ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر:08

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:08

سب بڑوں کے باہمی مشورے سے ایک ماہ بعد کی تاریخ طے ہوئی تو عالیہ بیگم نے اُٹھ کر بھانجی کا منہ میٹھا کروایا۔
”اللہ پاک سلامت رکھے۔ خوش رہو سدا آباد رہو۔“ اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے اُنہوں نے دعا دی تو شائستہ بیگم نے بھی اُٹھ کر بیٹی کو ساتھ لگایا۔
”بس اب آگے بھی سب کچھ خیرخیریت سے ہوجائے۔“ بیٹی کے جدا ہونے کا سوچتے ہی اُن کی آنکھیں نم ہوئیں تو اُنہوں نے خود پہ ضبط کرتے نرمی سے کہا۔
”ان شاءاللہ تم فکر نہ کرو، اللہ سب خیر کرے گا۔“ بہن کوافسردہ دیکھ کر عالیہ بیگم نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے تسلی دی تو ذیشان صاحب اور سلیم صاحب نے بھی اُٹھ کر سائرہ کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
”یہ سب کب تک سائرہ آپی کو دعائیں دیں گے؟“ عائشہ کے کان میں گھستے اذلان نے پیٹ میں دوڑتے ہوئے چوہوں کے سبب بے چینی سے پوچھا۔
”تمیز سے بیٹھو۔“ پاس بیٹھی سحر کی وجہ سے چھوٹے بھائی کو آنکھیں دکھاتے اُس نے خاموش کروایا۔
”خود گھر سے ٹھونس کے آئیں ہوں گی تب ہی اتنے سکون سے بیٹھی ہیں۔“ بہن کے جواب پہ دلبر داشتہ ہوتے اذلان نے حسرت سے ٹیبل پہ رکھی مٹھائی کو دیکھا۔
”تمہیں اس پلیٹ میں سے ایک چیز کھانے کا موقع ملے تو تم کون سی کھاؤ گی؟“ سامنے چلتے جذباتی منظر کو نظر انداز کرتے اذلان نے اب کی بار نورعین کے کان میں گھستے سوال کیا۔
”میں دو اُٹھاؤں گی۔“ عمر اور ذہن کی مماثلت ہونے کی وجہ سے نورعین جس کا دھیان بھی اذلان کی طرح مٹھائی کی پلیٹ پہ ہی تھا فٹ سے بولی۔
”نہیں، دو مت اُٹھانا۔ ایسے تو سب لوگ سوچیں گے کہ تم بھوکی ہو۔“ مقابل کے ارادے جانتے ہی اذلان نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے اُسے سمجھایا جس کی نظر پلیٹ میں موجود گلابی رنگ کے رس گلوں پہ ٹکی ہوئی تھی۔
”پر مجھے تو دو ہی چاہیے۔ تم نے دیکھا نہیں کہ وہ رس گلے کتنے چھوٹے ہیں مطلب ایک کھانے سے تو مجھے مزہ ہی نہیں آئے گا۔“ ماحول میں پھیلی افسردگی کی پروا کیے بغیر ہی نورعین نے ہاتھ سے رسے گلوں کا سائز بتاتے دکھ سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے پر تم دو مت اُٹھانا۔ میں تمہیں اُٹھا کر چپکے سے دے دوں گا کیونکہ مجھے تو کسی نے بھوکا بول بھی دیا تو خیر ہے مگر تمہیں کسی نے کچھ بولا تو تم نے یہیں رونا شروع کر دینا ہے۔“ اُسے بڑے بزرگوں کی طرح سمجھاتے اذلان نے نرمی سے کہا تو اُس نے فٹ سے اثبات میں سر ہلایا اور پھر سے پلیٹ پہ نظریں جماتے رس گلوں کی تعداد گننے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کا دور ختم ہوا تو تمام بڑے افراد اپنی اپنی چائے لے کر ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے اور عائشہ نورعین کو نظر انداز کرتے سحر اور سائرہ کو لے کر چپکے سے اُن کے کمرے میں چلی گئی تاکہ کپڑوں کی پلاننگ کر سکے۔
”کیا ہوا؟ تمہارا منہ کیوں سوجھا ہوا ہے؟“ چند منٹ بعد بھی اُس کا ہاتھ لیز والے باؤل تک نہ پہنچا تو اذلان نے اسکرین سے نظریں ہٹاتے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کچھ نہیں، عائشہ آپی یہاں آکر ہمیشہ ہی میرے ساتھ ایسا کرتی ہیں۔“ سب کو اپنی اپنی جگہ مصروف دیکھ کر نورعین کو اپنی تنہائی کا احساس ہوا تو اُس کی آنکھیں بلاوجہ ہی نم ہوئیں۔
”میں نے بولا میں بھی آپ کے ساتھ روم میں آؤں تو کہتی نہیں تم چھوٹی ہو، اذلان کے ساتھ باہر بیٹھ کرباتیں کرو۔ میں تمہیں چھوٹی لگتی ہوں کیا؟“ اُس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی ساری داستان سناتے نورعین نے شکوہ کناں نظروں سے مقابل کو دیکھا۔
”ہاں تو آپی سے تو چھوٹی ہی ہو، چلو چھوڑو تم اُن لوگوں کو۔ آؤ ہم دونوں میرے موبائل پہ لوڈو کھیلتے ہیں۔“ اُسے اداس دیکھ کر اپنا اہم میچ چھوڑتے اذلان نے سائیڈ پہ پڑا موبائل اُٹھایا تو نورعین نے کسی فرد کی توجہ ملتے ہی اپنے آنسو صاف کیے اور تھوڑا پرسکون ہوکر اُس کے قریب بیٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیا ہو رہا ہے بچوں؟“ کچھ دیر بڑوں کے ساتھ بیٹھنے کے بعد زین نے بہانے سے وہاں سے اُٹھتے لاؤنج کا رخ کیا جہاں اب نورعین اور اذلان سر جوڑے بیٹھے تھے۔
”کچھ نہیں بھائی۔ بس لوڈو کھیل رہے تھے۔“ اُس کی آواز پہ سر اُٹھاتے اذلان نے اُسے اپنے مشغلے سے آگاہ کیا۔
”ہمم مطلب مصروف ہو؟“ ایک نظر نورعین (جواپنے کام میں مگن تھی) پہ ڈالتے زین نے اُن کے قریب ہی صوفے پہ بیٹھتے اندازہ لگایا۔
”نہیں، اتنے بھی نہیں ہیں۔“ دو بار ہارنے کے بعداب موبائل نورعین کے حوالے کرتے اُس نے مروتاً چہرے پہ مسکراہٹ سجائی۔
”پڑھائی کیسی چل رہی ہے اور پیپرز کب ہیں تم لوگوں کے؟“ اذلان کے گیم درمیان میں چھوڑنے پہ بدمزہ ہوتے نورعین نے بھی موبائل بند کیا تو زین نے اُسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے مشترکہ طور پہ مخاطب کیا۔
”میری ٹھیک چل رہی ہے پر اذلان کے حالات بُرے ہی ہیں اور پیپرز اپریل میں ہیں۔“ گیم ادھورا چھوڑنے کا بدلہ لیتے نورعین نے اذلان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی منہ بسورتے زین کی بات کا جواب دیا تو اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ سجی۔
”اتنے بھی بُرے نہیں ہیں بس فرق یہ ہے کہ یہ مجھ سے تھوڑی زیادہ لائق ہے۔“ اپنی بُرائی سنتے ہی اذلان نے اُس کے مزید کسی انکشاف سے پہلے ہی بات کو سنبھالا۔
”ہمم مطلب انیس بیس کے فرق پہ ہو خیر لڑکے سارے ہی پڑھائی میں لڑکیوں سے پیچھے ہی ہوتے ہیں۔“ اذلان کاجواب سنتے ہی اُس کا ساتھ دیتے زین نے ہمددری جتائی۔
”نہیں، زارون بھائی تو مجھ سے بھی زیادہ لائق ہیں آپ نے دیکھا نہیں کیسے اُن کی ساری کبڈ شلیڈز اور میڈلزسے بھری پڑی ہے۔“ مقابل کی بات سے اختلاف کرتے نورعین نے لڑکوں کے نام پہ فٹ سے اپنے کزن کی مثال دی۔
”ہاں آپ کے زارون بھائی تو سچ میں بہت لائق ہیں پر میں اپنے اور اذلان جیسے نارمل لڑکوں کی بات کررہا ہوں۔“ نورعین کا یوں فٹ سے زارون کی سائیڈ لینا زین کو پسند نہیں آیا تب ہی بات بدلتے اُس نے اُس کا دھیان خود پہ دلایا۔
”نارمل مطلب؟ زارون بھائی پاگل ہیں کیا؟“ مقابل کے گھما کر بات کرنے پہ نورعین کے دماغ نے اُسے سمجھنے سے انکار کیا تو اُس نے سوال کرتے حیرت سے زین کی طرف دیکھا۔
”اُففف نور یار بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ پڑھائی کے معاملے میں زارون بھائی کا دماغ ہم سے تیز ہے اس لیے تم اُن کا موازنہ ہم غربیوں کے ساتھ نہ کرو۔“ اُس کے بھولے پن پہ جہاں زین کا قہقہہ فضا میں گونجا وہیں اذلان نے اپنے سر پکڑتے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”ہونہہ تو میرا مطلب بھی یہی تھا۔“ زین کے یوں ہنسنے پہ بُرا مناتے نورعین نے اپنی خفگی چھپانے کے لیے اذلان کی ہاں میں ہاں ملائی تو اُس نے لیز کا باؤل اُٹھا کر اُس کی گود میں رکھا تاکہ وہ مزید کوئی نایاب بات کر کے اُسے شرمندہ نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بہت بہت مبارک ہو۔“ گھر والوں کے واپس لوٹتے ہی فیضان کو تاریخ کے بارے میں پتا چلا تو اُس نے اپنے کمرے میں آتے ہی سائرہ کو کال ملائی۔
”خیر مبارک، ویسے میں ابھی آپ کی کال کا ہی انتظار کر رہی تھی۔“ خوشی اور شرم کے ملے جلے تاثرات لہجے میں سموئے سائرہ نے اپنی بے چینی کا ذکر کیا۔
”اوو مطلب اسی لیے تم نے مجھے کال کر کے تاریخ کا نہیں بتایا کیونکہ تم چاہتی تھیں کہ میں خود تمہیں مبارک باد دوں۔“ اُس کی بات سے اندازہ لگاتے فیضان کی آواز میں تجسس کی ہلکی سی آمیزش شامل ہوئی۔
”جی بالکل۔ ویسے بھی یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ ہر معاملے میں مجھے بڑائی دیں اور میرے جذبات کا خیال رکھیں۔“ دوسری طرف مان سے پوچھے گئے سوال پہ فخر سے کہتے سائرہ نے اپنا حق جتایا۔
”تو دے دی نا بڑائی۔ مجھے جیسے ہی امی سے پتا چلا میں اُن لوگوں کے پاس بھی نہیں بیٹھا اور نیند کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں آگیا تاکہ تمہیں کال کر کے یہ خوشخبری سنا سکوں جو تم مجھے سنانے پہ شرما رہی تھیں۔“ اپنی کارروائی کا بتاتے فیضان نے آخر میں جان بوجھ کر اُسے چھیڑا۔
”ہونہہ میں کیوں شرماؤں گی؟ میں تو بس یہ دیکھنا چاہتی کہ آپ کو کتنی خوشی ہوئی ہے۔“ اُس کے الزام پہ آنکھیں سکیڑتے سائرہ نے اپنے پہل نہ کرنے پہ جلدی سے صفائی پیش کی۔
”ہمم تو پتا چل گیا کہ کتنی خوشی ہے مجھے؟“ نظروں میں شرارت لیے فیضان نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔
”نہیں، وہ آپ ابھی مجھے اپنی تصویر بنا کر بھیجیں گے تو پتا چلے گا نا مطلب ایسے کیسے آواز سے میں آپ کی خوشی دیکھ سکتی ہوں۔“ اپنی بات کو بیان کرتے سائرہ نے بڑے طریقے کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
”ٹھیک ہے پھر تو مجھے بھی تمہاری خوشی دیکھنی ہے اس لیے واٹس ایپ پہ آؤ، میں ویڈیو کال کرتا ہوں۔“ دوسری طرف سے جواب سنتے ہی فیضان نے ایک مناسب حل نکالا تو سائرہ نے سامنے شیشے میں فٹ سے اپنے عکس کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے کر لیں۔“ بالوں کی لٹ چہرے پہ نکالتے اُس نے خود سے مطمئن ہوتے ہامی بھری تو فیضان نے موبائل کان سے ہٹاتے کال منقطع کی تاکہ واٹس ایپ پہ رابطہ بحال کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”افففف پتا نہیں یہ میرا گلا بار بار خشک کیوں ہو رہا ہے۔“ لالچ اور نیت خرابی کی وجہ سے اذلان کے ساتھ مل کر اُس نے کولڈ ڈرنک کچھ زیادہ مقدار میں پی لی اسی وجہ سے سونے کے کچھ دیر بعد ہی اُسے اپنے گلے میں خشکی اور درد کا احساس ہوا تو اُس کی آنکھ کھلی۔
”پانی بھی نہیں ہے۔ عائشہ آپی تو کوئی کام بھی پورا نہیں کرتیں۔“ ایک نظر اُس کے سوئے ہوئے وجود پہ ڈالتے نورعین نے ٹیبل پہ رکھی خالی بوتل اُٹھائی۔
”یہ سب اذلان کی وجہ سے ہوا ہے۔ نہ وہ مجھے زیادہ کوک پینے کا بولتا اور نہ ہی مجھے درد ہوتا۔“ کچن میں آتے ہی چند گھونٹ پانی کے بھرنے کے بعد اُسے کچھ راحت محسوس ہوئی تو اُس نے اپنی نیند خراب ہونے کا سارا الزام اذلان پہ لگایا۔
”کچھ کھا لیتی ہوں۔“ بوتل سلپ پہ رکھتے اُس نے خود کلامی کرتے اپنی سوچ کی تکمیل کے لیے اپنا رخ فریج کی جانب کیا۔
”چاکلیٹ کیک؟ یہ کہاں سے آیا؟ مجھے تو کسی نے نہیں بتایا؟“ فریج کھولتے ہی سامنے رکھے کیک کا دیدار ہوا تو نورعین کو اپنی ساری تکلیف ختم ہوتی محسوس ہوئی۔
”لگتا ہے ماموں میرے لیے ہی لائے ہوں گے مگر عائشہ آپی نے چھپا دیا ہو گا۔“ کیک باہر نکالتے اُس نے خود سے ہی نتیجہ اخذ کیا اور اُسے لیے ٹیبل پہ بیٹھ گئی۔
”میں بھی یہ سارا ختم کر کے ہی سوؤں گی اور صبح جب عائشہ آپی اُٹھیں گی تو اُنہیں پتا چلے گا کہ کیسے کسی کے حق پہ ڈاکا ڈالتے ہیں۔“ ٹیبل پہ موجود اسٹینڈ سے چمچہ نکالتے نورعین نے ایک عزم کے ساتھ کیک کی طرف دیکھا اور مزید کچھ سوچے بغیر ہی تسلی سے اُسے کھانے لگی۔
”یہ تو بہت مزے کا ہے۔ ماموں پہلے تو ایسا کیک کبھی نہیں لائے۔ لگتا ہے کسی اور بیکری سے لائے ہیں۔“ کسی اور فرد کی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے سوال و جواب کا سلسلہ خود تک محدود رکھا۔
”صبح اُٹھ کر عائشہ آپی کی شکل دیکھنے والی ہوگی۔ میں تو صاف ہی مکر جاؤں گی کہ مجھے کیک کا کچھ نہیں پتا اور سارا الزام بچارے اذلان پہ آجائے گا۔“ فراغ دلی کے ساتھ کیک سے انصاف کرتے نورعین نے دل ہی دل میں سارا منصوبہ طے کیا اور پانی کے چند گھونٹ بھرنے کے بعد پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی؟؟ یہ میرا کیک کس نے کھایا ہے؟ میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ یہ میں نے کسی کے لیے خریدا ہے۔“ صبح اسکول جانے کے لیے تیار ہونے کے بعد وہ خوشی خوشی ٹیبل پہ آئی تو زارون کی چنگھاڑتی ہوئی آواز اُس کے کان میں پڑی۔
”آپ کو پتا ہے یہ میں کتنی دور سے جا کر لایا تھا؟ میں نے کل کتنی تاکید کی تھی آپ کو کہ اسے کوئی ہاتھ نہ لگائے اور یہ عائشہ کہاں ہے؟“ ضبط کے باوجود بھی آدھے کھائے ہوئے کیک کو دیکھ کر زارون کا پارا ساتویں آسمان پہ پہنچا تو اُس نے اب کی بار کچن سے باہر آتے اونچی آواز میں بہن کو پکارا۔
”کیا ہو گیا ہے صبح صبح؟ کیوں اتنی اونچی آواز میں چلا رہے ہو؟“ اُس کی آواز سنتے ہی جہاں عائشہ تیزی سے اپنے کمرے سے باہر آئی وہیں ذیشان صاحب نے بھی باہر آتے اُسے مخاطب کرتے معاملہ جاننے کی کوشش کی۔
”یہ کیک کس نے کھایا ہے؟ میں نے کل تمہیں اچھے سے سمجھایا تھا نا کہ اس کی حفاظت تم نے اپنی جان سے بھی زیادہ کرنی ہے۔“ باپ کی بات کا جواب دینے کے بجائے زارون نے ڈبہ کھول کر بہن کے سامنے کیا۔
”ی۔۔یہ ۔۔۔۔کس نے کھایا؟؟ بھائی آپ مجھ سے قسم لے لیں یہ میرے سونے تک بالکل ٹھیک تھا۔“ کیک کی حالت دیکھ کر عائشہ کے الفاظ گم ہوئے تو اُس نے بامشکل اپنی بات مکمل کی۔
”ٹھیک تھا تو رات و رات اسے کیا ہوا؟ کوئی بھوت کھا گیا یا پھر کسی اور کی نیت اس پہ خراب ہو گئی تھی۔“ بہن کی بات سنتے ہی زارون نے اب اپنی نظروں کا رخ اذلان کی جانب کیا۔
”مجھے امی کی قسم اگر میں نے اسے دیکھا بھی ہو۔ میں نے تو کل سے فریج ہی نہیں کھولا۔“ اُس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہی اذلان نے فٹ سے قسم اُٹھاتے اپنا بچاؤ کیا۔
”اچھا بس کرو، ایک کیک ہی ہے نا اور خرید لینا۔“ نورعین کا پھیکا پڑتا رنگ دیکھ کر ذیشان صاحب نے بیٹے کو مزید کسی کارروائی سے روکا۔
”ابو میں کل ایک گھنٹے کا سفر طے کر کے اسے اسپیشل بنوا کر لایا تھا کیونکہ آج میرے پاس ٹائم نہیں تھا۔ میں نے جلدی یونیورسٹی جانا تھا اور آپ بول رہے ہیں کہ میں بس کروں۔“ باپ کی بات سنتے ہی شدت غم سے زارون نے پلٹ کر ڈبہ زور سے ٹیبل پہ پٹخا اور مزید کچھ کہے بغیر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
”موڈ خراب کر دیا صبح صبح میرے بچے کا اور اگر یہ اذلان نے نہیں کھایا تو پھر یہ حرکت یقیناً نورعین کی ہوگی۔“ بیٹے کے اوپر جاتے ہی عالیہ بیگم نے چائے ٹیبل پہ رکھتے مشکوک سی نظروں سے بھانجی کو دیکھا۔
”ن۔۔۔۔نہیں مجھے تو پتا بھی نہیں کہ گھر میں کوئی کیک موجود ہے۔“ اپنے آپ پہ بات آتے ہی نورعین نے زارون کے غصے سے خائف ہوتے جلدی سے جھوٹ بولا۔
”اچھا اب بس کرو۔ کھانے والی چیز تھی نا بس جس کا دل کیا اُس نے کھا لی۔ اس میں ایسے ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور میں نے کتنی بار سمجھایا ہے تم لوگوں کو کہ صبح صبح گھر میں کوئی بدمزگی پیدا نہ کیا کرو۔“ بھانجی کے تاثرات سے اُس کی چوری پکڑتے ذیشان صاحب نے عالیہ بیگم کو خاموش کرواتے مزید کچھ کہنے سے باز رکھا تو وہ اُن کی سیاست سمجھتے ایک سخت نظر نورعین پہ ڈالتے واپس کچن کی جانب بڑھیں جہاں عائشہ اپنا رونا رونے میں مصروف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہائے۔۔۔ تم نے اتنا سارا کیک اکیلے کیسے کھا لیا۔ مطلب وہ واقعی دو پونڈ کا تھا۔“ اُس کا پورا کارنامہ سننے کے بعد عائزہ نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ مقابل کو دیکھا۔
”یار کیا کر رہی ہو آہستہ بولو۔ اذلان نے سن لیا نا تو گھر جاتے ہی ممانی کو بتا دے گا۔“ جذبات کے زیر اثر عائزہ کی آواز اونچی ہوئی تو نورعین نے پریشانی سے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
”اچھا سوری۔ وہ مجھے دھیان نہیں رہا۔“ اُس کے اشارے کو سمجھتے ہی اب کی بار آہستگی سے کہتے وہ مزید اُس کے قریب ہوکر بیٹھی۔
”میں نے سارا نہیں کھایا تھا مگر اندر اندر سے کھا کر ایسے کر دیا تھا کہ کوئی اور اُسے نہ کھا سکے۔ قسم سے یار مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ زارون بھائی نے کسی کے لیے لا کر رکھا ہے۔“ اُس کے خاموش ہوتے ہی نورعین نے فکر مندی سے اُسے اپنی بے وقوفی سے آگاہ کیا۔
”کس کے لیے لائے تھے؟ اُن کی کوئی گرل فرینڈ وغیرہ ہے کیا؟“ اُس کے دکھ میں شریک ہونے کے بجائے عائزہ نے ایک نیا معاملہ اُٹھایا تو نورعین نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”نہیں۔۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔۔ میرا مطلب مجھے نہیں لگتا کہ اُن کی کوئی گرل فرینڈ ہوگی۔“ اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے نورعین نے فٹ سے صفائی دی۔
”پر مجھے لگ رہا ہے۔ کیونکہ چاکلیٹ کیک زیادہ تر لڑکیوں کو پسند ہوتا ہے اور تمہارے کزن کا غصہ یہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کیک کسی عام انسان کے لیے نہیں تھا۔“ کچھ سوچتے ہوئے عائزہ نے اپنی سمجھ کے مطابق نتیجہ اخذ کیا تو نورعین نے اُس کی بات پہ ایمان لاتے خود بھی تھوڑا دماغ کا استعمال کیا۔
”ہاں۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اور اگر ایسا تھا تو اچھا ہی ہوا جو میں نے کیک خراب کر دیا۔“ جلن محسوس کرتے نورعین نے اپنی دوست کی بات پہ یقین کرتے فٹ سے اپنے عمل کو سراہا۔
”ہمم مطلب سم تھنگ سم تھنگ؟“ مقابل کی بات سنتے ہی عائزہ نے نظروں میں تجسس لیے اُس کی طرف دیکھا تو نورعین نے اپنی خفت مٹانے کے لیے آنکھیں نکالتے کتاب اُٹھا کر اُس کے کندھے پہ ماری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار قسم سے مجھے آج پختہ یقین ہو گیا ہے کہ تمہاری حرکتوں کے ساتھ ساتھ تمہاری قسمت بھی خراب ہے۔“ اُسے کینٹین سے سموسے برگر کھلانے کے بعد زارون نے دکھ سے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
”کیا مطلب؟ اور یار کم ازکم اس مبارک دن کوئی منحوس بات کر کے میرا دل مت جلانا۔“ اتنی خاطر تواضع کے بعد زارون کی زبان سے قسمت کا لفظ سن کر شہریار نے اُسے کسی قسم کی فضول گوئی سے روکا۔
”بات منحوس نہیں ہے بس قسمت کی بات کر رہا ہوں کہ تمہارے نصیب میں بس یہ دو سو والے سموسے اور برگر ہی تھے تب ہی پورے پچیس سو کا کیک کسی اور نصیب والے کے پیٹ میں چلا گیا۔“ الفاظ کو مناسب ترتیب کے ساتھ ادا کرتے زارون نے مقابل پہ انکشاف کیا تو وہ حیرت کے مارے کرسی سے اُٹھا۔
”کس کے پیٹ میں گیا؟ اور کون سا کیک؟“ پچیس سو کا سنتے ہی شہریار کو جھٹکا لگا تو اُس نے اب کی بار سنجیدگی سے پوچھا۔
”تمہارے لیے لایا تھا رات کو کہ چلو تمہاری برتھ ڈے پہ تمہیں تمہاری پسند کی کوئی چیز کھلا دوں گا مگر ہمارے گھر میں تم سے بھی زیادہ ندیدے لوگ موجود ہیں۔“ غصے سے بتاتے زارون نے آخر میں چور کا سوچ کر دانت پیسے۔
”اچھا۔۔۔ خیر ہے، جس کے نصیب میں تھا اُس نے کھا لیا۔ تم زیادہ غصہ نہ کرو اور چلو کلاس لینے کے بعد کہیں باہر چلیں گے۔“ اُس کا موڈ خراب دیکھ کر شہریار نے شکوہ کر نے کے بجائے بڑے پن کا ثبوت دیتے بات کو نظر انداز کیا اور اپنا ارادہ بتاتے اُسے ساتھ لیے کینٹین سے باہر نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی؟ یہ نورعین کب تک خالہ لوگوں کے ساتھ رہے گی۔“ ماں کو سبزی بنانے میں مصروف دیکھ کر سائرہ نے سرسری سے انداز میں اُنہیں مخاطب کیا۔
”شاید ساری زندگی۔“ اپنے کام میں مگن شائستہ بیگم نے بیٹی کے سر پہ دھماکا کیا تو پانی کا گھونٹ اُس کے حلق میں اٹکا۔
”کیا ہو گیا ہے بھئی، آرام سے کھایا پیا کرو۔“ بیٹی کو بُرے طریقے سے کھانستا دیکھ کر شائستہ بیگم نے اُٹھ کر اُس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
”پینے سے نہیں بلکہ آپ کی بات کی وجہ سے پانی میرے گلے میں اٹکا ہے۔“ اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھیں صاف کرتے اُس نے ماں کی بات کی درستگی کرتے طبیعت سنبھلنے پہ مزید دو گھونٹ پانی کے بھرے۔
”ہائے میں نے ایسی کون سی انوکھی بات کر دی؟ میں نے تو صرف تمہاری بات کا جواب دیا ہے۔“ واپس اپنی جگہ پہ بیٹھتے شائستہ بیگم نے حیرت سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
”جی تو جواب ہضم نہیں ہوا مجھے۔ حد ہے میں تو اُس لڑکی کو ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتی اور آپ پوری زندگی کی بات کر رہی ہیں۔ ویسے پوری زندگی سے کیا مراد ہے آپ کی؟ کیا ماموں ممانی نے اُسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ رکھنے کا سوچا ہوا ہے؟“ ماں کی بات سے اُسے کچھ کچھ اندازہ ہو چکا تھا تب ہی تصدیق کے لیے اُس نے پھر سے سوال کیا۔
”ہاں ایک بار عالیہ باجی نے سرسری سا ذکر کیا تھا کہ ذیشان بھائی اذلان اور نورعین کے بارے میں پر امید ہیں مگر جیسے اُس لڑکی کے چال چلن ہیں مجھے لگتا ہے کہیں باہر ہی منہ مارے گی۔“ اپنے تجربے کو مدنظر رکھتے شائستہ بیگم نے بیٹی کی معلومات میں اضافہ کرتے ساتھ ہی نورعین کے بارے میں اپنی رائے دی۔
”اللہ کرے کہیں باہر ہی چلی جائے۔ قسم سے میں اُسے دیکھتی ہوں تو مجھے عجیب سی چڑ محسوس ہوتی ہے اُس سے۔“ ماں کی بات سنتے ہی دعاکرتے سائرہ نے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
”ہاں، مجھے بھی وہ لڑکی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ تو شکر ہے کہ ذیشان بھائی نے زارون کے بارے میں کچھ نہیں سوچا ورنہ میری تو عالیہ باجی سے لڑائی پکی تھی۔“ بیٹی کی ہاں میں ہاں ملاتے شائستہ بیگم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
”جی میں تو خود سحر کے لیے زارون کا سوچ چکی ہوں اس لیے آپ فکر نہ کریں۔ بس مجھے اُس گھر میں جا لینے دیں پھر آپ دیکھیے گا کہ میں کیسے وہاں اپنی بہن کی جگہ بناتی ہوں۔“ ماں کے اظہار پہ سائرہ نے بھی اپنی خواہش ظاہر کرتے مکاری سے کہا اورمسکراتے ہوئے ٹوکری سے گاجر اُٹھا کر کھانے لگی۔

0Shares

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*

0Shares