اپنی تاریخ مسخ کرنا قومی جرم ہے! قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

کئی سالوں سے ہم چند دوستوں نے قومی تاریخ کو درست کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہم نے آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ قائم کروایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت میں آنے والی کسی پاٹی میں اتنا ظرف نہیں کہ وہ ہمارے کام کا کہیں زکر کرے۔ وہ اسے اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے۔ برطانیہ میں اسی طرح کے کام کرنے والوں کو سر اور لارڈ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ حکومت تو دور کی بات ہے جس دن آزاد کشمیر اسمبلی میں سردار عتیق خان نے اسکا اعلان کیا تھا اس دن شہید چوک کوٹلی میں کسی مسلہ پر احتجاج ہو رہا تھا تو میرے سامنے ایک ایسے آدمی نے بھی اسے اپنی تنظیم کا کارنامہ قرار دے دیا جس نے ہائی کورٹ میں دائر ہماری رٹ کی حمایت سے بھی انکار کر دیا تھا۔ آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ نے جب اپنا کام شروع کیا تو مطالعہ جموں کشمیر کے لیے وعدہ کے مطابق ایک تحقیقی کمیٹی قائم کرنے کے بجائے نظریہ الحاق پاکستان کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی زمہ داری لگائی گئی جس کے خلاف اپنی تاریخ و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں کو آواز بلند کرنی چاہئے ۔

اپنی تاریخ مسخ کرنا قومی جرم ہے!

ابائو اجداد کی تاریخ کو صحیح مقام دلانا تو دور کی بات ہے، ہماری اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ غلط بیان کیا جا رہا ہے۔ دوسروں کی کیا بات کریں، ہماری اپنی جماعت لبریشن فرنٹ کی تاریخ سے بھی کارکنان کو کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ لبریشن فرنٹ کے قیام کے وقت مقبول بٹ شہید جیل میں تھے مگر انکو بھی بانیوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اس وقت مقبول بٹ کی قربانیوں سے بھرپور شخصیت لبریشن فرنٹ کی ضرورت تھی۔ لبریشن فرنٹ کے اندر کچھ اداروں نے اختلافات پیدا کرنے کے لیے اس منفی بحث کا آغاز کرانے کی کوشش کی کہ آیا امان اللہ خان نمبر ایک ہیں یا مقبول بٹ۔ مخلص مگر ہمارے کچے زھہن کے مالک نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ "امان اللہ خان نے ہی مقبول بٹ کو لیڈر بنایا ہے.” میں نے نوجوانوں کو بتایا کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مقبول بٹ لبریشن فرنٹ سمیت ہر آزادی پسند گروپ کی ضرورت تھے مگر بد قسمتی سے مقبول بٹ کے نام پر متحد ہونے کے بجائے نوجوان نسل کو تقسیم در تقسیم کے تکلیف دہ عمل کا شکار کیا جا رہا ہے۔

میری تحریکی زندگی کا آغاز جرمنی کے شہر سٹٹگارٹ میں مقبول بٹ کی رہائی کے لیے ایک سیاسی مہم سے شروع ہوا۔ امان اللہ خان کو جب خبر ہوئی تو انہوں نے مجھے برطانیہ سے خط لکھا کہ وہ بھی مقبول بٹ کے دیرینہ نظریاتی ساتھی ہیں۔ انہوں نے برلن میں مقیم ہجیرہ سے تعلق رکھنے والے سردار محمد مشتاق خان کی قیادت میں لبریشن فرنٹ کی برلن شاخ کا زکر کیا۔ برلن سے سردار حلیم خان حال امریکہ اور میرپور کے خواجہ پرویز پر مشتمل دو رکنی وفد ہمارے پاس سٹٹگارٹ روانہ کیا۔ یہ دونوں تعلیم یافتہ نوجوان پرانے کارکن تھے جن کی آمد سے ہمیں کئی اور حقائق کے علاؤہ محاز رائے شماری اور لبریشن فرنٹ کے درمیان تنائو کا اندازہ ہوا۔ حلیم خان اور خواجہ پرویز کا چند دن میرے گھر قیام رہا ۔ اس دوران ہم نے صوبہ بادن ورتمبرگ کے دیگر چند شہروں کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ کس طرح کچھ پاکستانیوں نے وقتی مفادات کے اسیر کشمیریوں کو استعمال کر کے ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ہم سرخرو ہوئے۔

چند ماہ بعد امان اللہ خان برطانیہ سے دو ساتھیوں کے ہمراہ براستہ برلن ہمیں سٹٹگارٹ ملنے آئے جہاں پہلی بار ایک مقامی ہوٹل میں ہم کشمیریوں نے ایک تقریب منعقد کی۔ لبریشن فرنٹ کی سٹٹ گارٹ میں باقاعدہ شاخ قائم ہوئی جسکا راقم پہلا صدر، پنجاب یونیورسٹی میں طلباء یونین کے سیکرٹری جنرل رہنے والے کشمیری آفسیر احمد شاہین نائب صدر، سہنسہ سے تعلق رکھنے والے سابق بنک آفیسر یونس کیانی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ہم میں سب سے سنئیر کوٹلی شہر کے عبدالکریم بٹ تھے جنہوں نے مقبول بٹ شہید کے ساتھ کچھ وقت گزارہ تھا۔ اس لیے ہم سب انکی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ کریم بٹ میری اسیری کے دوران فوت ہو گے تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ ہم سب ساتھیوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب حلف برداری کی تقریب میں نو منتخب باڈی سے مشورہ کیے بغیر امان اللہ خان نے کچھ ایسے نوجوانوں کو بھی ورکنگ کمیٹی میں شامل کر لیا جو ابھی تک ہماری تنظیم کے رکن بنے تھے نہ وہ نظریہ خود مختار کی الف/ب سے واقف تھے۔ کوٹلی سے تعلق رکھنے والے لبریشن لیگ کے ایک سابق بنک افسر ملک لطیف صاحب مجھ سے ناراض ہونے لگے اور کہا کہ حلف میں شامل کچھ لوگ انتہائی غیر معیاری ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ میرا نہیں امان اللہ صاحب کا فیصلہ تھا۔ تب سے کچھ ساتھیوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ امان اللہ خان کے ساتھ مرکز میں کس معیار کے لوگ ہوں گے؟ سٹٹگارٹ کے بعد میں فرانس گیا جہاں لبریشن فرنٹ کی پہلی شاخ قائم کی گئی۔

اب سوال ہے کہ میں ماضی کا یہ تجربہ کیوں شئیر کر رہا ہوں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ آج تک لبریشن فرنٹ کی دھڑہ بندیوں کی جو وجوہات ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کو تربیت دینے اور آزمانے کے بغیر ہی عہدے دے دیے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے عہدے بانٹنے سے تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے عہدوں پر فائز عہدیدار بھی بڑے مخلص اور باصلاحیت لوگ ہیں۔ لبریشن فرنٹ کا نظریہ جتنا بڑا ہے اس کے دشمن بھی اتنے ہی بڑے ہیں۔ ان دشمنوں کا کام اسوقت اور آسان ہو جاتا ہے جب آزمودہ کار کارکنوں کو پس منظر میں دھکیل کر نت نئے چہرے یا نا اہل افراد تنظیم پر مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ اس عمل کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

برحال تنظیمی، تحریکی اور قومی تاریخ کو چھپانا اور مسخ نہیں بلکہ اجاگر کرنا ہو گا تاکہ ہم نوجوان نسل اس سے سبق سیکھ کر آئندہ بہتر فیصلے کرے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*