ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر:07

ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر:07

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:07

”ریموٹ کہاں ہے؟“ سارے لاؤنج کی تلاشی لینے کے بعد بلاآخر نورعین نے اپنا ضبط کھوتے اذلان کو مخاطب کیا جو کانوں پہ ہیڈ فون لگائے بڑے آرام سے صوفے کے بازو پہ سر رکھے لیٹا گانے سننے میں مصروف تھا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں؟“ چند سیکنڈز جواب کا انتظار کرنے کے بعد نورعین نے آگے بڑھتے اُس کے کانوں سے ہیڈ فون ہٹائے۔
”ریموٹ کہاں ہے؟ مجھے پتا ہے وہ تم نے ہی چھپایا ہے۔“ مقابل کے گھورنے کی پروا کیے بغیرہی اپنا مدعا بیان کرتے اُس نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
”مجھے نہیں پتا۔“ مختصر سا جواب دیتے اذلان نے اُسے نظر انداز کرتے پھر سے ہیڈ فون اپنے کانوں پہ لگائے۔
”تمہیں سب پتا ہے۔ میں جانتی ہوں تم نے جان بوجھ کر ریموٹ چھپایا ہے تاکہ میں تم سے بات کروں۔“ پھر سے ہیڈ فون اُس کے کانوں سے ہٹاتے نورعین نے اُس کے یوں انجان بننے پہ غصے سے دانت پیسے۔
”اوو بی بی جاؤ جاکر اپنا کام کرو۔ میرا پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہے جو میں تمہیں بلوانے کے لیے ایسی حرکتیں کروں۔“ اپنے گفٹ کی ناقدری کا بدلہ لیتے اذلان نے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر دو ٹوک اندازمیں اُسے اُس کی حیثیت کا احساس دلایا۔
”بی بی کس کو بولا؟ میں تمہیں بی بی لگتی ہوں کیا؟ آ لینے دو ذرا ماموں کو۔ میں تمہاری بدتمیزی کی شکایت اُن سے کروں گی اور یہ جو تم نے مجھے بی بی بولا ہے نا اس کا بھی بتاؤں گی۔“ ریموٹ کے دکھ سے نکلتے نورعین کو ایک نیا غم لاحق ہوا تو اُس نے غصے سے اذلان (جوآگ لگانے کے بعد بڑے سکون کے ساتھ پھر سے اپنے کام میں مشغول ہوچکا تھا) کو دھمکی دی اور پاؤں پٹختے تیزی سے لاؤنج سے نکلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے؟“ تم چلنے کے لیے ٹانگوں کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں کا استعمال نہیں کر سکتیں کیا؟“ گھر میں داخل ہوتے ہی اُس کا ٹکراؤ نورعین سے ہوا تو وہ سنبھلتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا۔
”نہیں۔۔۔ مجھے ایک وقت میں دو اعضاء استعمال کر کے اپنی انرجی ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔“ اپنا ماتھا سہلاتے اُس نے مقابل کے لہجے میں ہی اُس کی بات کا جواب دیا۔
”قینچی کی طرح چلتی زبان پہ بھی انرجی ضائع ہوتی ہے اس کی بھی تھوڑی بچت کر لیا کرو۔“ اُس کے جواب پہ ایک مؤثر مشورہ دیتے زارون نے فی الوقت اُس کے منہ لگنے کے بجائے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے تو نورعین نے اپنی عزت افزائی پہ پلٹتے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی پشت کو گھورا۔
”سب کی شکایت کروں گی ماموں سے۔ بڑا شوق ہے نا انہیں میری بے عزتی کرنے کا۔“ زارون کی بات پہ کڑھتے اُس نے اذلان کے ساتھ ساتھ اُس کی بھی شکایت لگانے کا سوچا اور وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ کر ذیشان صاحب کا انتظار کرنے لگی جو کچھ ہی دیر میں گھر آنے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم صبح یاد سے یہ ساری چیزیں لے آنا۔ باقی گوشت اور سبزی وغیرہ کی ذمہ داری میں نے تمہارے ابو کو دے دی ہے۔“ ایک لسٹ بیٹے کی جانب بڑھاتے شائستہ بیگم نے اُسے نرمی سے تاکید کی۔
”ابو کو کیوں بولا؟ آپ وہ بھی مجھ بتا دیں۔ میں نے کل کام سے چھٹی لی ہے اس لیے آرام سے ساری چیزیں لا دوں گا۔“ ماں کی بات سنتے ہی اُنہیں آگاہ کرتے زین نے ایک نظر لسٹ پہ ڈالی۔
”یہ تو بہت اچھا ہوا۔ ٹائم سے سامان آ جائے گا تو سائرہ کچھ چیزیں کل ہی بنا کر رکھ لے گی پھر اس طرح پرسوں وقت کی بچت ہو جائے اور زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑے گا۔“ بیٹے کی بات سے خوش ہوتے شائستہ بیگم نے سارا لائحہ عمل طے کیا۔
”جی، ٹھیک ہے جیسے آپ کو مناسب لگے کر لیجیے گا اور خالہ لوگوں کی طرف سے کون کون آئے گا۔“ ماں کا جوش دیکھ کر زین نے مسکراتے ہوئے سرسری سے انداز میں پوچھا۔
”باجی، بھائی، عائشہ، اذلان اور شاید وہ منحوس نورعین بھی آئے کیونکہ زارون اور فیضان کے ساتھ باجی اُسے اکیلا گھر نہیں چھوڑ سکتیں۔“ بیٹے کی بات کے جواب کے آخر میں بدمزہ ہوتے شائستہ بیگم نے کوفت سے کہا۔
”امی پلیز ایسا مت بولا کریں۔ نورعین نے آپ کا کیا بگاڑا ہے جو آپ اُس سے یوں نفرت کرتی ہیں۔“ ماں کی بات کا بُرا مناتے زین نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”بگاڑا کچھ نہیں، بس پتا نہیں کیوں مجھے وہ لڑکی بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔ ایک تو اُس کی زبان بہت لمبی ہے اور اوپر سے چغلی لگانے والی عادت مجھے سخت ناپسند ہے۔“ بیٹے کے اعتراض پہ اُس کی بات کا جواب دیتے شائستہ بیگم نے ساتھ ہی نورعین کی کچھ خامیاں بیان کیں۔
”مجھے تو وہ ایسی نہیں لگتی اور کون سی چغلی لگائی ہے اُس نے آپ کی؟“ ماں کے الزام پہ بے یقینی ظاہر کرتے زین نے اُنہیں مزید کریدنے کی کوشش کی۔
”میری نہیں کی مگر پچھلے دنوں وہ اپنی اس عادت کی وجہ سے عالیہ کے گھر میں کافی فساد کروا چکی ہے۔ ذیشان بھائی تو اپنی بہن کی محبت میں بالکل اندھے ہوچکے ہیں اس لیے بھانجی جو بھی کہتی ہے اُس پہ آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں۔ میں نے تو باجی کو سمجھایا تھا کہ اس لڑکی کو اتنا سر نہ چڑھاؤ کہ کل کو تمہارے بچوں کے حق پہ مسلط ہو جائے مگر نہیں میری بہن کو تو بس ہر وقت خداترسی کی پڑی رہتی ہے۔“ بیٹے کا ایک غیر لڑکی کی سائیڈ لینا شائستہ بیگم کو بالکل بھی ہضم نہیں ہوا تب ہی تفصیل کے ساتھ نورعین کی برائیاں کرتے اُنہیں نے ساتھ ہی بہن کی عقل پہ بھی افسوس کیا۔
”اچھا خیر چھوڑیں آپ ان باتوں کو یہ اُن کے گھر کا معاملہ ہے اور پلیز آپ بھی خالو کے سامنے تھوڑی احتیاط کیجیے گا مطلب اب ہمارے اُن کے ساتھ دوہرے رشتے ہیں اس لیے کوشش کیجیے گا کہ نورعین کو لے کر کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔“ ماں کی نفرت کو دیکھتے زین نے اُنہیں موقع کی نزاکت کا احساس دلاتے نرمی سے سمجھایا تو اُنہوں نے بیٹے کی بات سمجھتے اثبات میں سر ہلایا اور فضول موضوعات کو چھوڑتے لسٹ پہ لکھے سامان کے متعلق کچھ ہدایات دینے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں پوچھتا ہوں ان سے، تم پریشان نہ ہو اور آؤ میرے ساتھ۔“ ذیشان صاحب کے آتے ہی نورعین نے اذلان اور زارون کی شکایتوں کی ایک لمبی فہرست اُن کے سامنے رکھی تو اُنہوں نے اُس کا دکھ سمجھتے اُسے اپنے ساتھ آنے کا بولا۔
”اب آئے گا مزہ۔“ آنکھوں میں مصنوعی آنسو بھرتے اُس نے دل ہی دل میں زارون اور اذلان کو پڑنے والی ڈانٹ پہ خوشی کا اظہار کرتے تیزی سے قدم اندر کی جانب بڑھائے۔
”اذلان۔۔ زارون۔۔ ادھر آؤ میرے سامنے۔“ گھر میں داخل ہوتے ہی اُن دونوں کو اونچی آواز سے پکارتے ذیشان صاحب نے حکم صادر کیا تو اس اچانک افتاد پہ عائشہ اور عالیہ بیگم بھی کچن سے نکل کر باہر آئیں۔
”کیا ہوا ہے؟ سب خیریت ہے نا؟ آپ آتے ہی اُن دونوں کو کیوں بلا رہے ہیں؟“ ناسمجھی سے شوہر کی طرف دیکھتے عالیہ بیگم نے ایک سخت نظر نورعین پہ ڈالی جو سوں سوں کرتے ذیشان صاحب کے ساتھ ہی صوفے کے قریب آکر کھڑی ہو چکی تھی۔
”ہاں بھئی تم دونوں نے نورعین کو کیا بولا ہے؟ کیوں تنگ کیا ہے میری بچی کو؟“ بیوی کی بات کا جواب دینے کے بجائے ذیشان صاحب نے اُن دونوں کے آتے ہی پیشی کا آغاز کیا۔
”میں نے تو کچھ نہیں کہا اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو ٹائم ہے کہ میں اسے تنگ کروں۔“ ذیشان صاحب کے سوال سے وہاں موجود افراد کو معاملے کی نوعیت کا اندازہ ہوا تو سب سے پہلی آواز زارون کی گونجی۔
”زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور تم نے اسے بی بی کیوں بولا؟“ بڑے بیٹے کی سنجیدگی سے واقف ہونے کی وجہ سے ذیشان صاحب نے اُسے مزید کچھ کہنے کے بجائے اپنی توپوں کا رخ اذلان کی طرف کیا۔
”میں نے اسے احترام دینے کے لیے بی بی کا لفظ استعمال کیا تھا مگر پتا نہیں کیوں اسے پسند نہیں آیا۔“ اگلے نشانے پہ خود کو پاتے ہی اذلان نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ایک معقول سا جواب دیا۔
”یہ کون سا احترام ہے؟ میں تمہیں پہلے بھی کافی بار سمجھا چکا ہوں اور آج پھر سے کہہ رہا ہوں کہ نورعین کو تنگ کرنا چھوڑ دو۔ یہ بھی عائشہ کی طرح تمہاری بہن ہے اس لیے اس کا بھی اُسی طرح خیال رکھا کرو۔“ اذلان کے جواب پہ بامشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ذیشان صاحب نے بس بھانجی کا مان رکھنے کی خاطر سنجیدگی سے بیٹوں کو تاکید کی۔
”میں تو خیال رکھتا ہوں، اسے چیزیں بھی لا کر دیتا ہوں مگر یہ ہر وقت مجھ سے منہ بنائے رکھتی ہے اور مجھے بلاتی بھی نہیں۔“ باپ کے چہرے پہ نرمی دیکھ کر جہاں زارون نے نشست سنبھالی وہیں اذلان نے اپنا دکھ بیان کرتے فٹ سے نورعین کی شکایت لگائی۔
”میں نے کب منہ بنایا؟ اور تم نے میری امی کی تصویر جلائی تھی اسی لیے میں تم سے غصہ ہوں۔“ اپنے پہ بات آتے ہی جلدی سے صفائی دیتے اُس نے ساتھ ہی اپنی ناراضی ظاہر کی۔
”دیکھیں اب، ابو اس نے پورے ایک ہفتے سے مجھ سے بات نہیں کی میں نے اس کو اتنی بار سوری بولا مگر اس نے مجھے معاف نہیں کیا۔“ نورعین کے اعتراف پہ جلدی سے اُس کی بات پکڑتے اذلان نے پھر سے شکایت کی۔
”نورعین بیٹا؟؟ یہ غلط بات ہے۔تمہیں اذلان کو اب معاف کر دینا چاہیے۔“ عالیہ بیگم کے ماتھے پہ پڑے بل دیکھ کر اس بار ذیشان صاحب نے بیٹے کی سائیڈ لیتے اُسے سمجھایا۔
”میں نے معاف کردیا ہے مگر جب یہ مجھے تنگ کرتا ہے تو میرا اس سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا۔“ اُن کے سمجھانے پہ منمناتے نورعین نے مقابل کو گھوری سے نوازا جو باپ کو اپنی سائیڈ پہ دیکھ کر پھر سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھول چکا تھا۔
”میں اب تنگ نہیں کروں بس آپ اس سے بولیں کہ مجھ سے صلح کر لے۔“ موقع ملتے ہی اپنا مطلب نکالتے اُس نے باپ سے درخواست کی۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے صلح کی۔ جیسا چل رہا ہے چلنے دو اور تم چلو جا کر برتن لگاؤ۔“ بیٹے کی بے تابی دیکھ کر عالیہ بیگم نے ذیشان صاحب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اُسے آنکھیں نکالتے بیٹی کو حکم دیا۔
”کیوں ضرورت نہیں ہے؟ نورعین بیٹا چلو اذلان سے صلح کرو اور تم بھی اب بچی کو معاف کر دو۔“ بھانجی کو حکم دیتے ہی ذیشان صاحب نے عالیہ بیگم کو بھی تاکید کی جن کا رویہ کافی دنوں سے نورعین کے ساتھ کھنچا کھنچا سا تھا۔
”سوری ممانی، میں نے جان بوجھ کر ماموں کو شکایت نہیں لگائی تھی۔“ ذیشان صاحب کی بات پہ عمل کرتے اُس نے منہ بسور کر پہلے اذلان سے ہاتھ ملایا اور پھر عالیہ بیگم کے سامنے جا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑے۔
”ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ بیٹے کو خوش دیکھ کر عالیہ بیگم نے بھی اپنا دل صاف کرتے گھر میں پھیلی کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر بات کو مزید بڑھاوا نہیں دیا اور نورعین کے ہاتھ ہٹاتے اُس کے گال کو نرمی سے تھپتھپاپا تو وہ بھی جلدی سے اُن کے ساتھ لگتے اپنے دل میں موجود تمام شکوے گلے بھلا گئی۔
”اگر آپ لوگوں کا یہ صلح پروگرام ختم ہوگیا ہے تو پلیز کھانا لگا لیں کیونکہ مجھے شدید قسم کی بھوک لگی ہوئی ہے۔“ کارروائی ختم ہوتے ہی زارون نے ماں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
”ہاں ہاں بس لگا رہی ہوں۔ تم جاؤ عائشہ کی مدد کرو اور فیضان کہاں ہے؟ وہ نہیں آیا آپ کے ساتھ؟“ نورعین کو خود سے الگ کر کے تاکید کرتے عالیہ بیگم نے بیٹے کی غیر موجودگی پہ شوہر سے پوچھا۔
”آیا ہے، باہر کوئی دوست مل گیا تھا اُسی کے ساتھ کھڑا ہے۔ تم کھانا لگاؤ میں بھی ذرا ہاتھ منہ دھو کے آتا ہوں۔“ بیوی کی بات کا جواب دیتے ذیشان صاحب نے اُٹھ کر اپنے کمرے کا رخ کیا تو اذلان بھی چپکے سے نظر بچا کر لاؤنج میں داخل ہوا تاکہ کسی کے دیکھنے سے پہلے ہی جیب میں موجود ریموٹ نکال کر جگہ پہ رکھ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار مجھے یہ سوال سمجھا دو۔ میں کب سے کوشش کر رہا ہوں مگر سمجھ نہیں آرہا۔“ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنا اسکول کا کام کرنے میں مصروف تھی جب اذلان نے اُس کے قریب آتے اُسے متوجہ کیا۔
”میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے اور ماموں کو میری شکایت لگا کر زیادہ خوش نہ ہو کیونکہ میں نے صرف اُن کو دکھانے کے لیے تم سے صلح کی تھی۔“ عائشہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے نورعین نے سختی سے کہتے اُس کا رجسٹر سائیڈ پہ کیا۔
”ٹھیک ہے پھر میں تمہاری اس چالاکی کا بھی ابو کو بتاتا ہوں۔“ اُس کے ٹکے سے جواب پہ اذلان کا سارا جوش ختم ہوا تو اُس نے اپنا رجسٹر اُٹھاتے مقابل کو دھمکی دی۔
”میں تمہارا منہ توڑ دوں گی اگر اب تم نے کوئی بھی فضول بات ماموں کے سامنے کی تو۔“ جلدی سے اُٹھ کر اُس کا راستہ روکتے نورعین نے اُسے مزید کسی شکایت سے روکا۔
”توڑ دو پر میں ابو کو ضرور بتاؤں گا کہ کیسے تم اُن کے سامنے اچھی بننے کے لیے اُن سے جھوٹ بولتی ہو۔“ اُس کی کمزوری ہاتھ آتے ہی اذلان نے باز رہنے کے بجائے اپنے لفظوں میں زور دیتے دو قدم آگے بڑھائے۔
”نہیں، تم ایسا نہیں کرو گے اور میں تو مذاق کر رہی تھی۔ چلو آؤ میں تمہیں سوال سمجھاتی ہوں۔“ اذلان کے ارادے دیکھ کر نورعین نے جلدی سے اپنا فیصلہ بدلتے اُسے مکھن لگایا۔
”نہیں، مجھے نہیں سمجھنا ویسے بھی تم نے کون سا مجھ سے صلح کی ہے۔“ اُس کی پیشکش کو ٹھکراتے اذلان نے بھی اب کی بار تھوڑی اکڑ دکھائی۔
” کی ہے صلح۔ میں نے بولا نا کہ میں مذاق کر رہی تھی اب زیادہ بنو نہیں اور چلو سوال سمجھاؤں تمہیں۔“ اُس کی ہوشیاری پہ دانت پیستے نورعین نے اُس کا بازو پکڑتے اپنے ساتھ ہی رکھی دوسری چیئر پہ بٹھایا۔
”صلح ہے تو پھر میں گفٹس لے آؤں؟ ویسے تمہیں پتا ہے یہ چیزیں میں نے اُن پیسوں سے خریدی تھیں جو میں شوز لینے کے لیے جمع کیے تھے۔“ اُسے اُن معمولی تحفوں کی قیمت کا احساس دلاتے اذلان نے دکھ سے بتایا۔
”کون سے شوز؟ جوگرز جو تم فٹ بال کھیلنے کے لیے لینا چاہتے تھے؟“ اُس کی بات سنتے ہی ایک دم سے ٹھٹھکتے نورعین نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
”ہاں پر خیر ہے تمہیں منانا زیادہ ضروری تھا اس لیے تم فکر نہ کرو میں دوبارہ جمع کر لوں گا۔“ فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے اذلان نے اُسے اُس کی اہمیت بتائی تو نورعین نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
”پر وہ تو تم پچھلے دو ماہ سے جمع کر رہے تھے نا؟ مطلب ماموں ممانی کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ شوز تمہیں ہر حال میں چاہیے تھے تو تم نے میرے لیے اُن پیسوں کو کیوں خرچ کیا؟“ اذلان کے لیے اُن جوگرز کی اہمیت کا اندازہ نورعین کو اچھے طریقے سے تھا اسی لیے اُس کے انکشاف پہ اپنی ساری ناراضی ختم کرتے اُس نے پریشانی سے مقابل کی طرف دیکھا۔
”خیر ہے تم اس بات کو مت سوچو بس یہ بتاؤ کہ اگر تم راضی ہو تو میں تمہیں وہ گفٹ لا دوں؟“ اپنی خواہش کی قربانی دینے کے باوجود بھی چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے اذلان نے اُس سے پوچھا۔
”ہونہہ لا دو۔“ اُس کے اتنے پیار سے پوچھنے پہ اب کی بار نورعین نے انکار کرنے کے بجائے ہاں میں سر ہلایا تو اذلان نے فٹ سے اپنی نشست چھوڑی اور تیزی سے کمرے سے نکلا۔
”یہ بھی پاگل ہی ہے۔ میں اب کسی طریقے سے اسے اپنی جمع کی ہوئی پاکٹ منی دے دوں گی تاکہ میچ سے پہلے پہلے یہ اپنے پسندیدہ شوز خرید لے۔“ اذلان کی قربانی پہ نورعین کا دل موم ہوا تو اُس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور ٹیبل پہ بکھری کتابیں سمیٹ کر اُنہیں بیگ میں رکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جی، میں نے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔ کچھ ٹیسٹ تو میں نے اُسی دن کروا لیے تھے اور باقی کے لیے بھی نمونے لیب میں دیے ہیں۔“ فیضان کے استفسار کرنے پہ زارون نے اُسے تفصیل کے ساتھ اپنی کارروائی کے متعلق بتایا۔
”اور امی کو کیا بتایا تھا؟ مطلب کس چیز کی میڈیسن ہیں؟“ اُس کی مکمل بات سننے کے بعد فیضان نے فکر مندی سےایک اور سوال کیا۔
”مسل پین کی، ابھی جب تک کنفرم نہیں ہوجاتا مجھے بتانا مناسب نہیں لگا۔“ ماں کو بتائی ہوئی بات دوہراتے زارون نے نرمی سے مقابل کے سوال کا جواب دیا۔
”اچھا کیا اور اللہ سب خیر کرے گا تم بھی پریشان نہ ہو اور رپورٹس ملتے ہی ڈاکٹر کو دکھا لینا۔“ اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے فیضان نے اُسے تسلی دیتے تاکید کی۔
”جی کچھ تو میں نے چیک کروا لی تھیں باقی بھی ان شاءاللہ کل تک مل جائیں گی۔“ بھائی کو مطمئن کرتے زارون نے اُنہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے اُسے اپنے دوست کے متعلق بتانے لگا جس کے والد بھی کچھ سالوں سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم تو کہہ رہی تھیں کہ تم اس سے مر کے بھی صلح نہیں کرو گی تو پھر یہ معجزہ کیسے ہو گیا؟“ اُن دنوں کو پہلے کی طرح ہی آپس میں بات چیت کرتا دیکھ کر عائزہ نے بریک ہوتے ہی نورعین کے سر پہ پہنچتے استفسار کیا جو کل صلح نہ کرنے کے متعلق بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی۔
”ہاں تو؟ میں نے کب کی؟“ اپنی بات پہ قائم رہتے نورعین نے فی الوقت اُسے کچھ بھی بتانے سے گریز برتتے اپنا برہم قائم رکھا۔
”کب نہیں کی؟ میں صبح سے دیکھ رہی ہوں کہ کیسے تم لوگ ہنس ہنس کے ایک دوسرے سے بات کر رہے ہو اور تم نے ٹیسٹ میں بھی اُسے چیٹنگ کروائی ہے۔“ سارے ثبوت اُس کے سامنے رکھتے اب کی بار عائزہ نے اُسے خفگی سے گھورا۔
”ہونہہ میں نے نہیں کی وہ تو یہ بچارا کافی دنوں سے میری منتیں کر رہا تھا اسی لیے مجھے ترس آگیا۔“ گھر میں ہوئے واقعے کا ذکر کرنے کے بجائے نورعین نے بس اپنی بڑائی کرنے کے لیے ساری بات اذلان پہ ڈالی۔
”اچھا کیا ویسے بھی تم دونوں ساتھ میں ہی اچھے لگتے ہو،تمہیں پتا ہے تم لوگوں کی ناراضی کا ساری کلاس کو پتا چل گیا تھا۔ کل واپسی پہ مائرہ اور فائقہ بھی مجھ سے پوچھ رہیں تھیں۔“ اُن دنوں کی صلح کا سنتے ہی عائزہ نے خوشی کا اظہار کرتے اُسے ایک نئی خبر سنائی۔
”کیوں؟ اُنہیں کیا مسئلہ ہے؟ اور تم نے اُنہیں کچھ بتایا تو نہیں؟“ اپنے ذاتی معاملے میں کسی کی دخل اندازی نورعین کو بری لگی تو اُس نے فکر مندی سے عائزہ کی طرف دیکھا۔
”نہیں نہیں، تم پاگل ہو؟ میں بھلا اُنہیں اپنی باتیں کیوں بتاؤں گی۔“ مقابل کی بے اعتباری دیکھ کر عائزہ نے نفی میں سر ہلاتے جلدی سے وضاحت دی۔
”تمہارا پتا بھی کوئی نہیں نا کہ کب زبان پھسلے اور تم ساری باتیں اُنہیں بتا دو۔“ اپنی دوست کی عادت سے واقف ہونے کی وجہ سے نورعین نے اُس کا مذاق اُڑایا تو عائزہ سے دکھ سے اُس کی طرف دیکھا۔
”تم سچ میں بری ہو۔ ایک میں تمہارا اتنا خیال کرتی ہوں اوپر سے تم ہر وقت مجھے ہی باتیں سناتی رہتی ہو اور ٹھیک ہے اگر تمہیں مجھ پہ اعتبار نہیں تو کوئی اور دوست بنا لو۔“ نورعین کی بات نے اُسے مایوس کیا تو اُس نے غصے کا اظہار کرتے اپنا لنچ باکس اُٹھایا۔
”ہونہہ اب میں نے ایسا بھی کچھ نہیں بولا۔ اچھا سوری نا اب موڈ خراب نہ کرو اور آرام سے بیٹھ کرمجھےاُس ترکش ڈرامے کی اسٹوری سناؤ جو تم کل بتا رہی تھیں۔“ اُسے اُٹھنے کے لیے تیار دیکھ کر نورعین نے جلدی سے اُس کا ہاتھ پکڑتے اُس کا پسندیدہ موضوع چھیڑا۔
”ٹھیک ہے سناتی ہوں مگر وعدہ کرو کہ تم بولڈ سین پہ بار بار مجھے بدتمیز کہہ کر چپ نہیں کرواؤ گی۔“ اُس کی دلچسپی دیکھ کر عائزہ نے نخرے دکھانے کے بجائے ہاتھ اُس کے سامنے کیا تو نورعین نے ہاں میں سر ہلاتے اُسے تھاما اور خاموشی کے ساتھ اُس کی باتیں سننے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ تمہارا اور ہانیہ کا کیا سین ہے؟ مطلب آج کل آپس میں بڑی بات چیت ہورہی ہے۔“ وہ ہانیہ سے اُس کے والد کی طبعیت کا پوچھ کر گراؤنڈ میں آیا تو شہریار نے بڑی دلچسپی سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کوئی سین نہیں ہے۔ میں بس اُس کے والد کی طبعیت کا پوچھ رہا تھا۔“ اُس کے قریب ہی بینچ پہ بیٹھتے زارون نے ماتھے پہ بل لیے وضاحت دی۔
”والد کی طبعیت کا تو میں بھی پوچھتا ہوں مگر مجھے تو اُس نے کبھی بھی اتنی تفصیل سے جواب نہیں دیا۔“ شکوہ کناں نظروں سے مقابل کو دیکھتے شہریار نے دکھ سے کہا۔
”تمہاری حرکتیں ہی دو لفظی جواب دینے والی ہیں اس لیے میرے علاؤہ کوئی بھی شخص تمہیں منہ لگانا پسند نہیں کرتا۔“ اُس کے اعتراض پہ ٹکا سا جواب دیتے زارون نے اُسے اُس کی حیثیت سے باور کروایا۔
”تم بھی نہ لگاؤ منہ، حد ہے اتنی بے عزتی وہ بھی میرے منہ پہ۔“ مقابل کی بات سنتے ہی شہریار کا موڈ خراب ہوا تو اُس نے بدمزہ ہوتے زارون کو گھورا جو اپنی ہنسی چھپانے کی نا کام کوشش کر رہا تھا۔
”اب یہ دانت نکلنا بند کرو اور چلو۔ میں پہلے ہی تمہاری ان عاشقیوں ماشوقیوں کی وجہ سے آدھا گھنٹہ لیٹ ہو چکا ہوں۔“ اپنی بے عزتی کا بدلہ لیتے شہریار نے اُسے آگ لگائی تو زارون نے فٹ سے سنجیدہ ہوتے اُسے گھورا جو اپنے دانتوں کی نمائش کرتے اُس کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی بنچ سے اُٹھ کر پارکنگ کی طرف بھاگ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار جلدی کرو۔ امی ابو آنے والے ہی ہونگے۔“ اُسے شیشے کے سامنے کھڑا دیکھ کر عائشہ نے کہا اور دراز سے اپنے ٹاپس نکال کر پہننے لگی تو نورعین چونک کر اپنے خیالوں سے نکلی۔
”جی بس میں تو تیار ہوں۔ پلیز آپ یہ پہن کر میری پونی بنا دیں۔“ عائزہ کی باتوں کو بامشکل اپنے دماغ سے جھٹکتے اُس نے برش اُٹھا کر اپنا رخ عائشہ کی جانب کیا۔
”یار میرے پاس ٹائم نہیں ہے تم خود ہی بنا لو۔“ ٹاپس پہننے کے بعد اُسے پیچھے ہٹاتے عائشہ نے اپنی مصروفیت کا حوالہ دیتے انکار کیا تو نورعین نے ناراضی سے اُس کی جانب دیکھا جو پچھلے ایک گھنٹے سے چہرے پہ مختلف قسم کےتجربات کر چکی تھی۔
”حد ہے میرا کام تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ میں پنز لگا کر کھلے ہی چھوڑ لیتی ہوں۔“ عائشہ کے منع کرنے پہ نورعین نے منہ بناتے خود ہی درمیان میں سے مانگ نکال کر دونوں سائیڈز سے بالوں کو اکٹھا کر کے پنز میں قید کیا۔
”اُففف پتا نہیں آج یہ کتنا میک اپ کریں گی۔“ اپنی تیاری مکمل ہوتے ہی اُس نے دراز میں سے ٹاپس اور چین نکالتے ایک نظر عائشہ پہ ڈالی جو اب اپنی گالوں کو مزید سرخ کرنے میں مصروف تھی۔
”میں باہر والے شیشے میں دیکھ کے ہی پہن لیتی ہوں۔“ کچھ سیکنڈز اُس کے پیچھے کھڑے ہو کر ٹاپس پہننے کی کوشش کرنے کے بعد بلاآخر نورعین نے ہار مانی اور اپنا دوپٹہ اور جوتے اُٹھا کر باہر آگئی تاکہ وہاں موجود شیشے میں دیکھ کر جیولری پہن سکے۔
”پتا نہیں عائشہ آپی ڈریسنگ ٹیبل کو اپنی ملکیت کیوں سمجھتی ہیں۔ خاص کر تب جب ہمیں کہیں جانا ہوتا ہے۔“ عائشہ کے پیچھے نہ ہٹنے پہ بُرا مناتے نورعین نے خود کلامی کی اورمنہ بسورتے دوپٹہ اور جوتے صوفے کے پاس رکھتے وہاں موجود شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”اب اسے پتا نہیں کون سی مصیبت پڑ گئی ہے۔“ ٹاپس پہننے کے بعد اُس نے چین بند کرنے کی کوشش کی تو اُس کا سرا باربار ہاتھ سے چھوٹتے اُسے کوفت میں مبتلا کر گیا۔
”زارون بھائی پلیز رکیں۔“ اردگرد کسی کو مدد کے لیے دیکھتے نورعین کی نظر بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے زارون پہ پڑی تو اُس نے بنا سوچے سمجھے ہی جلدی سے قدم اُس کی جانب بڑھائے۔
”پلیز یہ بند کر دیں، میرے ہاتھوں میں لوشن لگا ہے اس لیے یہ بند نہیں ہو رہی۔“ اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی نورعین نے اپنا مسئلہ بتاتے اُس کی توجہ اپنی گردن میں موجود چین پہ دلوائی۔
”امی سے یا عائشہ سے کروا لو۔“ اُسے بغیر دوپٹے اور بکھرے بالوں کے ساتھ اپنے سامنے دیکھ کر زارون نے نظریں چراتے ایک مناسب مشورہ دیا۔
”عائشہ آپی میری کوئی بات نہیں سن رہیں۔ اُنہوں نے میری پونی بھی نہیں بنائی اور ممانی اور اذلان تو ماموں کے ساتھ مٹھائی وغیرہ لینے گئے ہیں۔ پلیز آپ بند کر دیں۔ وہ لوگ آنے والے ہی ہوں گے۔“ عائشہ کی شکایت لگاتے نورعین نے اُسے ساتھ ہی ساری تفصیل سے آگاہ کیا تو زارون نے تیوری چڑھاتے ایک گہری سانس لی۔
”ٹھیک ہے اسے پیچھے کرو۔“ اُس کی اُتری ہوئی صورت دیکھ کر زارون کو منع کرنا مناسب نہیں لگا تو اُس نے اُسے چین پیچھے کرنے کا بولا۔
”رک جائیں میں بال ہٹالوں۔“ اُسے مدد کے لیے تیار دیکھ کر نورعین نے خوشی خوشی اپنا رخ موڑا اور اپنی پشت سے بال ہٹاتے چین کو ایک بار پھر سے گردن میں ڈالا۔
”بے وقوف لڑکی۔“ اُسے یوں بے فکری سے اپنے سامنے کھڑا ہوتے دیکھ کر زارون نے زیر لب تنقید کی اور احتیاط سے چین کو پکڑتے بند کیا۔
”ہوگئی۔“ کام ہوتے ہی پیچھے ہٹتے اُس نے مقابل کو اطلاع دی تو نورعین نے ایک نظر گردن پہ ڈالتے بال پھر سے اپنی پشت پہ بکھرے اور زارون کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پلٹی مگر وہ اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
”ہونہہ ہے ہیں کھڑوس۔“ اُس کے یوں رو پوش ہونے پہ بڑبڑاتے نورعین نے اُس کی پشت کو گھورا اور کندھے اچکاتے اپنے جوتے پہننے لگی تاکہ اُن لوگوں کے آنے سے پہلے کچن میں جا کر کچھ کھا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے….

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*