آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

اسلام وہ واحددین ہے جس نے انسان کے اظہارِ حق پرکوئی پابندی نہیں لگائی،انسان حق مانگ سکتا ہے، انسان حق بتا سکتا ہے، انسان حقائق پوچھ سکتا ہے،لیکن باوجود اس کے جب انسان اناالحق کہہ دے تو دار پر چڑھ جاتا ہے، کیوں اس لیے کہ حق صرف اللہ کی ذات ہے،باقی سب کے حقوق ہیں،یا حقائق ہیں۔لیکن اسلام کے نام پر بننے والا ایک ملک جو جغرافیائی یا لسانی اکائی کا مرہونِ منت نہ ہوا بلکہ کلمہ حق کی بنیاد پر وجود پذیرہوا،اس میں عالمی شیطانی قوتوں کی ریشہ دونیوں سے لوگ نہ حق پر قائم رہے نہ حقائق سے آگاہ ہوسکے، نہ حقوق پا سکے،کیوں اس لیے کہ شیطانی چیلوں نے ان سب کو انا الحق کے دجل میں پھنسادیا ہے،واضلھم السامری،کہ سامری نے ان کو گمراہ کردیا۔آج پاکستان جس انارکی سے گزر رہا ہے، اس کی اصل وجہ ان سامریانِ زمانہ کی جمہوریت ہے، جس میں انسان کو ووٹ تو دینے کا حق ہے،لیکن انسان کو اپنا حق مانگنے کا حق نہیں،جمہوریت تو یہ ہوتی ہے کہ انسان جس طرح ووٹ ڈالنے کے لیے سب یکساں ہیں، اسی طرح حقوق بھی یکساں ہوں، لیکن اس جمہوریت میں عوام اور ملازمِ سرکارکے علیحدہ علیحدہ حقوق ہیں،عام انسان جرم کرتا ہے تو اس کی جیل کی حفاظت میں لیا جاتا ہے،اورجب ملازمِ سرکار جرم کرتا ہے تو اسے سیکورٹی کی حفاظت میں رکھا جاتا ہے،عام انسان پر صرف الزام ہی اس کی سزاکے لیے کافی ہے،لیکن ایک سرکاری ملازم کا جرم ثابت ہونے پر بھی استثنیٰ حاصل ہے،یہ ہی وہ امتیاز ہے جس نے پاکستان کواس مقام پر پہنچادیا ہے۔اسلام اسی لیے اس ملک کی اشرافیہ کو چھبتا ہے،کہ اسلام ملک اورقوم کے مال سے کمانے والوں یعنی سرکاری ملازموں کورعایتیں نہیں،ان پر سخت ذمہ داریاں،اور کڑااحتساب کرتا ہے، اسلام کسی بھی سرکاری عہدے دار کو اختیارات کی کھلی چھٹی نہیں دیتا،نہ عہدے کو باعث، امتیاز کرتا ہے، خلیفہ، گورنر، عاملینِ زکوٰۃ، امیرلشکر،قاضی سب کو پوچھا جاتا ہے،اسلام میں کسی شخصیت یا عہدے کا فیصلہ حتمی نہیں ہوتا، کہ اس کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی،اسلام میں کسی عہدے کو جواب دہی سے استثنیٰ حاصل نہیں، اسلام میں کسی بھی فیصلے کے لیے ملزم کوکھلے عام سنا اور فیصلہ کیا جاتا ہے،۔ جس ملک میں سرکاری عہدوں کو استثنیٰ حاصل ہو،وہاں لوگ نہ اسلامی ہیں نہ جمہوری،اسلامی جمہوریت یاکافروں کی جمہوریت،اس میں عام آدمی سے لے کر امیر، وزیر،عہدے دار، ملازم سب کے لیے قانون ایک ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں عوام کو پارٹیوں کی لت میں ایسا لگا دیا گیا ہے، کہ انہیں اپنے حقوق کی خبرہی نہیں، بلکہ پارٹیوں کی جے جے کار میں ایک دوسرے پر ایسے جھپٹے ہیں، جیسے بٹیرے لڑرہے ہوں،کیوں کہ غلامی اور نفس پرستی کی لت کہ جس کو جدھر سے کچھ رقم یا کوئی ہڈی ملتی ہے، وہ اسی کو اپنا ان داتا سمجھ لیتا ہے، اورپھرخودتو کیا پوری قوم کو کہتا ہے،کہ اس سے بڑا لیڈر کوئی پیداہی نہیں ہوا،اورپاکستان کے اندر ایسے ایسے لوگ بھی لیڈر بن گئے،جو شاید دوسرے ملکوں میں کسی اچھے سے کام کے لیے ملازم بھی نہ رکھے جاتے۔،اوریہی حال ہمارے اعلیٰ عہدوں کا ہے،ایسے ایسے لوگ ان عہدوں پربراجمان ہیں،جن کو ان عہدوں کی تنخواہ، پروٹوکول،اختیار اور آسائیشوں کے علاوہ اس عہدے کی ذمہ داریاں اور فرائض کی سمجھ تک نہیں، چونکہ ہم عہدے تعلیم کے تحت دیتے ہیں اورتعلیم بھی انگلش کے تحت،جس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اس قوم کے نہیں گوروں کے ملازم ہیں،اورکالے پرانے زمانے بھی جب گوروں کے ملازم تھے تووہ اس وقت بھی اس قوم کو ایسے رگیدتے تھے جیسے ہم رگیدتے ہیں،لہذاسرکاری ملازمان کی تعلیم کو بھی قومی بنایا جائے اورسلیکشن کمیٹیاں ان کی ڈگریوں اور خاندانوں کے حوالے سے انہیں منتخب نہ کریں، بلکہ ان کے ملکی مسائل اورحالات سے آگاہی اور اسے مینج کرنے کی صلاحیت کو دیکھ کر منتخب کریں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہاں سلیکشن کمیٹیاں ہی ملازموں پر مشتمل ہوتی ہیں،اورانہیں بھی اپنے بچوں کے لیے راستہ رکھنا ہوتا ہے، ہمارے یہاں کے بڑے بڑے عہدوں والے دانش وبینش کے مالک ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ وامریکہ میں عیاشیوں کے لیے تو چلے جاتے ہیں،وہاں کسی نے ان کو کبھی اس قابل بھی سمجھا ہو کہ یہ ہمارے دانشوروں کوانتظامی یا عوامی معاملات کی کچھ سوجھ بوجھ دیں، انہوں نے ان سے صرف پاکستان سے لوٹا ہوا پیسہ کسی طرح اپنے ملک میں صرف کرانا ہوتا ہے،اوربس۔ اسلامیانِ پاکستان بالخصوص علمائے اسلام نے بھی قوم کو اسلام کی راہ چلانے کے بجائے، انہیں مسلکی اختلافات میں لگا دیا، بنیادی اسلامی عقائدمیں کسی کابھی اختلاف نہیں، لیکن ایسے فروعی مسائل جن کا ہوناایک زندہ مذہب اورقوم میں شعورکا نشان ہے۔ لیکن وہ بجائے اس شعور سے امت کی وسعت کا سبب بنتے امت کی توڑ پھوڑ کا سبب بن گئے، اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے آمین۔اشاروں کنائیوں میں کئی دردِ دل رکھنے والے اپنی اپنی بولی میں اس برائی کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن جان کے خطرے سے کوئی بھی کھل کر نہیں بولتا۔علامہ اقبال نے کہاہے،”فلسفہ وشعرکی اورحقیقت ہے کیا،حرف ِتمناجسے کہہ نہ سکیں روبرو“۔لہذ اگرسیاست دان یا جو بھی صاحبِ اختیاررات ہیں واقعی اس ملک وقوم سے ہمدردی کرتے ہیں تو خدارااس مظلوم قوم پررحم کریں،اس ملک کے ہرصاحبِ اختیار کو عوام کے سامنے جواب دہ بنائیں،اگرامیرالمومنین حضرت عمر جواب دہ ہوسکتے ہیں،اگرابوموسیٰ اشعری جواب دہ ہوسکتے ہیں،اگر خالد بن ولید جواب دہ ہوسکتے ہیں،تواس ملک کایہ طبقہِ اختیار کیوں جواب دہ نہیں ہوسکتا؟عوام نہ سیاسی طورپرنابالغ ہیں،نہ مذہبی طورپر جاہل ہیں، نہ معاشی طورپرنااہل ہیں،ناہنرمندی میں کسی سے کم ہیں،اگر مسئلہ ہے تو صرف ملازمانِ سرکار ہیں،جواس قوم پرچیچڑیوں کی طرح چمٹے ہوے ہیں،اورغلامانہ قانون کے تحت ان کویہ حق بھی حاصل ہے کہ خون بھی چوسیں اورسی کرنے پرسزابھی دیں،دنیا کے کسی انسانی قوانین والے ملک میں ہمارے قومی اداروں جتنے کسی کو اختیار حاصل ہیں؟اگرنہیں تو پھر خدارا اس قوم پررحم کریں اسے اپنے ان صادق اور امینوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں،ان کی صداقت وامانت کو عوام سے کیے گئے سلوک سے چیک کرکے،انہیں بھی تاحیات نااہل قراردے کر،انہیں فارغ کرنے کا قانون بنائیں،حقائق، دلائل،نظائر کے برعکس کسی بھی کاروائی پرجواب دہی کا عمل جاری کریں،غلامی کے زمانے کے قوانین کو پاک انگریزوں کی مقدس دستاویز بنا کر سنبھالنے کے بجائے اسے یکسراٹھا کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیں،اوراسلامی شرعی،عائلی معاشرتی، انتظامی،تنظیمی اور معاشی قوانین کوملازمین اورعوام پریکسان لاگوں کریں، اللہ تعالیٰ پاکستان اورپاکستانی عوام پررحم فرمائے،اورصاحبانِ اقتداار واختیارکواپنے دین کی طرف لوٹنے کی توفیق دے آمین،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*