نوجوان سرکاری معلمہ صائمہ بیگم کا تعلق ہمارے علاقے اور قبیلے سے نہ تھا لیکن اپنے اخلاق اور فہم و فراست کی وجہ سے وہ بہت جلد اپنے نئے گھر اور خاندان میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔ وہ میرے برادر نسبتی سابق وائس چیئرمین صاحبزادہ محمد فضل الحق نقشبندی کی اہلیہ تھیں۔ 2008 میں شادی ہوئی تھی۔ جس جگہ میاں محمد بخش نے بیٹھ کر قبر میری جے پنجنی ہوندی لکھا وہاں برادر نسبتی کی بارات کے ساتھ جانے کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔
اب تک انکی پانچ بچیاں تھیں۔ سب سے بڑی بیٹی کی عمر بارہ اور سب سے چھوٹی کی ڈیڈھ سال ہے جو میری گود میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ والدین بچیوں کے ساتھ خوش تھے لیکن اس معاشرے کی کچھ روایات ہیں جن میں سے ایک بیٹے کی خوائش ہوتی ہے۔ الٹراساؤنڈ کے مطابق صائمہ کے پیٹ میں 8 ماہ کا بچہ تھا لیکن اس دنیا کی ہوا اس کے نصیب میں نہ تھی۔ صائمہ سترہ دسمبر کو انتہائی مختصر علالت کے بعد دنیا سے چل بسیں۔ اس صابر، شاکر، کم گو ، صلح پسند اور نیک سیرت خاتون کی اچانک موت نے ہر ایک کو دکھی کر دیا! صائمہ کی بطور معلمہ سروس سترہ سال ہو چکی تھی۔ زیور اور نت نئے لباس اکثر خواتین کا شوق ہوتا تھا مگر وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ غیر یب اور نادار بچوں کی کفالت پر صرف کر دیا کرتی تھیں۔ ان کے خاوند نے اپنی والدہ کی موت پر سیز فائر لائن کے نزدیک شائین ویلفئیر ہیلتھ سینٹر کا قیام عمل میں لایا تو بانی کے پاس ہسپتال کا تصور تو تھا مگر رقم نہیں تھی۔ صائمہ نے اپنی پوری ہونجی خاوند کے حوالے کر کے کہا اللہ کا نام لے کر بنیاد رکھیں اللہ مدد کرے گا اور پھر مدد آنا شروع ہو گئی۔ ہسپتال کا افتتاح تو ہو گیا مگر صائمہ اپنی ساس کی طرح دنیا کی زبان میں وقت سے پہلے چل بسی۔
دنیا کا اپنا دستور ہے۔ لوگ اپنے اپنے کام میں لگ جائیں گے لیکن باپ کا تو سخت امتحان شروع ہو گیا ہے۔ بیٹیوں کو اس عمر میں دادی ،نانی اور ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نانی دور اور علیل ہیں جبکہ ماں اور دادی قبر میں ہیں۔ ان حالات میں پانچ کم سن بچیوں کی پرورش ایک باپ کے لیے بہت بڑا امتحان ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں انکا بچپن بہت کھٹن رہا۔ صائمہ خود ایک سرکاری معلمہ تھیں جو اپنی بیٹیوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حافظہ اور عالمہ بنانا چاہتی تھیں جسکی ایک جھلک اس تحریر کے ساتھ شئیر کی جانے والی ویڈیو سے ملتی ہے۔ یہ انکی 12 سالہ بیٹی تحریم ہے جو ایک تقریری مقابلے میں حصہ لے رہی ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ ایک دن اپنی ماں کی خواہش کو ضرور پورا کرنے میں کامیاب ہو گی البتہ اس وقت ان معصوم بہنوں اور انکے والد کو ہم سب کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔