ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 04

ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 04

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 04

صبح سے جاری ہلکی بارش کی وجہ سے وہ ایک گھنٹے کا کام تین گھنٹوں میں نمٹا کر کوفت زدہ سے انداز میں گھر پہنچا تو اُس کا سب سے پہلا سامنا نورعین سے ہوا جو افسردہ سے چہرے کے ساتھ برآمدے میں لگے جھولے پہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
”تم نے آج پھر اسکول سے چھٹی کی ہے؟“ صبح ہوئے واقعے کی یاد آتے ہی زارون نے ایک بار پھر سے اُس کی کلاس لینے کا سوچ کرقدم اُس کی جانب بڑھائے۔
”جی۔“ اُس کے سوال پہ چند سیکنڈز کے لیے اپنی بوجھل پلکیں اُٹھاتے نورعین نے مقابل کو دیکھا اور جواب دیتے پھر سے نظریں جھکا کر جھولے کو ہلکی ہلکی حرکت دینے لگی۔
”کیوں؟ ابھی تم نے شاید پرسوں ہی چھٹی کی تھی نا؟ ابو کے پاس پیسے درختوں پہ نہیں اُگتے جو ہر چھ ماہ بعد فیس کے ساتھ تم لوگوں کا اُتنا ہی جرمانہ بھی ادا کریں۔“ رسی کو پکڑ کر جھولے کی حرکت کو روکتے زارون نے مقابل کی کیفیت سمجھے بغیر ہی سخت الفاظ کی بوچھاڑ کی۔
”لوگوں کا لفظ استعمال کر کے بھرم رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ سیدھا ہی بول دیتے کہ میرے لیے پیسے نہیں ہیں۔“ رسیوں کو تھامے اُس نے زارون کی بات سنتے ہی تلخی سے اُس کی طرف دیکھا۔
”فضول بحث کی ضرورت نہیں ہے جو سمجھایا ہے آئندہ اُس پہ عمل کرنا۔“ اُس کی منفی سوچ کو رد کرتے زارون نے حکم دیتے بات ختم کی۔
”میں کسی کے حکم کی غلام نہیں ہوں اس لیے اپنی مرضی اپنے بہن بھائیوں پہ چلائیں۔“ پاؤں نیچے زمین پہ ٹکائے نورعین نے اُس کی صبح والی مہربانی کو نظر انداز کرتے دو ٹوک انداز میں اُس کی آنکھوں دیکھا۔
”ٹھیک ہے۔ میں بھول گیا تھا کہ تم میری کزن ہو بہن نہیں۔“ اُس کا جواب سنتے ہی زارون کے تن بدن میں آگ لگی اور اُس نے رسی چھوڑتے اپنا رخ اندرکی جانب کیا تو نورعین نے دھندلائی ہوئی نظروں سے اُس کی پشت کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”زارون؟ کیا ہوا؟ اتنی جلدی میں کیوں ہو؟“ اُسے اپنے پاس سے سلام و دعا کے بغیر ہی گزرتا دیکھ کر عالیہ بیگم نے فکر مندی سے آواز دی۔
”السلام علیکم! سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں۔“ ماتھے پہ پڑے بل درست کرتے وہ ماں کے مخاطب کرنے پہ اُن کے قریب آیا۔
”وعلیکم السلام! پراجیکٹ جمع ہوگیا؟ اور اتنے غصے میں کیوں ہو؟“ اُس کے تاثرات میں الجھن دیکھ کر عالیہ بیگم نے نرمی سے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
”جی ہوگیا اور غصے میں نہیں ہوں بس گھر میں داخل ہوتے ہی کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تھا اسی لیے موڈ تھوڑا خراب ہو گیا۔“ براہ راست نورعین کا ذکر کرنے کے بجائے زارون نے اشارتاً ماں کی بات کا جواب دیا۔
”کون سی بلی؟ تم نورعین کی بات کر رہے ہو؟ پھر سے لڑ کے آئے ہو کیا؟ اُففف زارون اُسے تو میں نے پہلے ہی اتنی مشکل سے بہلایا تھا۔“ اُس کی بات سے اندازہ لگاتے عالیہ بیگم نے اپنا سر پکڑا۔
”میں نہیں لڑتا کسی سے اور نہ ہی مجھے اُس کے منہ لگنے کا کوئی شوق ہے۔ میں نے ویسے ہی پوچھا کہ اسکول سے چھٹی کیوں کی تو بس اُس نے اپنی بدتمیزیاں شروع کر دیں۔“ ماں کی نرم دلی دیکھ کر اُس نے اپنے اور نورعین کے درمیان ہوئی گفتگو کا مختصر حوالہ دیا۔
”اُففف تم لوگوں کا میں کچھ نہیں کر سکتی، پہلے ہی صبح سے رو رو کر اُس نے اپنی حالت بگاڑی ہوئی اور اب تم ایک نیا مسئلہ کھڑا کر آئے۔ کیا ضرورت تھی تمہیں اسکول نہ جانے کی وجہ پوچھنے کی؟“ اُس کے جواب پہ پریشان ہوتے عالیہ بیگم نے غصے سے اُسے سرزنش کی۔
”کیوں اب کیا ہوا؟ اور امی یہ صرف بچوں کے بہانے ہوتے۔“ معاملے کی سنگینی کا علم نہ ہونے کی وجہ سے زارون نے ماں کی بات سنتے ہی اُنہیں سمجھایا۔
”بہانہ نہیں تھا، نورعین کے پاس اُس کی اور نورین کی تصویر تھی وہ کہیں گم گئی ہے اسی لیے وہ تھوڑی پریشان ہے۔“ دکھ کے زیر اثر اُس نے ابھی تک کسی سے اذلان کی حرکت کا ذکر نہیں کیا تھا اسی لیے عالیہ بیگم نے عائشہ سے سنی ہوئی بات مختصراً زارون تک پہنچائی۔
”کہاں گم گئی؟ اور اس میں رونے یا پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ مطلب پھوپھو کی اور بھی کافی تصویریں ہیں نا گھر میں۔“ ماں کی بات سنتے ہی زارون کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اُس نے اب کی بار نرمی سے پوچھا۔
”ہاں ہیں مگر شاید نورعین کو اُس تصویر سے کچھ زیادہ لگاؤ تھا، ویسے بھی اُس کے پاس ان بے جان احساسات کے علاؤہ اپنی ماں کو دیکھنے یا محسوس کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لیے وہ کچھ زیادہ جذباتی ہو جاتی ہے۔“ افسردگی سے بتاتے وہ سانس لینے کے لیے رکی اور پھر سے اپنی بات کا آغاز کیا۔
”صبح سے چپ چاپ اپنے کمرے میں بند تھی۔ کچھ کھایا بھی نہیں اور ابھی بھی میں نے بڑی مشکل سے بہلا کر باہر بھیجا تھا تاکہ کچھ موڈ ٹھیک ہو پر یقیناً تم نے زیادہ عقل مند بننے کی کوشش میں اُسے پھر پریشان کر دیا ہوگا۔“ بیٹے کی سنجیدہ اور دوٹوک انداز میں بات کرنے والی عادت سے واقف ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم نے خفگی سے اُس کی طرف دیکھا۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے اور آپ پلیزکھانا لگادیں، میں نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔“ اپنی کڑوی بات کو نظر انداز کرتے زارون نے نورعین کی بدتمیزی کو یاد رکھتے اُس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بھی ہمددری جتانے کے بجائے ماں کو اپنی بھوک کا احساس دلایا اور بیگ سنبھالتے سیڑھیوں کی جانب بڑھا تو عالیہ بیگم نے اُنہیں اُن کے حال پہ چھوڑتے کچن کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”فیضان کیا بات ہے؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟“ صبح سے اُسے بار بار الجھتے اور سوچ میں گم ہوتا دیکھ کر بلاآخر ذیشان صاحب نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے نرمی سے پوچھا۔
”کیا؟ نہیں ابو۔۔ کوئی مسئلہ نہیں۔۔“ اُن کے مخاطب کرنے پہ ایک دم سے چونکتے وہ اپنی سوچ سے نکلا۔
”تو پھر ایسے پریشان کیوں ہو؟ میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ تم کچھ چپ چپ اور الجھے سے ہو۔ کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھے بتا سکتے ہو۔“ اُس کے جواب پہ عدم اعتماد ظاہر کرتے ذیشان صاحب نے ایک بار پھر سے استفسار کیا۔
”نہیں ابو کوئی بات نہیں ہے۔ بس رات کوٹھیک سے نیند نہیں آئی اسی لیے شاید سستی ہورہی ہے۔“ نظریں چراتے اُس نے صبح سے دماغ میں چلتی کشمکش کو جھٹک کر باپ کو مطمئن کیا۔
”اچھا تو پھر گھر چلے جاؤ، جاکر آرام کرو۔ میں خود ہی کام سنبھال لوں گا۔“ اُس کا جواب سنتے ہی ذیشان صاحب نے اب کی بار مشورہ دیتے نرمی سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔
”نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بس چائے منگواتا ہوں، آپ پئیں گے کیا؟“ بات بدلتے فیضان نے موبائل اُٹھایا تو ذیشان صاحب اثبات میں سر ہلاتے عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہوئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”امی مجھے نہیں پتا اگر نورعین ٹیوشن نہیں جائے گی تو میں بھی چھٹی کروں گا۔“ صبح ذیشان صاحب کے ڈر سے وہ وجہ جانے بغیر ہی چپ چاپ اکیلا ہی اسکول چلاگیا تھا مگر اب واپسی پہ نورعین کی طبعیت کی خرابی کا سن کر اُس نے ضد کرتے کوئی چھٹی بار اپنی بات دوہرائی۔
”اچھا بابا نہ جانا پر یہ یاد رکھو کہ زارون بھی گھر پہ ہے اگر اُس نے کچھ پوچھا تو تم خود ہی جواب دو گے۔“ اُس کی چک چک سے تنگ آتے عالیہ بیگم نے بلاآخر اُسے بڑے بھائی کا ڈروا دیا (جو ناشتہ کرتے ہی نیند پوری کرنے کی غرض سے پچھلے پانچ گھنٹوں سے اپنے کمرے میں بند تھا)۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ بھائی کیوں گھر ہیں؟ اور امی آپ لوگ نورعین کو کچھ نہیں کہتے اور میں جب بھی چھٹی کا نام لیتا ہوں سب میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔“ زارون کا سنتے ہی اذلان نے جذباتی سے انداز میں منہ بسورا۔
”نورعین کی تو طبعیت خراب ہے نا ورنہ وہ کبھی بھی تمہاری طرح بلاوجہ چھٹی نہیں کرتی۔“ چائے کا کپ اُس کے سامنے رکھتے عالیہ بیگم نے اُس کے نخرے دیکھ کر باور کروایا۔
”کوئی طبعیت خراب نہیں ہے اُس کی، مجھے پتا ہے وہ جان بوجھ کر بہانے کر رہی ہے اور امی آپ اتنی جلدی اُس کی باتوں میں نہ آیا کریں۔“ اپنی غلطی سے انجان اذلان نے ماں کی سادگی دیکھ کر اُنہیں سمجھایا۔
”فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور کہیں تم نے تو نورعین کو تنگ کرنے کے لیے نورین کی تصویر غائب نہیں کی؟ دیکھو بیٹا اگر تم نے چھپائی ہے تو واپس کر دو کیونکہ ابھی تمہارے ابو کو اس بات کا علم نہیں ہے۔“ دماغ میں ایک دم سے آئے خیال کو زبان پہ لاتے عالیہ بیگم نے شکی انداز میں کہتے بیٹے کو نرمی سے تاکید کی۔
”کون سی تصویر؟ اور آپ ہر بات پہ مجھ پہ شک کیوں کرتی ہیں؟ کیا میں شکل سے آپ کو چور لگتا ہوں؟“ ماں کے الزام پہ ششدر اذلان نے منہ میں بھرا گھونٹ بامشکل اندر نکالا۔
”نہیں، میں شک نہیں کر رہی۔ مجھے لگا شاید تم نے نورعین کو تنگ کرنے کے لیے تصویر چھپائی ہو۔“ اپنے الفاظ پہ زور دیتے عالیہ بیگم نے پھر سے تصدیق چاہی۔
”نہیں، میں نے کچھ نہیں چھپایا اور آپ یہ کس تصویر کی بات کر رہی ہیں؟“ معاملے سے انجان اذلان نے اب کی بار صبح سے ہوئے تمام واقعات پہ غور کیا۔
”نورعین کی اور اُس کی امی کی تھی، مجھے تو عائشہ نے بتایا کہ دراز سے کہیں غائب ہوئی ہے ورنہ نورعین نے تو صبح کی چپ سادھی ہوئی ہے۔“ مقابل کی معلومات میں اضافہ کرتے عالیہ بیگم نے جیسے ہی دراز کا نام لیا تو اذلان کے کان کھڑے ہوئے۔
”تمہیں کیا ہوا؟ کہاں جا رہے ہو؟ چائے تو پی لو۔“ اُسے ایک دم سے کھڑا ہوتے دیکھ کر عالیہ بیگم نے تعجب سے اُس کی طرف دیکھا جو چہرے پہ پریشانی لیے تیزی سے کچن سے نکل کر نورعین اور عائشہ کے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”دفع ہو جاؤ میری نظروں سے دور۔“ کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت پہ نظر پڑتے ہی نورعین نے نفرت سے کہتے کمفرٹر اپنے چہرے پہ اوڑھا۔
”یار قسم سے میں نے کوئی تصویر نہیں لی۔ میں نے تو صرف اپنے ٹیسٹ پیپر نکالے تھے۔“ تیزی سے اُس کی جانب بڑھتے اذلان نے وضاحت دی۔
”نورعین پلیز میری بات کا یقین کرو، قسم سے میں نے کوئی تصویر نہیں لی۔“ اُس کے قریب ہی بیڈ پہ بیٹھتے اذلان نے سارا معاملہ سمجھ آتے ہی اپنے ذہن پہ زور دیتے صفائی پیش کی۔
”تو پھر کہاں ہے؟ دیکھو ذرا، تم نے اسی دراز سے پیپر نکلے تھے نا؟“ اُس کی بات سنتے ہی فٹ سے کمفرٹر ہٹاتے اُس نے سرخ چہرے کے ساتھ سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی۔
”پر میں تو صرف پیپر نکالے تھے۔ میرا مطلب، میں نے چیک نہیں کیے تھے مگر۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اُس میں کوئی تصویر نہیں تھی۔“ مقابل سے زیادہ خود کو اپنی بات کا یقین دلاتے اذلان نے فکر مندی سے دراز کی تلاشی لی۔
”کچھ نہیں ہے۔ صبح سے ہزار بار دیکھ چکی ہوں۔ میری ہی غلطی تھی جو میں نے لاپروائی سے تصویر کو پیپرز میں رکھا۔“ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے نورعین نے تکلیف کے زیر اثر مقابل کو الزام دینے کے بجائے سختی سے اپنے آپ کو کوسا۔
”نہیں، یہ سب میری غلطی ہے۔“ اُس کے کانپتے وجود کو دیکھتے اذلان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس کے الفاظ نے اُس کا ساتھ چھوڑا۔
”سوری۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں پریشان نہ کرتا۔“ زندگی میں پہلی بار اپنے پارٹنر کو ایسے روتا دیکھ کر اُس نے شرمندگی سے سر جھکاتے اپنی بے وقوفی کا اعتراف کیا۔
”یار پلیز مت رو۔ تمہیں پتا ہے نا میں کبھی بھی جان بوجھ کر ایسی حرکت نہیں کرتا۔“ چند منٹ خاموش رہنے کے بعد نورعین کی ہچکیاں اُس کے کانوں تک پہنچی تو اُس نے پریشانی سے اُس کے ہاتھوں کو تھاما جو بخار کی شدت سے تپ رہے تھے۔
”تمہیں تو بخار ہے۔“ اُس کے ہاتھوں کی گرمائش محسوس کرتے ہی اذلان نے فکر مندی سے اُس کے چہرے کو چھوا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے ہمدردیاں جتانے کی۔ میں جانتی ہوں تم نے یہ سب جان بوجھ کر صرف مجھے سبق سکھانے کے لیے کیا ہے۔ اس لیے پلیز اب یہاں سے چلے جاؤ۔“ بدگمانی کے زیر اثر نفرت سے کہتے اُس نے مقابل کے ہاتھ کو جھٹکا اور مزید اُس کی کوئی بھی وضاحت سنے بغیر کمفرٹر چہرے پہ اوڑھتے دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹی تو اذلان نے دکھ سے ایک نظر اُس کی پشت کو دیکھا اور خاموشی سے اُٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”نورعین کہاں ہے؟“ رات کو کھانے کی ٹیبل پہ اُس کی غیر موجودگی محسوس کرتے ذیشان صاحب نے استفسار کیا تو فیضان بھی لاشعوری طور پہ ماں کی طرف متوجہ ہوا۔
”بخار ہے اُسے، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی رسک کھلا کر میڈیسن دی ہے۔“ شوہر کی بات کا جواب دیتے عالیہ بیگم نے ساتھ ہی اپنی کارکردگی کا ذکر کیا۔۔
”بخار کب سے ہے؟ اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ کون سی میڈیسن دی ہے؟“ اُس کی طبعیت کی خرابی کا سنتے ہی ہاتھ میں پکڑا نوالہ پلیٹ میں رکھتے ذیشان صاحب نے فکر مندی سے بیوی کی طرف دیکھا۔
”بخار کی ہی دی ہے اور آپ پریشان نہ ہوں وہ سو گئی ہے اور صبح تک ٹھیک ہوجائے گی۔“ تصویر والی بات کا ذکر کر کے اس وقت گھر میں کوئی ہنگامہ کھڑا کرنے کے بجائے عالیہ بیگم نے نرمی سے شوہر کو تسلی دی۔
”ٹھیک ہے۔ تم لوگ کھانا کھاؤ میں ذرا ایک بار خود دیکھ لوں۔“ بیوی کی بات سے مطمئن نہ ہوتے ذیشان صاحب نےسب کو کھانے سے ہاتھ روکے بیٹھا دیکھ کر شروع کرنے کا بولا اور اُٹھ کر بائیں جانب موجود کمرے کی جانب بڑھے تو فیضان نے نظریں چراتے ایک نظر زارون پہ ڈالی جو چہرے پہ کسی قسم کا کوئی بھی تاثر لیے بغیر اپنی پلیٹ میں سالن نکالنے میں مصروف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بھائی آپ یہاں؟ میرا مطلب آپ مجھے بلا لیتے۔“ نورعین کی ناراضی کی وجہ سے وہ چند نوالے کھانے کے کھا کر اپنے کمرے میں آگیا تھا تاکہ اُسے منانے کی کوئی ترکیب سوچ سکے۔
”کیوں مجھے تمہارے کمرے میں آنا منع ہے؟“ ایک طائرانہ نظر اُس کے بیڈ پہ بکھری چیزوں پہ ڈالتے زارون نے اب کی بار براہ راست مقابل کی آنکھوں میں دیکھا۔
”نہ۔۔نہیں۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ اپنے ماتھے سے بلاوجہ ہی بال ہٹاتے اذلان نے اُس کے تاثرات سے کنفیوژ ہوتے مسکرانے کی نا کام کوشش کی۔
”موبائل صبح کیوں بند تھا تمہارا؟“ اب کی بار آگے بڑھتے اُس نے ٹیبل پہ رکھی کتاب کو اُٹھایا۔
”کب۔۔ وہ شاید بیٹری لو ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہوگا۔“ صبح کے لفظ پہ اذلان کو گڑبڑ کا احساس ہوا تو اُس نے اپنے گلے کو تر کرتے مقابل کی بات کا جواب دیا۔
”ہمم۔۔۔ مطلب پارٹنر سے ابھی اس موضوع پہ کوئی بات چیت نہیں ہوئی تمہاری؟“ کتاب واپس ٹیبل پہ رکھ کر چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھا کر اُس کے قریب آتے زارون نے تصدیق کے لیے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”کون سا۔۔ موضوع؟ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔“ انجان بننے کی ایکٹنگ کرتے اذلان نے اپنی گھبراہٹ پہ قابو پانے کی کوشش کی تو زارون نے سختی سے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
”یہ تمہاری آخری بیوقوفی تھی جسے میں نے آخری بار اس لیے معاف کیا ہے تاکہ میری ذات پہ کوئی بات نہ آئے۔“ سختی سے اُس کا کندھا دباتے زارون نے لفظوں سے زیادہ عمل سے مقابل کو سمجھایا۔
”ج۔جی۔ سو۔۔ری ۔۔۔بھائی۔۔۔وہ میں نے تو۔۔“ زارون کی بات سنتے ہی اذلان نے بننے کے بجائے لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ اپنا جرم قبول کرتے وضاحت دینے کی کوشش کی مگر سامنے والے کے تاثرات دیکھ کر خاموش ہوا۔
”ٹھیک ہے۔ اپنا کام کرو اور اب زبان بند رکھنا ورنہ پنکھے ساتھ الٹا لٹکا دوں گا۔“ سامنے سے عالیہ بیگم کو آتے دیکھ کر زارون نے اُس کے کندھے پہ ہلکی سی تھپکی دی اور تاثرات میں نرمی لیے ماں کی جانب متوجہ ہوا جو اذلان کے لیے دودھ لے کر آئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یار کیا مسئلہ ہے؟ یہ کچھ دیر بعد تم کس سوچ میں گم ہوجاتے ہو؟“ کال کے درمیان چوتھی بار فیضان بات کرتے کرتے خاموش ہوا تو سائرہ نے اب کی بار جھنجھلاتے ہوئے اُسے مخاطب کیا۔
”کچھ نہیں۔کیا کہہ رہی تھیں تم؟“ اُس کی آواز پہ چونکتے فیضان نے غائب دماغی سے اُس کی بات پہ دھیان دیا۔
”کچھ نہیں، میں نے کیا کہنا ہے۔ تمہاری طبعیت نہیں ٹھیک تو آرام کرلو، ہم صبح بات کر لیں گے۔“ اب کی بار سوچ کی وجہ جاننے کے بجائے اُس نے اکتائے ہوئے انداز میں مروتاً پیشکش کی۔
”ہاں بس نیند آرہی ہے۔تم بھی سو جاؤ میں صبح کال کروں گا۔“ اپنی دھن میں مگن اُس کے لہجے پہ غور کیے بغیر ہی فیضان نے نیند کا بہانہ کیا تو سائرہ نے اللہ حافظ بولے بغیر ہی غصے سے کال منقطع کی۔
”اب اسے پتا نہیں کیا ہوگیا ہے۔
”حد ہے کسی کی پریشانی بھی نہیں سمجھتی، دوسری طرف ٹھک سے رابطہ ختم ہونے پہ اُس نے زیر لب خودکلامی کرتے ایک گہری سانس لی اور موبائل سائیڈ پہ رکھتے پھر سے صبح والی بات پہ غور کرنے لگا۔
”اُففف پتا نہیں کیا چل رہا ہے اس گھر میں۔ ہوسکتا ہے مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔“ کچھ دیراپنی سوچ میں غرق رہنے کے بعد فیضان نے خود ہی اُسے غلط قرار دیتے اپنے دماغ سے جھٹکا اور موبائل اُٹھاتے پھر سے سائرہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا تاکہ اُسے منا سکے۔

جاری ہے….

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*