سی ای ڈی نےانتخابی عمل کو مزید جامع اور نمائندگی سے بھرپور بنانے کا مطالبہ کردیا

سی ای ڈی نےانتخابی عمل کو مزید جامع اور نمائندگی سے بھرپور بنانے کا مطالبہ کردیا

لاہور: کولیشن فار الیکشن اینڈ ڈیموکریسی (سی ای ڈی) نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابی عمل کو مزید جامع اور نمائندگی سے بھرپوربنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ مطالبہ سی ای ڈی کے زیر اہتمام انتخابی نظام کی جامعیت پر ایک مذاکرے میں کیا گیا جس کا مقصد خواتین،معذور افراد، خواجہ سراؤں اور مذہبی اقلیتوں سمیت معاشرے کے دیگر پسماندہ گروہوں کی انتخابی عمل میں موثر او ربامعنی شمولیت میں درپیش مختلف چیلنجز اور رکاوٹوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

اس موقع پرسی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرمختار احمد علی نے ثقافتی، قانونی اور ادارہ جاتی رکاوٹوں پر روشنی ڈالی، جو معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے افراد کی بطور ووٹر اور امیدوار انتخابی عمل میں شرکت کو محدود کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بعض منفی ثقافتی رویے خواتین اور خواجہ سراؤں کی شناختی کارڈز کے حصول اور پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جبکہ بزرگ اور معذور افراد کو بھی جسمانی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا جیسا کہ الیکشن کمیشن کے دفاتر اور پولنگ سٹیشنوں میں مناسب ٹرانسپورٹ یا ریمپ کی کمی۔ انہوں نے الیکشنز ایکٹ 2017 میں شامل ان دفعات بارے بتایا جوالیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں میں صنفی فرق کو ختم کرنے کے لیے فعال اقدامات کرنے کا حکم دیتی ہیں جیسا کہ ایسے حلقہ کے نتائج کالعدم قرار دیں جہاں 10 فیصد سے کم خواتین نے ووٹ ڈالےہوں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کو شناختی کارڈ کےاجراء میں سہولت فراہم کرنے، ووٹر لسٹوں میں صنفی فرق کو ختم کرنے، متوقع پولنگ سٹیشنوں میں ریمپ بنانے، سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 9 کو مضبوط کرنے کے لیے مزید فعال اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن اس حلقہ کے نتائج کالعدم قرار دے گا جہاں20 فیصد سے کم خواتین ووٹ کاسٹ کریں گی۔

انسانی حقوق کی کارکن عافیہ سلام نے خصوصاً معذور افراد اور خواجہ سراؤں کی انتخابی عمل میں شمولیت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نےپولنگ سٹیشنوں کو قابل رسائی بنانے اورمعاشرے کے پسماندہ طبقات کے ارکان کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی ضرورت پر مزید زور دیا۔

سابق وزیر اور ایم کیو ایم کےرہنما رضا ہارون نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی جماعتیں خواتین، اقلیتوں،معذور افراداور خواجہ سراؤں کے لیے موثر پارٹی ونگز قائم کرکے ایسے کمزور گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے عام شہریوں کے ذریعے پارٹی فنڈز اکٹھے کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی جس سے سیاسی جماعتوں کا ووٹرز کے ساتھ تعلق مضبوط ہوگا اور سیاسی جماعتوں کا امیر افراد پر انحصار کم ہوگا۔

IRADA کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفتاب عالم نے مذہبی اقلیتوں کے انتخابی حقوق کے بارے میں بات کی، جو سماجی طور پر پسماندہ ہیں اور انہیں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ، کچھ بڑے مذہبی گروہوں کے علاوہ، دیگر چھوٹی برادریوں کو ‘شیڈول کاسٹ’ یا ‘دیگر’ زمروں کے تحت اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے انتخابی عمل میں زیادہ پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پارلیمانی کمیشن برائے انسانی حقوق (PCHR) سے چوہدری شفیق نے مزید جامع انتخابی عمل کے لیے قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے مناسب پارلیمانی اقدامات کی ضرورت پر بات کی۔

سید رضا علی، سی ای او پیس اینڈ جسٹس نیٹ ورک نے ان ثقافتی رکاوٹوں کے بارے میں بات کی جو سیاسی عمل سے باہر پسماندہ گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں رکاوٹ ہیں اور انکی سماجی شمولیت کے فروغ کیلئے ایک موثر میڈیا مہم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔انہوں نے پولنگ عملے اور سیکورٹی اہلکاروں کو معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے بارے میں حساس بنانے کی ضرورت اور ان اقدامات کے بارے میں بھی بات کی جو انہیں انتخابی عمل میں ان کی شرکت کو آسان بنانے کے لیے اٹھانے چاہئیں۔

سی ای ڈی ووٹر کی تعلیم، انتخابی مشاہدے اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے سول سوسائٹی کا اتحاد ہے۔ اس کا سیکرٹریٹ CPDI میں قائم ہے

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*