقبول بٹ شہید نے بھی یہی کہا تھا کہ پاکستانی عوام ہمارے حقیقی حامی و ہمدرد ہیں (شعور فردا) امیر جماعت اسلامی نے وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق اور ناشتہ کروانے والے وزیر راجہ فیصل ممتاز راٹھور کو مخاطب کرتے ہوئے 5 اگست 2019 کے مودی کے فیصلے میں عمرانی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو دور کے کچھ ایسے فیصلوں پر افسوس کا اظہار کیا جس سے مسلہ کشمیر متاثر ہوا۔ سابق امیر جماعت اسلامی عبد الرشید ترابی، حریت رہنما غلام محمد صفی اور مہاجرین جموں کشمیر کے نمائندگان نے بھی خطاب کیا۔
راقم کو جماعت اسلامی کے رہنما ارشد بخآری ایڈووکیٹ نے سٹیج پر خطاب کی دعوت دیتے ہوئے مقبول بٹ شہید کا راستہ ہے ہمارا راستہ کا نعرہ لگوایا۔ مجھے جب اس پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی تو میں نے کم وقت میں دستیاب دوستوں سے مشاورت کی جن کا مشورہ تھا کہ مجھے شرکت کر کے اپنا موقف پیش کرنا چائیے۔ میں نے امیر جماعت اسلامی کی آمد پر انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے تجویز دی کہ یکجہتی کا جہاں ہم خیر مقدم کرتے ہیں وہاں یہ گزارش بھی ہے کہ ہمارے ساتھ یکجہتی اور ہمارے حق خودارادیت کی حمایت کسی نظریے سے مشروط نہیں ہونی چاہیے بلکہ جماعتی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر قومی پالیسی کے تحت جد و جہد کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرف سے سال میں ایک دن یہکجہتی کر دینے سے تحریک آزادی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ جس طرح پاکستان کے صوبوں کے وسائل پہلے ان پر خرچ کیے جاتے ہیں اسی طرح آزاد کشمیر کے وسائل بھی پہلے آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی پر صرف ہونے چائیں۔ آزاد کشمیر حکومت نے کراچی معاہدہ کر کے خود کو تحریک آزادی کی جن زمہ داریوں سے خود کو الگ کرنے کا جو قومی جرم کیا اس کی تلافی ہونی چاہیے اور اسلام آباد کو آزاد کشمیر میں حکومت سازی میں پسند نا پسند کا سلسلہ ختم کر کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشترکہ سیٹ اپ بنا کر اسے مسلہ کشمیر کے حل کے لیے خود اپنی نمائندگی کا حق دینا چاہیے تاکہ دنیا مسلہ کشمیر کو ریاستی عوام کی نظروں سے دیکھے ۔ مجھے مقامی انتظامیہ کی طرف سے بھی 5 فروری کے پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی ہے جس کا انتظام و انصرام سرکاری اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ سرکاری افسران کو میرا مشورہ ہے کہ وہ فی الحال تحریک آزادی میں کوئی بڑا کردار اگر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یا انکو اجازت نہیں ہے تو کم از کم سائلین کی زندگی تو آسان بنائیں۔ عدالتوں میں کیس سالہا سال چلتے رہتے ہیں فیصلے نہیں ہوتے۔ پٹوار خانوں اور تھانوں تک عام شہریوں کی رسائی اور شنوائی کو آسان بنائیں۔ حکومت آزاد کشمیر تعلیم اور صحت کے نظام کو قابل برداشت بنائے۔ رشوت اور سفارش کے نظام کو جڑ سے ختم کر کے تنخواہوں اور مہنگائی کے درمیان توازن پیدا کرے تاکہ ایک عام انسان بھی باعزت زندگی گزار سکے۔