پچھلے 4 سالوں سے پاکستان پر دیوالیہ پن کی تلوار لٹک رہی ہے ، معاشی اعتبار سے یہ خدشات اور بھی تقویت اختیار کرتے گئے جب گزشتہ سال سری لنکا جیسا ملک ڈیفالٹ کر گیا۔ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کسی ملک کو اس وقت ڈیفالٹ قرار دیتا ہے جب وہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرے یا حکومت وقت قرض دہند گان کو وعدے کے مطابق قرض کی ادائیگی سے قاصر ہو جائے۔ سری لنکا، یوکرین، زیمبیا، لبنان، اور ارجنٹائن ان معیشتوں میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کیا ۔ پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے کیونکہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ڈالر مضبوط ہو رہا ہے، قرض لینے کی لاگت بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ عالمی نمو میں کمی بھی کافی حد تک اثر انداز ہوئی۔ کئی بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ماہرین اقتصادیات بھی پاکستان کے تباہ کن قرضوں کے بحران پرخطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ پاکستان اس وقت سری لنکا جیسی صورتحال کا شکار نہیں لیکن یہ اس سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ یہ ترسیلات ملکی زرِمبادلہ ذخائر کا اہم جز وہوتی ہیں مگر گزشتہ چند ماہ سے ترسیلاتِ زر میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ دسمبر میں ترسیلاتِ زر 19 فیصد کی کمی کے بعد 2 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ پاکستان کو سرکاری سطح پر موصول ہونے والے زرِمبادلہ میں اکتوبر سے دسمبر تک 6.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
حکومت گیس کے شعبے کے 1600 ارب روپے سے زائد سرکلر ڈیٹ کو قابو میں کرنے کے لیے گیس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 650 روپے سے بڑھا کر 1100 روپے کرنے اور بجلی کے ٹیرف کو 4 روپے مہنگا کرنے کے علاوہ مشروبات اور سگریٹ پر ٹیکس ، پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بڑھانے پر غور کررہی ہے اور منی بجٹ کے ذریعے 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔ مگر یہ تمام اقدامات اٹھانے میں شاید حکومت نے خاصی دیر کردی ہے!. حکومت کے سخت اقدامات اٹھانے کا مقصد آئی ایم ایف سے پروگرام کی بحالی ہے تاکہ دوست ممالک اور دیگر قرض دینے والے عالمی اداروں سے وعدہ کردہ رقوم پاکستان کو مل سکیں۔ پاکستان آج معاشی طور پر جن مسائل سے گزر رہا ہے ان کی وجہ مالی بد انتظامیاں اور ملک میں عرصہ دراز سے جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس افراتفری کے ماحول میں سیاسی جماعتوں کو اعتدال کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ معلومات کا بہاؤ معیشت میں افراتفری اور غیر یقینی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ غلط معلومات اور خاص کر معیشت کے بارے میں افواہوں کےپھیلاؤ سے بچنے کے لئے میڈیا پروفیشنلز کو ملکی معیشت پرذمہ دارانہ رپورٹنگ کرنا ہو گی، تاکہ مسلسل غیر یقینی اور بے چینی کے ماحول میں کسی قدر کمی آ سکے۔
ان تمام اسباب کے نتیجے میں برپا ہونے والی ہلچل اسٹاک ایکسچینج میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ جب تک صورتحال مستحکم نہیں ہوتی، کوئی بھی سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کے دوران حصص خریدنے کے لیے تیار نہیں ہو تا۔ جس سے تجارتی سودے اور قرضوں کی ادئیگی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے ۔ مزید برآں عالمی سطح پر پا کستان کی ساکھ کو ایک الگ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔