بے روزگاری اور اس کا حل

تحریر : رانا علی اصغر

بے روزگاری ایک ایسے شخص کی حالت جو کام کرنے کے قابل ہے ، سر گرمی سے کام کی تلاش میں ہے، لیکن کوئی کام تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ بے روزگار سمجھے جانے کے لئے ایک شخص کو لیبر فورس کا ایک فعال رکن اور معاوضے کے کام کی تلاش میں ہونا چاہیئے۔آگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق ، نے روزگاری ایک مخصوص عمر ( عام طور پر 15 ) سے زیادہ کے لوگ ہیں۔بے روزگاری کی دو وسیع ترین قسمیں رضاکارانہ اور غیر رضاکارانہ ہیں۔ جو لوگ رضاکارانہ طور پر بے روزگار ہیں وہ دوسری ملازمت کی تلاش میں اپنی مرضی سے نوکریاں چھوڑ گئے۔ جو لوگ غیر ارادی طور پر بے روزگار ہیں انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور اب انہیں دوسری نوکری تلاش کرنی ہوگی۔ پاکستان میں اس وقت بے روزگاری بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے بہت سے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہے اور دوسرا یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہم نے کیسے بے روزگاری کو ختم کرنا ہے ۔ پا کستان میں اس وقت بہت سے لوگ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بے روزگار ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں روزگار کے مواقع زیادہ ہے ہی نہیں۔اگر اس ملک میں ایک پڑھا لکھا شخص بے روزگار ہے تو لیبر جو مزدوری کرتی ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ 2021ء میں پا کستان میں بے روزگاری کی شرح تقریباّّ 4.35 فیصد تھی، جو پچھلے سال کے 4.3 فیصد سے معمولی اضافہ ہے۔کسی ملک کی بے روزگاری کی شرح ملک کی لیبر فورس میں ملازمت کے بغیر لوگوں کے حصہ کی نمائندگی کرتی ہے، یعنی ان لوگوں میں سے بے روزگار افراد جو قابل ہو یا کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ دیگر عوامل کے علاوہ، یہ آبادی میں اضافے کو بھی مد نظر رکھتاہے، اور اس طرح افرادی قوت کے ساتھ ساتھ آبادی کی عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بے روزگاری کی اونچی شرح عام طور پر معاشی پر یشانیوں کی نشاندہی کر تی ہے، جس کی ایک مشہور مثال یونان ہے، جہاں بے روزگاری کی شرح 2008 ء میں 7.76 فیصد سے بڑھ کر عظیم کساد بازاری کے نتیجے میں 27.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ جب کہ پا کستان میں 2010ء میں بے روزگاری ایک فیصد کے نشان سے نیچے گرگئی تھی، اب یہ ایک بار پھر بڑھ رہی ہے اور اس وقت صرف چار فیصد پر کھڑی ہے۔ روایتی طور پر ، زیادہ تر پا کستانی زراعت میں کام کرتے ہیں، تاہم ملک کی جی ڈی پی کا بڑا حصہ سیاحت، بینکنگ اور آئی ٹی جیسی خدمات سے پیدا ہوتا ہے ۔ جب کی زراعت اب بھی پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہے ، ملک میں خدمات کا شعبہ ترقی کر رہا ہے، اور زیادہ سے زیادہ لوگ شہروں میں ملازمتیں تلاش کرنے کے لئے دیہی علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ بے روز گاری کے اثرات مزدوروں اور قومی معیشت دونوں کو محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اس سے ایک لہر پیدا ہو سکتی ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے کارکنوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا اثر خاندانوں ، رشتوں اور برادریوں پر پڑتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو صارفین کے اخراجات، جو کہ معیشت کی ترقی کے کلیدی محرکات میں سے ایک ہے، کم ہو جاتا ہے جس سے کساد بازاری یا یہاں تک کہ افسردگی کا باعث بنتا ہے جب اس پر توجہ نہ دی جائے۔ بے روزگاری کے نتیجے میں طلب، کھپت اور قوت خرید میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں کاروباروں کے لئے کم منافع ہوتا ہے اور بجٹ میں کمی اور افرادی قوت مین کمی کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر بناتا ہے جو چلتا رہتا ہے اور اسے کسی قسم کی مڈاخلت کے بغیر پلٹنا مشکل ہوتا ہے۔بے روزگاری کی وجہ سے روز بہ روز ڈکیتی اور چیزے چھیننے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سے نقصانات کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور ان میں کچھ لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر ڈکیتی کرتے ہیں ، تاکہ وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پل سکے۔بے روز گاری کی وجہ سے آئے دن ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے۔ جس کی نتیجے میں بہت سے مالی اور معیشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔اگر ہم اپنے ملک میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے گے، تو ڈیکتی کی وارداتوں میں اضافہ بھی نہیں ہوگا ۔ جب سب کے پاس روزگار ہوگا تو کوئی بھی اس مسائل میں نہیں پڑیگا۔بے روزگاری کے مسائل کو حل کرنے کے اقدامات میں صنعتی تکینکوں میں تبدیلی، موسمی بے روزگاری کے حوالے سے پا لیسیاں، ترلیمی نظام میں تبدیلی، روزگار کے تبادلے میں توسیع، خود روزگار افراد کو مزید امداد، مکمل اور زیادہ پیداواری روزگار پر روز، پیداوار کی شرح میں ا ضافہ اور شامل ہیں۔ روزگار کے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔اس کے ساتھ آبادی میں اضافے جیسے اقدامات سے ملک میں بے روزگاری کی تشویش کو موثرطریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔بے روزگاری موجودہ دنیا کے بنیادی خدشات میں سے ایک ہے اور بہت سے لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں۔ بے روزفاری کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات درج ذیل ہیں۔صنعتی تکنیک میں تبدیلی: بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے لکے لئے ملک کی ضروریات اور ذرائع پر توجہ دینے والی پیداواری تکنیک کو اپنانا چاہیے۔ موسمی بے روزگاری سے نمٹنا: چونکہ زراعت پر مبنی اور زراعت کے شعبے صرف موسمیروزگار فراہم کرتے ہیں۔ کثیر فصلی، موسمی پالنا، باغبانی، شجرکاری اور باغبانی جیسے اقدامات کو اپنانا چاہیے۔اس کے علاوہ کاٹن انڈسٹری جیسی صنعتوں کو بھی فروغ دیا جائے۔موجودہ تعلیمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسے جامد علم دینے کے بجائے پیشہ وارنہ تعلیم پر زور دینا چاہئے۔کالج اور یونیورسٹیاں ان طلباء کے لئے دستیاب ہونی چاہئیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔خود روزگار پر مدد: ہندستان میں زیادہ تر لوگ خود ملازمت کرنت ہیں، لیکن بد قسمتی سے پیشہ وارنہ معلومات کی کمی کی وجہ سے وہ مطلوبہ بتائج حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لئے انہیں فنی تربیت دے کر اور خام مال کا صحیح استعمال کر کے ان کی مدد کی جائے۔آبادی کا کنٹرول: آبادی بے رعزگاری کی شرح سے وابستہ اہم خدشات میں سے ایک ہے۔ لہذاآبادی کی شرح کو ضرور چیک کیا جانا چاہئے۔خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں پیدائش پر قابوپانے کے طریقوں اور خاندانی منصوبہ بندی کے امور پر زیادہ بحث کی جانی چاہئے۔ان طریقوں کو اپناکے اہم بے روزگاری کو ختم کر سکتے ہیں اور ایک دن ہمارا پا کستان بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کریگا۔ انشاء اللہ

تعارف: رانا علی اصغر

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*