تحریر: قیوم راجہ
یہ تحریر میں ان طلباء و طالبات اور تحریکی مرد و خواتین کے لیے لکھ رہا ہوں جو اپنے معاشرے کے سیاسی ، اقتصادی اور تعلیمی نظام سے تنگ ہیں۔ وہ تحریک آزادی میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح بھی چاہتے ہیں لیکن وہ ڈرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انہیں سرکاری نوکری نہیں ملے گی اور انکی تعلیم ضائح ہو جائے گی اور پھر انکی کون مدد کرے گا ۔ سب سے پہلے وہ یہ زہہن میں رکھیں کہ روزی دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ دوسرا تعلیم کا اصل مقصد پیٹ بھرنا نہیں انسان بننا ہے۔ جب آپ کے اندر ایک بااصول اور غیرت مند انسان پیدا ہو گیا تو ایک دن آپکا سخت ترین مخالف بھی دوست بن جائے گا۔ اب میں آپ کے ساتھ ایک ذاتی تجربہ شئیر کرتا ہوں۔
22 فروری 1984 کو میں برطانیہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کے جھوٹے قتل کیس میں گرفتار ہوا۔ جھوٹا الزام اس لیے کہ میں مہاترے کو زندہ رکھ کر مقبول بٹ کو پھانسی سے بچانے کا حامی تھا مگر سازشی لوگوں نے اسے تین دن بعد قتل کروا دیا۔ قاتل فرار ہو گیا تھا۔ برطانیہ جیل میں قیدیوں کے حقوق پر ایک سرکاری کتابچہ جب میں نے دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ طلباء کو تعلیم جاری رکھنے بلکہ جو کبھی سکول نہیں گے انکو بھی خود کو ایجوکیٹ کرنے کا حق ہے۔ میں نے جیل کے ایجوکیشن افسر سے ملاقات کی درخواست کی تو دو سیکورٹی والے آئے اور مجھے ایجوکیشن بلاک میں لے گے۔ وہاں مجھے ایک خاتون ڈپٹی ایجوکیشن افسر ملی جس نے اپنا نام این موریل بتایا۔ چالیس سال کی لگتی تھی ۔ میں نے اسے قانون، صحافت اور نفسیات کے ڈگری کورسز بارے معلومات دریافت کی۔ اس نے ترش لہجے میں کہا کہ "Don’t try to run before you can walk. ” یعنی چلنے سے پہلے دوڑنے کی کوشش نہ کرو۔ پہلے مرحلے میں ہی ہمارا ٹکراؤ ہو گیا۔
مجھے معلوم تھا میں جیل میں ہوں مگر میری ڈپلومیسی اور لچک ناکام ہو چکی تھی۔ اس خاتون نے مجھے سبق سکھانے کی ٹھان لی ۔ گورنر کو کوئی ایسی رہورٹ لکھ بھیجی کہ اس نے پانچ سال تک لائبریری میں میرا داخلہ بند کر دیا۔ وجہ پوچھی تو گورنر نے کہا قیدی کا کام سوالات کرنا نہیں حکم پر عمل کرنا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا پتر آج جو قیدی تمہیں ملا ہے اسے تمہیں بہت سارے سوالوں کے جواب دینے پڑا کریں گے۔ ایجوکیشن افسر کو میرے ساتھ اتنی دشمنی ہو گئی کہ وہ مجھے ایک پنسل تک دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ مختصر کہانی یہ ہے کہ میں نے تنگ ا کر ہائی کورٹ میں رٹ کر دی کہ وزارت داخلہ جیل کے بنائے گے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے میری مرضی کی کتابوں کا مطالعہ اور تعلیم جاری نہیں رکھنے دیتی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چونکہ یمارا کیس ابھی نامکمل تھا جسکی وجہ سے پولیس نہیں چاہتی تھی کہ میں قانون پڑھوں جبکہ صحافت اور نفسیات کو جیل خانہ جات اپنے لیے خطرہ تصور کرتے تھے لیکن میں نے بھی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ انہی تینوں فیکلٹی میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں گا۔ ہائی کورٹ میرے حق میں فیصلہ کرنے والی تھی کہ پبلسٹی سے بچنے کے لیے این موریل نے اپنا سنئیر مسٹر قیس میرے پاس بھیجا۔ موریل اپنی شکست پر شرمندہ تھی اس لیے اس نے میرا سامنا کرنے کے بجائے مسٹر قیس کو بھیجا۔ قیس کو دوران گفتگو کان میں انگلی دینے کی عادت تھی جسے دیکھ کر میں مسکرا دیا۔ قیس نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے یہ میری بری عادت ہے لیکن میرے پاس آپ کے لیے ایک پیش کش ہے۔ اس نے کہا اس دفعہ تعلیمی داخلوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اگلے سال آپ ہمارے فیورٹ امیدوار ہوں گے۔ آپ ہائی کورٹ سے کیس واپس لے لیں۔ میں نے کہا آپ لکھ کر دیں اور یہ بھی لکھیں کہ میں اپنی مرضی کا کورس کر سکوں گا۔ ہمارامعائدہ ہو گیا۔ میں نے آنے والے سال کے لیے نفسیات میں ڈگری کا فارم پر کیا اور وہ بھی حکومت کے اخراجات پر۔ میں نے گوونر سے یہ بھی کہا کہ حکومت نے مجھ سےخیراتی وکلاء کی سہولت واپس لے لی ہے۔ مجھے وکیل دیا جائے یا ٹائپ رائٹر۔ اس نے ٹائپ رائٹر کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا مجھے خود اپنا دفاع تیار کرنا ہے۔
گورنر کو خطرہ تھا کہ شاید میں ٹائپ رائٹر اخباری مضامین کے لیے بھی استعمال کروں تو اس نے کہا ایجوکیشن میں قیدی کمپیوٹر کی کلاسیں لیتے ہیں آپ ایک گھنٹہ کمپیوٹر استعمال کر لیا کریں۔ ساتھ ہی انسٹرکٹر کو کہا کہ وہ مجھ پر نظر رکھے کہ میں کمپیوٹر کا غلط استعمال نہ کروں۔ کمپیوٹر انسٹرکٹر ڈرھم کے کسی دیہات کی تھی۔ اس نے پوچھا میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے کہا کشمیر سے ۔ تو اس نے کہا کشمیر کے پہاڑوں میں کہاں کمپیوٹر ہوتے ییں؟ یہ ایک اور دکھی سوال تھا جسے میں نگل گیا۔ غلطی اس کی بھی نہیں تھی۔ وہ تو ایک ترقی یافتہ ملک کی شہری تھی جبکہ آج بھی پنجابی میرپوری کو اور میری پوری ہم کو گنوار پہاڑیاں سمجھتے ہیں اور ہمارے لوگ اس سے آگے کے علاقے والوں کو پہاڑیے سمجھتے ہیں۔ انسٹرکٹر نے پوچھا کیا کبھی کمپیوٹر لوڈ کیا ہے۔ میں نے ہالینڈ میں باقاعدہ آئی ٹی کا کورس کیا ہوا تھا اور اپنی دس انگلیاں کی بورڈ دیکھے بغیر استعمال کر سکتا تھا۔ میں نے کہا میڈم میرے پاس تشریف رکھیں۔ سامنے والی کتاب اٹھا کر پڑھتی جائیں اور دیکھتی جائیں۔ وہ پڑھتی گئی اور میں ٹائپ کرتا گیا۔ وہ حیران ہوئی کہ یہ پہاڑیا یہ کام بھی کر سکتا ہے۔ اس نے مجھے آزمانے کے لیے ایک پیرا انسرٹ اور ایک ایڈ کرنے کے لیے کہا۔ پھر مختلف پیراگراف کو ایک دوسرے کی جگہ لے جانے کے لیے کہا۔ جب میں نے کر دکھایا تو اس نے کہا آپ میرے اسسٹنٹ کے طور ہر دوسرے قیدیوں کو کمپیوٹر سکھائیں۔ انگریز بڑے ہوشیار ہیں۔ انہیں بائر سے تنخواہ پر ملازم لانے کے بجائے مفت مل گیا تھا۔ انگریزوں کی کامیابی کاایک راز یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا تارہ بن گیا لیکن این موریل کے ساتھ میں اب بھی بات نہیں کرتا تھا۔ سٹاف نے اسے طنز کرنا شروع کر دیا کہ اس کے غلط رویے کی وجہ سے میں نے اس سے بائکاٹ کیا ہوا ہے۔ آخر وہ دل برداشتہ ہو کر ایک دن مجھے اپنے دفتر میں لے گئی اور کہا ائو ماضی کو دفن کر کے نئے رشتے قائم کریں۔ میں ایک خاتون کی زبان سے نئے رشتوں کی تجویز سن کر چونک گیا۔ یااللہ یہ اب کس گیم پر ہے؟ برحال ہمارے درمیان مصالحت ہو گئی۔ ایک دن لندن یونیورسٹی سے ایک پروفیسر مجھے ملنے آئے جو میرے نفسیات کی ڈگری کے ٹیوٹر تھے۔ حاسدین نے عین ملاقات والے دن میرے سیل میں چرس رکھ کر سیکورٹی کو بتا بھی دیا۔ مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ سماعت جیل کے اندر ہوئی ۔ این موریل میرے کیریکٹر وٹنس کے طور پر پیش ہوئی۔ گورنر نے بھی کہا کہ اگر مسٹر راجہ کے خلاف کوئی سیاسی الزام ہو تو شاید میں یقین کر لوں لیکن "یہ تو سگرٹ تک نہیں پیتا۔ میں نہیں مانتا کہ یہ ڈرگز پشر یا سیلر ہے.” میں اس الزام سے با عزت بری ہو گیا۔پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ جس جیل خانہ جات نے مجھ پر لائبریری وزٹ پر پابندی عائد کی تھی اس کے گورنر نے مجھے قیدیوں کی کونسلنگ کے لیے کونسلر مقرر کیا ۔ (جاری)