اے محب وطن تیری جرات کو سلام ! مومنہ قیوم راجہ

اے محب وطن تیری جرات کو سلام ! مومنہ قیوم راجہ

تحریر: مومنہ قیوم راجہ

( برطانیہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں 22 سال غیر عدالتی سزا بھگتنے والے کشمیری حریت پسند قیوم راجہ 17 مئی 2005 کو بری ہوئے اور انہوں نے یکم جنوری 2006 کو شادی کی ۔ 5 اکتوبر 2006 کو ان کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جو اب ایف ایس سی فرسٹ ائیر کی طالبہ ہے۔ وہ تقریر میں متعدد بار انعامات حاصل کر چکی ہے۔ اب والد کے یوم گرفتاری پر اس نے ایک تحریر بھی لکھی ہے جو نوجوانوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
(علامہ جنید الرحمن).

۔میری یہ تحریر میرے والد محترم کے بارے میں ہے ۔ آج 22 فروری 2023 ہے ۔ اور آج سے 38 سال قبل پاپا 22 فروری 1984 کو برطانیہ کی ہولی ہیڈ کی بندر گاہ سے گرفتار ہوئے تھے۔ ان کی یہ قربانی اپنے پیارے وطن کے لیے تھی۔ اس محبت میں روز بروز اضافہ تو ہوتا ہے مگر کبھی کمی نہیں آئی۔ میں اس 22 سال کی کہانی کو بیان نہیں کر سکتی کیونکہ میرے پاس معلومات کا اتنا زخیرہ اور الفاظ کی اتنی طاقت نہیں کہ میں یہ لکھ سکوں۔ مگر میں اپنے والد محترم کو اس بہادری اور جرات پر سلام پیش کرنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے اتنے سال اپنے خاندان سے دور رہ کر جیل تو کاٹ لی مگر اپنے وطن سے غداری نہ کی اور اپنے ایمان اور اصولوں پر قائم رہے ۔ انھیں اس دوران بہت سی پیشکشیں کی گئیں مگر میرے پاپا نے فوراً انکار کر دیا برٹش گورنمنٹ پاپا کو یہ پیشکش کر رہے تھے کہ آپ کو گھر ، کاروبار، نیشنیلٹی اور پونڈ دیں گے اگر آپ وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو مگر پاپا اپنی بات پر قائم رہے اور غداری نہ کی انھوں نے اپنے وطن کشمیر کو اس عیش و عشرت والی زندگی پر ترجیح دی۔ سیل میں انھوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ، کھانے سے محروم کر دیا جاتا اور ٹارچر بھی کرتے ۔ پاپا کو باقی قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ۔ دس سال تک پاپا کی سزا کو خفیہ رکھا گیا …. لیکن آخر کیوں؟
2001ء میں پاپا کی اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی سے ملاقات ہوئی۔ میری دادی نصیبہ بیگم (جنھوں نے اپنی ساری زندگی ایک گاؤں میں گزاری اور پہلی بار برطانیہ کا دورہ کیا ) انھوں نے ایک دلیرانہ ماں کی طرح اپنے بیٹے سے ملاقات کی۔ اور بڑی جرات کے ساتھ برطانیہ کی گورنمنٹ اور حکمرانوں سے بات کی۔ 13 ستمبر 2001 کو آخری بار ان ماں بیٹے کی ملاقات ہوئی ۔ کون جانتا تھا کہ یہ ملاقات آخری ہے اور اس کے بعد وہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے یا نہیں ۔ اس کے تیرہ ماہ بعد ان کا انتقال ہوگیا ۔ یہ بہت ہی دلبرداشتہ لمحہ تھا اور چند دن بعد پاپا کا ایم اے سوشل سائنسز کا آخری امتحان تھا ، مگر انھوں نے خود سے سوال کیا کہ کیا اگر وہ اپنی والدہ کے غم میں پرھنا چھوڑ دیں اور فیل ہو جائیں تو کیا ان کی والدہ خوش ہوں گی؟ اس لیے مجھے اس وقت صبر کرنا چاہیے اور امتحان دینا چاہیے ۔
پاپا نے جیل کے اندر ہی اپنی تعلیم مکمل کی اور ڈگریاں حاصل کیں ۔
اس دوران بھارتی حکومت نے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قیوم راجہ کو ہمارے حوالے کر دیں اور پاکستان حکومت بلکل خاموش رہی ۔ جس کا مطلب تھا کے قیوم راجہ کو بھارت کے حوالے کر دیا جاے ، انھیں کوئی اعتراض نہیں ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں جہاں پاپا نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر دم تک یہ جنگ لڑی ۔میں ان تمام قربانیوں پر اپنے والدہ محترم کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ ہمیں اپنے وطن سے مخلص رہنے کی توفیق عطا فرما اور آزادی کشمیر نصیب فرما ۔ آمین ۔

آخر میں یہ شعر پاپا کے نام …
محبت کے سبھی جزبے تمہارے نام کرتی ہوں
وفا کے دلنشین قصے تمہارے نام کرتی ہوں
سجایا ہے جسے میں نے محبت کے گلابوں سے
تروتازا وہ گلدستے تمہارے نام کرتی ہوں ۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*