ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر:05

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:05

اپنے بالوں میں کسی کا شفقت بھرا لمس محسوس کرتے نورعین کی آنکھ کھلی تو اُس نے نقاہت سے مقابل کی طرف دیکھا۔
”کیسی طبعیت ہے اب میری بیٹی کی؟“ اُس کے بیدار ہوتے ہی لہجے میں نرمی لیے ذیشان صاحب نے آہستگی سے پوچھا تو نورعین نے زبان کا استعمال کرنے کے بجائے پلکیں جھپکاتے اپنے سر کو ہلکی سی حرکت دی۔
”کیا ہوا؟ اپنے ماموں سے ناراض ہو؟“ اُس کی خاموشی پہ اُس کے نقوش کو محبت سے دیکھتے اُنہوں نے نرمی سے پوچھا۔
”ن۔۔نہیں۔۔۔پانی پینا ۔۔ہے۔“ جلدی سے نفی میں سر ہلاتے اُس نے اپنا مسئلہ بتایا تو ذیشان صاحب نے عالیہ بیگم کو آواز لگاتے پانی لانے کا بولا۔
”میں رات کو بھی آیا تھا مگر تم سوئی ہوئی تھیں اسی لیے جگایا نہیں پر اب صبح سے بے چینی لگی ہوئی تھی اسی لیے تمہارے اُٹھنے کے انتظار میں ابھی تک دکان پہ بھی نہیں گیا۔“ منہ میں کسی سورت کا ورد کرتے اُنہوں نے نورعین پہ پھونکا اور اُسے اپنی پریشانی کے متعلق بتانے لگے۔
”میں ٹھیک ہوں اب۔ آپ پریشان نہ ہوں۔“ عالیہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ذیشان صاحب کے اشارہ کرنے پہ چند گھونٹ اُسے پانی کے پلائے تو نورعین نے گلا تر ہوتے ہی مقابل کو تسلی دی۔
”کہاں ٹھیک ہو؟ چہرے سے تو بالکل بھی نہیں لگ رہا کہ تم ٹھیک ہو اور یہ اچانک بخار کیسے ہوگیا؟ ضرور تم نے بازار کی کوئی فضول چیز کھائی ہوگی۔“ سوال کرتے اُنہوں نے خود ہی اندازہ لگایا تو نورعین کی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں۔
”جی بالکل۔ میں نے بھی اسے اتنی بار سمجھایا ہے مگر پتا نہیں کون سے سے گندے مندے چپس لے لے کر کھاتی رہتی ہے۔“ شوہر کا ساتھ دیتے عالیہ بیگم نے بھی نورعین کی کلاس لی تو اُس نے اذلان کی شکایت کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرتے آہستگی سے اپنی آنکھوں کے نم کناروں کو صاف کیا۔
”بس بس زیادہ ڈانٹنے کی ضرورت نہیں ہے میری بیٹی کو۔ مجھے پتا ہے میرا بچہ بہت سمجھدار ہے اور کبھی بھی جان بوجھ کے اپنی طبعیت خراب نہیں کرتا۔“ اُسے افسردہ ہوتے دیکھ کر ذیشان صاحب نے عالیہ بیگم کو خاموش کرواتے نورعین کی سائیڈ لی تو وہ جلدی سے اُٹھ کے اُن کے سینے سے لگتے سسکنے لگی۔
”نورعین؟ میری جان کیا ہوا ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاؤ۔“ اُس کے یوں اپنے ساتھ لگنے پہ ذیشان صاحب کا دل بے چین ہوا تو اُنہوں نے سختی سے بیوی کی طرف دیکھا۔
”نہیں۔ کہا تو کسی نے کچھ نہیں۔۔ شاید طبعیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہے۔نورعین بیٹا؟ کیا ہوا؟ بیٹا رو کیوں رہی ہو؟“ بھانجی کے لیے شوہر کی حساسیت اور فکر مندی سے واقف ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم نے تیزی سے ہاتھ میں پکڑا گلاس ٹیبل پہ رکھتے اُسے ذیشان صاحب سے الگ کرتے اپنے ساتھ لگایا۔
”پہلے تو یہ ایسے کبھی نہیں روئی۔ عالیہ کیا مسئلہ ہے؟ اذلان نے کوئی شرارت کی ہے یا زارون نے اسے ڈانٹا ہے؟“ اُس کے یوں رونے پہ پریشان ہوتے ذیشان صاحب نے بیوی کو مخاطب کرتے سختی سے پوچھا۔
”نہیں۔۔ کسی نے کچھ نہیں بولا بس کل اس کے پاس نورین کی ایک تصویر تھی وہ کہیں گم گئی۔ تب سے ہی ایسے چپ اور پریشان ہے۔“ شوہر کے غصے سے خائف عالیہ بیگم نے نظریں چراتے اُن کی بات کا جواب دیا۔
”کہاں گم گئی؟ اور بیٹا میرے پاس نورین کی بہت سی تصویریں ہیں تم جو چاہو اُس میں سے لے لینا۔“ اُسے ہچکیاں لیتا دیکھ کر ذیشان صاحب نے فی الوقت بیوی کو کچھ بھی کہنے کے بجائے نرمی سے نورعین کو سمجھایا۔
”گم۔۔ نہیں ہو۔۔۔ئی ۔۔۔۔بلکہ اذلان نے جلائی ہے۔“ مقابل کی بات سنتے ہی اُس کا ضبط ٹوٹا تو اُس نے آنسوؤں کے درمیان اٹکتے بامشکل سچائی بیان کی۔
”یہ کیا بول رہی ہو تم۔ اذلان کیوں جلائے گا؟ بیٹا تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔“ ذیشان صاحب کے ماتھے پہ پڑے بل دیکھ کر عالیہ بیگم نے جلدی سے ہوش میں آتے نورعین کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”نہیں۔۔۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ ماموں میں نے آپ کو دکھانے کے لیے اذلان کے کچھ ٹیسٹ پیپرز اپنی دراز میں رکھے تھے جنہیں چرا کر اُس نے جلا دیا اور ساتھ امی کی تصویر بھی جلا دی۔ وہ بہت بُرا ہے۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے۔“ زارون کے خوف سے اُس کے کمرے میں بند ہونے کا ذکر فراموش کرتے نورعین نے عالیہ بیگم کے لاکھ اشاروں کے باوجود بھی مختصراً اذلان کی حرکت ذیشان صاحب کو بتائی تو اُنہوں نے آنکھوں میں سختی لیے بیوی کی طرف دیکھا۔
”ٹھیک ہے۔ بس تم پریشان نہ ہو اذلان اسکول سے آتا ہے تو میں اُس کی خبر لیتا ہوں اور نورین کی تصویریں بھی لاکر تمہیں دکھاتا ہوں۔ میری بیٹی کو جو اُس میں سے اچھی لگے وہ اپنے پاس رکھ لینا۔“ نورعین کے سامنے کچھ بھی کہنے کے بجائے ذیشان صاحب نے خود پہ ضبط کرتے اُسے نرمی سے بہلایا اور تصویریں لینے کی غرض سے وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھے تو عالیہ بیگم نے سختی سے اُسے خود سے الگ کیا۔
”کیا ضرورت تھی اپنے ماموں کو بتانے کی؟ میں تو کل سے تم سے پوچھ رہی ہوں پر مجھے تو تم نے ایک بار بھی اذلان کی حرکت کا نہیں بتایا۔“ بیٹے کی شامت آنے پہ اُنہوں نے اُس کی طبعیت کی پروا کیے بغیر ہی بلبلاتے ہوئے شکوہ کیا۔
”کیوں نہ بتاتی؟ اذلان نے میری امی کی تصویر جلائی ہے۔ وہ بہت بُرا ہے۔“ لہجے میں نمی لیے اُس نے مقابل کی بات سمجھے بغیر ہی دو ٹوک انداز میں جواب دیا تو عالیہ بیگم نے اُس کی بدتمیزی پہ غصے سے آنکھیں نکالیں اور ذیشان صاحب کے آنے سے پہلے ہی آگ بگولہ ہو کر کمرے سے نکلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی کیا ہوا ہے؟ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے نا؟“ کچن میں آتے ہی عالیہ بیگم نے غصے سے سلپ پہ رکھے برتنوں کو اُٹھا کر سنک میں پٹخا تو عائشہ نے فکر مندی سے ماں کی طرف دیکھا۔
”ٹھیک ہے طبعیت اور تم کیا سارا دن سبزی بنانے میں ہی لگا دو گی؟“ نورعین کا غصہ اُس پہ نکالتے عالیہ بیگم نے اُسے ابھی تک سبزی لے کر بیٹھا دیکھ کر بلاوجہ ہی اُس کی کلاس لی۔
”نہیں، بس یہ دھنیہ ہی رہ گیا ہے۔ آپ مجھے بتا دیں اور کیا کرنا ہے۔“ ماں کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ کر عائشہ کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو اُس نے اپنی خیر مناتے جلدی سے صفائی دیتے اگلے کام کے متعلق پوچھا۔
”کچھ نہیں کرنا اور تمہیں نورعین نے بتایا تھا کہ تصویر کس نے گم کی تھی؟“ کمر پہ ہاتھ رکھتے اُنہوں نے اُس کے قریب آتے دریافت کیا۔
”نہیں۔ کسی نے گم کی تھی کیا؟ میرا مطلب وہ تو کہہ رہی تھی دراز سے کہیں غائب ہوئی ہے؟“ ماں کے یوں اچانک پوچھنے پہ نظروں میں حیرت لیے عائشہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
”بہت ہی چالاک ہے یہ لڑکی، کل میں نے بھی اتنی بار پوچھا مگر میرے سامنے بھی اس نے زبان نہیں کھولی پر اب تمہارے ابو کے پوچھتے ہی سارا الزام اذلان پہ لگا دیا۔ حد ہے پتا نہیں کیا دشمنی ہے اسے ہمارے ساتھ۔“ بیٹی کا جواب سنتے ہی کرسی پیچھے کر کے اُس کے قریب بیٹھتے عالیہ بیگم نے پریشانی سے اپنا سر پکڑا۔
”کیسا الزام؟ امی کیا ہوا ہے؟ نورعین نے پھر کوئی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کیا؟“ ماں کی باتوں سے اندازہ لگاتے عائشہ نے اپنا ہاتھ روک کر اُن کے کندھے پہ رکھا۔
”ہاں،محترمہ کہہ رہی ہیں کہ نورین کی تصویر اذلان نے اپنے ٹیسٹ پیپرز چھپانے کے چکر میں جلائی ہے۔ تم یقین جانو مجھے تو اس لڑکی کی ذرہ برابر بھی سمجھ نہیں آتی مطلب گھر کا ماحول اچھا خاصا خوشحال ہوتا ہے مگر یہ ہر بار کوئی نا کوئی ایسی آگ لگاتی ہے کہ سب کچھ درھم بھرم ہوجاتا ہے۔“ تاثرات میں فکر لیے عالیہ بیگم نے بیٹی کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
”جی، ابو نورعین کی سائیڈ بھی بہت زیادہ لیتے ہیں اُس کے سامنے تو وہ کسی کی بات کا یقین نہیں کرتے اور اذلان بچارے کی تو قسمت ہی خراب ہے۔“ ماں کی بات سنتے ہی عائشہ نے اپنی رائے دی تو عالیہ بیگم نے اُسے اپنا ہمدرد پاتے نورعین کی مزید برائیاں بیان کیں تاکہ اپنے غصے کو کچھ کم کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم یہاں کیسے؟ مطلب سب خیریت ہے نا؟“ اُسے ایسے اچانک بے وقت دکان میں دیکھ کر فیضان نے اپنی حیرت پہ قابو پاتے چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائی۔
”جی سب خیریت ہے اور میں یہاں نہیں آسکتا کیا؟“ فیضان کی بات کا جواب دیتے زارون نے عام سے انداز میں ایک نظر بکھرے کپڑوں پہ ڈالی۔
”آسکتے ہو پر اس وقت تو تم یونیورسٹی ہوتے نا؟ اسی لیے تھوڑی پریشانی ہوئی۔“ اپنے تاثرات کو بہتر کرتے فیضان نے کھلے ہوئے تھان کو لپیٹ کر ریک میں لگایا۔
”جی بس آج دو ہی کلاسز تھیں تو فارغ ہو کے یہاں آگیا۔ ابو کہاں ہیں؟“ ذیشان صاحب کی غیر موجودگی محسوس کرتے زارون نے اُس کی بات کا جواب دیتے استفسار کیا۔
”وہ نہیں آئے آج۔ نورعین کی طبعیت خراب تھی تو شاید اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ہیں۔“ مقابل کے چہرے کی طرف دیکھتے فیضان نے سرسری سے انداز میں باپ کی غیر موجودگی کی وجہ بتائی۔
”کیوں؟ اُس کا بخار ابھی اُترا نہیں؟“ اُس کی بات سنتے ہی بیگ سائیڈ پہ رکھتے زارون نے بھی تھان اکٹھے کرنے میں اُس کی مدد شروع کی تو فیضان نے زبان کا استعمال کرنے کے بجائے نفی میں سر ہلایا۔
”ہمم بہت بڑی ڈرامے باز ہے وہ۔ ویسے آپ کو نہیں لگتا کہ ابو اُس کی کچھ زیادہ ہی فکر کرتے ہیں۔ مطلب ہم میں سے کسی کو بخار ہو تو ابو کبھی بھی دکان سے چھٹی نہ کریں۔“ اُس کے جواب پہ مسکراتے زارون نے اپنی ہی دھن میں بولتے مقابل کی رائے پوچھی۔
”ہاں۔ ابو پھوپھو سے بھی بہت پیار کرتے تھے اور ددھیال کی طرف سے دادا دادی اور پھوپھو کے جانے کے بعد یہی ایک رشتہ بچا ہے اسی لیے شاید ابو نورعین کی تکلیف برداشت نہیں کر پاتے۔“ چھوٹے بھائی کے سوال پہ فیضان نے کچھ دیر کے لیے اپنے دل سے بدگمانی جھٹکتے خلوص سے جواب دیا۔
”ہمم ایسا ہی ہے پر آپ کو نہیں لگتا کہ ابو کی بے جا طرف داری نورعین کو خود سر کر رہی ہے؟ مطلب وہ لڑکی ہے کل کو اُسے شادی کر کے اگلے گھر بھی جانا ہے۔“ فیضان کا جواب جانتے ہی زارون نے اپنے سوال کی وضاحت دیتے ایک بار پھر سے اُس کی طرف دیکھا۔
”ہاں مگر میرے خیال سے ابو کا اُسے اسی گھر میں رکھنے کا ارادہ ہے اسی لیے وہ اُسے اتنا سر چڑھا رہے ہیں۔“ زارون کے لپیٹے ہوئے تھان اُٹھا کر ریک میں رکھتے فیضان نے اُس کے تاثرات دیکھنے کے لیے سرسری سے انداز میں اُس کے سامنے انکشاف کیا۔
”کیا مطلب؟ آپ کو کس نے کہا؟“ اُس کی بات پہ ایک دم چونکتے زارون نے فٹ سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کہا توکسی نے نہیں مگر مجھے لگتا ہے ابو اذلان اور نورعین کے بارے میں پر امید ہیں۔“ مقابل کے تاثرات کو لمحہ بہ لمحہ محسوس کرتے اُس نے راز کھولا تو زارون نے ایک گہری سانس لیتے خود کو پر سکون کیا۔
”شکر ہے میرے اور نورعین کے بارے میں پر امید نہیں۔“ بڑے بھائی کی بات سنتے ہی اُس نے اپنی جان چھوٹنے پہ زیر لب خود کلامی کی تو فیضان نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
”اچھی بات ہے مگر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ ہمیں ساری زندگی ان دونوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔“ مقابل کے دیکھنے پہ ایک دم سے اپنے جذبات پہ قابو پاتے زارون نے چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے بات کو مذاق کا رنگ دیا تو اُس کے تاثرات دیکھ کر فیضان کا شک مزید مضبوط ہوا۔
”ہمم کھانا کھاؤ گے یا چائے منگواؤں؟“ فی الوقت کسی بھی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے فیضان نے کچھ پوچھنے کے بجائے بات بدلتے نرمی سے سوال کیا تو زارون نے بریانی کھانے کی فرمائش کرتے جیب سے اپنا موبائل نکالا اور دوست کی کال ریسیو کرتے اُس سے بات کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ابو۔ میں نے۔۔ جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔“ اسکول سے واپسی پہ ذیشان صاحب نے نورعین کے کمرے میں ہی عدالت لگائی تو اذلان نے مجرموں کی طرح اُن کے سامنے پیش ہوتے اپنے حق میں صفائی دی۔
”ہمم جیسے بھی کیا پر سوال یہ ہے کہ تم نے نورعین کی دراز کو ہاتھ کیوں لگایا؟“ اپنے غصے کو بامشکل ضبط کرتے ذیشان صاحب نے لہجے میں سنجیدگی لیے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا۔
”میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟ زبان ٹوٹ گئی ہے اب؟ جواب دو مجھے۔“ چند منٹ کی خاموشی کے بعد بھی اذلان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو وہ ایک دم سے دھاڑ کر اپنی جگہ سے اُٹھے۔
”ماموں پلیز، خیر ہے مجھے تصویر دے دی ہے نا آپ نے۔“ اُنہیں غصے میں دیکھ کر نورعین کو گھبراہٹ محسوس ہوئی تو اُس نے جلدی سے اُن کا بازو پکڑتے اگلی کارروائی سے روکا۔
”سو۔۔۔ری ۔۔۔ابو ۔۔۔۔میں دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔“ باپ کے غصے سے خوف زدہ ہوکر اذلان نے معذرت کی اور جلدی سے دو قدم پیچھے کی جانب بڑھائے۔
”دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اگر دوبارہ تم نے نورعین کی کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گا۔“ بھانجی کے روکنے پہ اپنے ہاتھ کو اُٹھانے سے باز رکھتے ذیشان صاحب نے بیٹے کو خبردار کیا۔
”جی۔“ اُن کا حکم سنتے ہی اثبات میں سر ہلاتے اذلان نے تھوک نگلتے گلے کو تر کیا اورتیزی سے دروازے کی جانب بڑھا۔
”تم ٹھیک ہو؟“ دروازے سے نکلتے ہی اُس کا پہلا سامنا عالیہ بیگم سے ہوا جو ذیشان صاحب کے منع کرنے پہ کمرے میں جانے کے بجائے وہیں باہر ہی اُس کے انتظار میں کھڑی تھیں۔
”جی۔“ نورعین کی شکایت پہ ناراض اذلان نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کے لیے سر جھکایا۔
”مارا تو نہیں ابو نے؟“ اُس کا جواب سنتے ہی آگے بڑھتے عائشہ نے بھی فکر مندی سے پوچھا تو اذلان نے نفی میں سر ہلاتے عالیہ بیگم کے روکنے کے باوجود بھی دل برداشتہ سے انداز میں پلٹ کر تیزی سے خود کو کمرے میں بند کیا۔
”اس لڑکی کی خبر تو میں اچھے سے لوں گی۔ دو دن گھر کے کام کروائے تو خود ہی عقل ٹھکانے آجائے گی۔“ بیٹے کی افسردگی دیکھ کر عالیہ بیگم نے پریشانی کے ساتھ دانت پیسے اور نورعین سے اس بدتمیزی کا بدلہ لینے کا سوچتے غصے سے وہیں لاؤنج میں سر پکڑ کر بیٹھیں تو عائشہ نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اُنہیں تسلی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپی؟ آپ کا فون کب سے بج رہا ہے۔“ اپنی کتاب سے سر اُٹھاتے سحر نے اُسے موبائل کی جانب متوجہ کیا جس پہ کافی دیر سے کسی کی کال آ رہی تھی۔
”کوئی نہیں، تم اپنا کام کرو اور اگر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تو مجھے سے دوبارہ پوچھ لو۔“ فیضان کی رات کی گئی بدتمیزی کی وجہ سے سائرہ نے ایک بار پھر سے اُسے اگنور کرتے کال کاٹی۔
”کیا ہوا ہے؟ کوئی لڑائی ہوئی ہے بھائی سے؟“ اسکرین پہ لکھے نام پہ نظر پڑتے ہی سحر نے فکر مندی سے پوچھا۔
”نہیں، بس میرا موڈ نہیں بات کرنے کا اورتم ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑکر اپنے کام پہ دھیان دو۔“ پھر سے بیل بجی تو اُس نے مقابل کی بات کا جواب دیتے موبائل آف کیا۔
”جی۔ سوری میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔“ مقابل کو خفا دیکھ کر سحرنے نظریں چراتے جلدی سے وضاحت دی۔
”ایسے بھی مت پوچھو، تم ابھی چھوٹی ہو اس لیے ایسی بڑی بڑی باتوں کی طرف توجہ مت دیا کرو۔“ فیضان کا غصہ بہن پہ نکالتے سائرہ نے اُس کی گود میں پڑی کتاب اُٹھائی تو سحر نے اُس کا موڈ خراب دیکھ کر خاموشی اختیار کی اور ہاتھ رکھتے اُس ٹاپک کی نشاندہی کرنے لگی جو اُسے سمجھ نہیں آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”مجھے بھوک نہیں ہے اس لیے پلیز آپ مجھے بار بار بول کر پریشان نہ کریں۔“ رات کھانے پہ اذلان کی غیر موجودگی دیکھ کر عالیہ بیگم نے اُس کے کمرے میں جاتے اُسے منانے کی کوشش کی۔
”کیوں بھوک نہیں ہے؟ اگر کھانا کھانے کا نہیں دل تو میں تمہیں چپس یا سینڈوچ بنا دیتی ہوں۔“ اُس کی خفگی دور کرنے کے لیے عالیہ بیگم نے اُس کی پسندیدہ چیزوں کا نام لیتے نرمی سے کہا۔
”نہیں، مجھے کچھ نہیں کھانا بلکہ آپ ایسا کریں فیضان بھائی اور عائشہ آپی سے بولیں وہ بھی مجھے ڈانٹ لیں تاکہ میرے پیٹ میں جو تھوڑی بہت گنجائش ہے وہ بھی ختم ہو جائے۔“ گھر میں موجود تمام افراد کو اپنے خلاف دیکھ کر اذلان نے اب کی بار جذباتی ہوکر عالیہ بیگم سے کہا۔
”کیوں ڈانٹیں؟ میرا بیٹا کون سا سب کی ڈانٹ سننے کے لیے پیدا ہوا ہے اور تم فکر نہ کرو نورعین کی تو میں ایسی خبر لوں گی کہ دوبارہ کبھی تمہاری شکایت کرنے کی جرأت نہیں کرے گی۔“ بیٹے کو مایوس دیکھ کر عالیہ بیگم نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے نرمی سے سمجھایا تو اذلان نے کسی کی ہمددری ملتے ہی بچوں کی طرح شکایتیں لگاتے اپنی آنکھوں کو صاف کیا جو دکھ کے باعث بار بار نم ہو رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُففف اب اس کو پتا نہیں کیا مسئلہ ہے۔ سائرہ پلیز کال ریسیو کر لو۔“ کھانا کھانے کے بعد فیضان نے کمرے میں آتے ایک بار پھر سے اُس کا نمبر ملایا۔
”اُففف حد ہے اس میں منہ بنانے والی کیا بات تھی۔ انسان کسی اپنے مسئلے کی وجہ سے بھی پریشان ہو سکتا ہے۔“ فیضان جو رات سے کافی بار اُسے کال کرچکا تھا بلاآخر اب تھک کر اُس نے موبائل بیڈ پہ پھینکا۔
”ہر کسی کا اپنا اپنا ہی دماغ ہے یہاں۔ جب تک ہاں میں ہاں ملاتے رہو ٹھیک اور جیسے ہی ہلکی سی مخالفت کرو تو ساتھ ہی سب ختم۔“ سائرہ کی فضول حرکت سے بے زار ہوتے فیضان نے زیر لب خود کلامی کی اور پھر سے اُسے کال کرنے کے بجائے لاپروائی سے کمفرٹر اوڑھتے سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپی آپ مجھ سے ناراض ہیں؟“ کمرے میں آتے ہی عائشہ نے اُسے مخاطب کیے بغیر ہی کچھ دیر موبائل استعمال کرنے کے بعد سونے کی تیاری کی تو نورعین نے اُسے مخاطب کرتے فکر مندی سے پوچھا۔
”نہیں۔“ ماں کی پریشانی کو دیکھتے عائشہ کا بھی موڈ خراب تھا اسی لیے ایک لفظی جواب دیتے اُس نے کمفرٹر چہرے پہ اوڑھا۔
”سچ میں، میرا اذلان کی شکایت لگانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا پر پتا نہیں کیسے غصے میں میرے منہ سے نکل گیا۔“ اُس کے رویے کو دیکھتے نورعین نے صفائی پیش کرتے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو عائشہ نے کمفرٹر ہٹاتے اُسے غصے سے جھٹکا۔
”تم ہر بار ایسا ہی کرتی ہو، پہلے امی ابو کے درمیان فساد ڈال دیتی ہو اور پھر معصوم بن کر صفائیاں پیش کرنے لگ جاتی ہو۔ ویسے تمہارا دماغ اتنا چلتا کیسے ہے؟ مطلب یہ چلاکیاں کہاں سے سیکھتی ہو تم؟“ گھر میں پھیلی کشیدگی کی وجہ سے عائشہ نے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر ہر بات کا ذمے دار نورعین کو ٹھہرایا۔
”آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ میں نے سچ میں کوئی چالاکی نہیں کی۔ امی کی تصویر اذلان نے ہی جلائی ہے آپ چاہیں تو اُس سے جاکر پوچھ سکتی ہیں۔“ اپنی عمر کے مطابق نورعین کو مقابل کے الفاظ کا جو مطلب سمجھ آیا اُس نے اُس لحاظ سے اُس کی بات کا جواب دیا۔
”مجھے کسی سے کچھ نہیں پوچھنا اور اگر اذلان سے غلطی سے تصویر جل بھی گئی تو مجھے نہیں لگتا کہ ابو کو بتا کر اس معمولی سی بات پہ اُس بچارے کو ڈانٹ پڑوانے کی کوئی ضرورت تھی۔“ ساری ہمدردیاں ایک طرف رکھتے عائشہ نے ماں اور بھائی کا ساتھ دیتے دو ٹوک انداز میں اُس کی کلاس لی۔
”یہ۔۔۔ معمولی بات نہیں تھی۔ آپ جسے کاغذ کا ٹکڑا سمجھ رہی ہیں وہ میری زندگی کا کل اثاثہ تھا۔ وہ کوئی عام عکس نہیں تھا بلکہ میری ماں کے خدو خال اُن کی صورت تھی جسے آپ کے بھائی نے جلا دیا۔“ عائشہ کی سخت دلی دیکھ کر نورعین نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر آنسو دیوار بن کر اُس کی راہ میں حائل ہوئے۔
”پلیز اب پھر سے رو کر میرا دماغ خراب مت کرنا۔ میں پہلے ہی پریشان ہوں۔“ بے حسی دکھاتے عائشہ نے اب کی بار اُسے چپ کروانے یا دلاسا دینے کے بجائے لاپروائی سے کہا اور کمفرٹر اوڑھتے دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹی تو نورعین نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دباتے خود پہ ضبط کرنے کی کوشش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھئی کیا مسئلہ ہے؟ کیوں چیزیں اُٹھا اُٹھا کر مار رہی ہو؟“ دروازہ زور سے بند کرنے کے بعد عالیہ بیگم نے پانی کی بوتل ٹھک سے ٹیبل پہ رکھی تو ذیشان صاحب نے موبائل سے نظر ہٹا کر اُن کی طرف دیکھا جو بغیر جواب دیے ہی آگے بڑھتے صوفے پہ پڑے کپڑے اُٹھا کر الماری میں رکھنے لگیں۔
”اگر تم اذلان کی وجہ سے ناراض ہو تو یہ تمہاری سب سے بڑی حماقت ہے۔ تمہیں پتا ہے نا نورعین کے لیے ان چیزوں کی کیا اہمیت ہے؟ وہ بچی بچاری تو پہلے ہی اپنے ہر عزیز رشتے سے محروم ہے تو کیا اب ہم اُس سے اُس کی یادیں بھی چھین لیں۔“ بیوی کے یوں فراموش کرنے اور منہ پھلانے کا مقصد سمجھتے ذیشان صاحب نے نورعین کی سائیڈ لیتے نرمی سے کہا۔
”ہم نے کون سی یادیں چھینی ہیں اُس سے؟ ہمیشہ اپنے بچوں سے بڑھ کر خیال کیا ہے اُس کا مگر آپ کو بھانجی کے پیار میں کبھی بھی میری یا میرے بچوں کی رفاقتیں نظر نہیں آئیں۔“ شوہر کے الزام پہ پلٹتے عالیہ بیگم نے خفگی اور دکھ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں کہ اذلان نے تصویر جان بوجھ کر نہیں جلائی۔ وہ تو ہم سب سے زیادہ نورعین کا خیال کرتا ہے پھر وہ کیسے اُسے تکلیف پہنچا سکتا ہے۔“اپنے لہجے پہ قابو پاتے اس بار اُنہوں نے صبر سے اپنا موقف بیان کیا۔
”ہاں جانتا ہوں پر ایسے کسی کی چیزوں کو بغیر اجازت چھیڑانا غلط ہے اور بات صرف تصویر کی نہیں ہے بلکہ اُن ٹیسٹ پیپرز کی بھی جسے اُس نے ہم سے چھپانے کے لیے جلایا ہے۔ دیکھو عالیہ آج ہم اُسے ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے منع نہیں کریں گے تو کل کو وہ ہم سے بڑی باتیں چھپانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔“ بیٹے کے لیے بیوی کا پیار دیکھ کر ذیشان صاحب نے اُنہیں واقعے کے دوسرے پہلو سے آگاہ کرتے سمجھانے کی کوشش کی۔
”جی مانتی ہوں مگر وہ آپ کی بے جا سختی کی وجہ سے ہی ایسا کرتا ہے اسی لیے کہتی ہوں کہ ہر بار ڈانٹٹا یا مار کٹائی کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ ایک بار اُسے پیار سے سمجھا کر دیکھیں وہ فوراً آپ کی بات مانے گا۔“ ذیشان صاحب کا موڈ ٹھیک دیکھ کر عالیہ بیگم نے مزید کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے معاملے کو حل کرنے کی خاطر اُن سے درخواست کی۔
”ٹھیک ہے، اب غلطی کرے گا تو پیار سے سمجھا دوں گا بس اس بات کو ختم کرو اور سو جاؤ مجھے صبح دکان پہ بھی جانا ہے۔“ کلاک پہ گیارہ بجتے دیکھ کر ذیشان صاحب نے بیوی کی بات سنتے نرمی سے کہا تو وہ مزید بحث میں پڑنے کے بجائے ہاتھ میں پکڑے کپڑے الماری میں رکھ کر کمفرٹر سیدھا کرتے سونے کی تیاری کرنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ کی باتوں اور دن میں سوئے رہنے کی وجہ سے کوشش کے باوجود بھی نیند نے اُس کا ساتھ نہ دیا تو وہ تھک ہار کے اُٹھ بیٹھی۔
”پتا نہیں سب کو میں ہی غلط کیوں لگتی ہوں۔ میری بھی امی ہوتی تو ان میں سے کوئی بھی میرے ساتھ ایسا نہ کرتا۔“ عالیہ بیگم کی خاموشی اور عائشہ کے بولے گئے الفاظ کو سوچتے نورعین کا دل بُرا ہوا تو اُس نے کمرے میں گھبراہٹ محسوس کرتے اپنی چادر اُٹھائی اور کچھ دیر سکون کی غرض سے وہاں سے باہر نکلی۔
”چھت پہ چلی جاتی ہوں اگر دروازہ کھلا ہوا تو۔“ بیرونی دروازے بند دیکھ کر اُس نے کھلی ہوا کی خاطر اپنے قدم دوسری منزل کی جانب بڑھائے جہاں سے سیڑھیاں تیسری منزل پہ جاتی تھیں۔
”شکر ہے کھلا ہے۔“ دروازہ کھلا دیکھ کر اُس نے شکر ادا کیا اور قدم آگے بڑھائے۔
”یہ سب اذلان کی وجہ سے ہورہاہے۔ نہ وہ بدتمیزی کرتا اور نہ ہی آپی اور ممانی مجھ سے ناراض ہوتیں۔“ دبے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتے وہ چادر کو اپنے گرد لپیٹتے منہ میں بڑبڑائی۔
”وہ ہے ہی بدتمیز، اب میں کبھی اُس سے دوستی نہیں کروں اور نہ ہی اُس کی کوئی بات مانوں گی۔“ دل ہی دل میں ارادہ کرتے اُس نے چھت پہ قدم رکھا تو وہاں پہلے سے ہی زارون کو موجود دیکھ کر ایک دم سے ٹھٹکی۔
”یہ گھر میرا بھی ہے۔ میں بھلا کیوں ڈروں ان سے۔“ دماغ میں چند سیکنڈز کے لیے آئے خوف کو رد کرتے اُس نے مقابل کی پشت کو گھورتے مضبوطی سے اپنے قدم آگے بڑھائے۔
”تم؟ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟“ آہٹ پہ فٹ سے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ زمین پہ پھینکتے اُس نے فیضان کے گمان پہ تیزی سے پلٹ کے دیکھا۔
”یہ گھر میرا بھی ہے اس لیے میں جب چاہوں، جہاں چاہوں جاسکتی ہوں۔“ ہلکی روشنی کے باعث وہ سگریٹ کو نہ دیکھ پائی تھی مگر فضا میں پھیلی بد بو سے اندازہ لگا تے وہ جتانے والے انداز میں کہتے لاپروائی سے گرل کے پاس پہنچی۔
”لگتا ہے پرسوں والا خوف دل سے نکل گیا ہے جو اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ میرے پاس کھڑی ہو۔“ اُس کی بات پہ ناگواری ظاہر کرتے زارون نے اُسے کچھ یاد کروایا۔
”جی نکل گیا ہے۔ ویسے بھی میں فضول لوگوں کی فضول باتوں کو اپنے سر پہ سوار نہیں کرتی۔“ کھلی ہوا میں آتے ہی سکون محسوس کرتے نورعین نے دو ٹوک انداز میں کہتے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”ہمم لگتا ہے بخار نے دماغ پہ کچھ زیادہ ہی اثر کردیا ہے۔ ویسے بنتا نہیں تھا۔ مطلب تمہارا تو پیدائشی نٹ ڈھیلا ہے۔“ اس کی تیزی سےچلتی زبان کودیکھتے زارون نے طنزاً بات کو مذاق میں ڈالا۔
”جی بالکل۔ ماں باپ دکھ انسان کے دل و دماغ کے سارے نٹ ڈھیلے کردیتا ہے پر آپ لوگ نہیں سمجھیں گے کیونکہ آپ کے پاس وہ سب نعمتیں موجود ہیں جن سے میں محروم ہوں۔“ عائشہ کی باتوں کا غصہ زارون پہ نکالتے وہ ایک دم سے جذباتی ہوئی۔
”میں مذاق کر رہا تھا بس اب رونے مت بیٹھ جانا۔“ اُس کے لہجے سے اُس کی تکلیف کا اندازہ لگاتے زارون نے اپنے آپ کو مزید کسی کڑوی بات کہنے سے باز رکھا۔
”چلو نیچے پہلے ہی طبعیت خراب ہے تمہاری۔“ دوسری طرف مکمل خاموشی دیکھ کر اُس نے ہوا میں بڑھتی خنکی محسوس کرتے اب کی بار تھوڑی نرمی دکھائی۔
”آپ جائیں میرا جب دل ہوا میں چلی جاؤں گی۔“ آنکھوں کے نم کناروں کو صاف کرتے اُس نے چاروں طرف پھیلی تاریکی کو دیکھتے مقابل کو نظر انداز کیا۔
”رات کے اس پہر تمہارا یہاں رکنا مناسب نہیں اس لیے چلو۔“ اُسے اکیلے وہاں چھوڑنے کے بجائے زارون نے واپسی کے لیے پلٹتے اُسے بھی چلنے کا بولا۔
”میں نہیں جاؤں گی اور میں آپ کی غلام نہیں ہوں جو ہر وقت آپ کا حکم مانوں۔“ اُس کی بات سمجھنے کے بجائے ہٹ دھرمی سے کہتے نورعین نے خود کو مزید باہر کے منظر کی جانب متوجہ کیا تو زارون نے سختی سے اُس کا بازو پکڑا۔
”تمہیں پیار کی زبان مشکل سے ہی سمجھ آتی ہے۔“ اُسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ہی اپنے ساتھ کھینچتے وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا تو نورعین نے اپنی بکھری ہوئی چادر کو سنبھالنے کی کوشش کی جو اُس کے پاؤں کے نیچے آکر کبھی بھی گرنے کا باعث بن سکتی تھی۔
”کیا مسئلہ ہے آپ کو؟ دماغ ٹھیک ہے نا آپ کا؟ پرسوں رات بھی آپ نے اپنی من مانی کی اور اب پھر سےآپ اپنا حکم مجھ پہ مسلط کر رہے ہیں۔ میں آپ کی شکایت کروں گی ماموں سے۔“ اُس کا ہاتھ چھوڑتے زارون نے دروازے پہ تالا لگایا تو نورعین نے اُس کی بدتمیزی پہ کڑھتے تیز آواز میں اپنی بات کہی۔
”آواز نیچی رکھو اور زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ فیضان کا کمرہ ساتھ ہونے کی وجہ سے اُس نے نورعین کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اُسے مزید کچھ بولنے سے روکا۔
”میں بولوں گی، آپ مجھے۔۔“ اُس کا ہاتھ ہٹاتے نورعین نے پھر سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر زارون نے اب کی بار سختی سے اُس کے الفاظ کا گلہ گھونٹا۔
”زیادہ تماشا بنانے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تمہاری آواز بند کرنا میں اچھے سے جانتا ہوں اس لیے بہتر ہے کہ تم چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔“ چاروں طرف پھیلی خاموشی کی وجہ سے زارون نے اپنی آواز حتی الامکان آہستہ رکھتے اُسے دھمکی دی تو نورعین نے غصے سے اُس کا ہاتھ ہٹایا اور مزید اُس کے منہ لگنے کے بجائے اپنی چادر سنبھالتے تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
”ہونہہ آئی بڑی ماموں کو شکایت لگانے والی۔“ پسٹل کے نام پہ اُس کی پھرتیاں دیکھ کر زارون نے زیر لب خود کلامی کی اور ایک نظر دائیں طرف موجود کمرے پہ ڈالتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا توفیضان نے سائرہ کے مخاطب کرنے پہ کھڑکی کا پردہ چھوڑا۔
”کہاں گم ہوگئے تھے؟ پھر سے نیند آرہی ہے کیا؟“ دوسری طرف خاموشی محسوس کرتے اُس نے اندازہ لگایا۔
”ن ۔۔۔نہیں۔۔ اب تو نیند آئے گی تب بھی نہیں بولوں گا۔“ بامشکل اپنی بوکھلاہٹ پہ قابو پاتے فیضان نے سائرہ کی بات کا جواب دیا جو شام سے ہزاروں مسیجز اور کال کرنے کے بعد اب جاکر مانی تھی۔
”ہونہہ اب اتنی بھی ظالم نہیں ہوں میں۔ سو جاؤ اور اپنے وعدے کے مطابق صبح میرے لیے چاکلیٹس اور کیک بھیج دینا۔“صلح کے لیے قائم کردہ شرط یاد دلاتے سائرہ نے اُسے اجازت دی تو فیضان نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اُسے بھی سونے کا بولتے کال منقطع کی۔
”کیا چل رہا ہے ان کے بیچ۔“کان سے موبائل ہٹاتے ہی فیضان نے ایک نظر وقت پہ ڈالتے فکر مندی سے سوچا۔
”بات کرتا ہوں ابو سے۔“ برداشت ختم ہوتے ہی دل میں ارادہ کرتے اُس نے خود کلامی کی اور موبائل ٹیبل پہ رکھتے واش روم میں گھس گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے….

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*