میٹھے رشتے اور تلخ یادیں : قیوم راجہ

میٹھے رشتے اور تلخ یادیں : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

سن 1984 کے وسط کی بات ہے۔ مجھے اور میرے ساتھیوں ریاض اور صدیق کو بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں برطانیہ کے ہائی رسک ریمانڈ سینٹر ونسن گرین میں چھ ماہ ہو گے تھے۔ میرے بڑے بھائی نزیر راجہ اور بھابی ہالینڈ سے مجھے ملنے ائے۔ ملاقات کا وقت صرف دس منٹ ہوا کرتا تھا۔ میں نے گورنر سے درخواست کی کہ میرے ملاقاتی ایک دوسرے ملک سے آئے ہیں۔ انہوں نے واپس چلے جانا ہے۔ وہ بار بار دوسرے ملک سے نہیں آ سکتے اس لیے ملاقات کا وقت بڑھا دیا جائے مگر گورنر نے کہا وزیر داخلہ اس کی اجازت نہیں دیتا حالانکہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر سکتا تھا۔

ملاقات بند کمرے میں ہوا کرتی تھی۔ جب میں ملاقاتی روم میں داخل ہوا تو بھائی اور بھابی کھڑے ہو گے۔ سیکورٹی افسران نے چلاتے ہوئے انہیں بیٹھے رہنے کا حکم دیا جسکی وجہ سے ہم بھائی گلے نہ مل سکے۔ بھابی کی گود میں چھ ماہ کی ایک بچی تھی۔ ابھی مجھے اس بچی کا نام معلوم نہیں تھا۔ میں نے بچی کو بھابی سے لے کر اپنی گود میں رکھنے کی کوشش کی کہ داروغے پھر چلائے کہ صرف بات کرو ہاتھ نہیں لگانا۔ میں نے کہا یہ بچی تو ابھی بات کر ہی نہیں سکتی۔ یہ میری بتیجھی ہے۔ میں اسے پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اسے پپی دینے دیں مگر داروغوں نے کہا یہ سیکورٹی رسک ہے۔ میں نے کہا یہ کیسا سیکورٹی رسک ہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور بچی مجھ سے چھین لی ۔ ملاقات کے دس منٹ اسی بحث میں گزر گے۔ بھائی اور بھابی کوئی خاص بات کیے بغیر افسردہ حالت میں واپس چلے گے۔ میں نے انہیں کہا کہ پریشان نہ ہوں یہ سب کچھ قربانی کا حصہ ہے۔

جیل کی ہر سختی اور زیادتی کا ہم نے مقابلہ کیا۔ کشمیری کمیونٹی اور ایشین اور برٹش میڈیا کا اللہ بھلا کرے جنہوں نے ہر وقت ہماری ہر شکایت پر ہمارے حق میں آواز بلند کی۔ اس وجہ سے اب جب میری ملاقاتیں آتیں تو جیل گورنر کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے میرے ملاقاتی میز کی طرف آتا اور مجھے اور میرے ملاقاتیوں کو انگریزی مسکراہٹ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا کہ میرے ساتھ انتظامیہ کا رویہ دوستانہ ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ملاقاتی اچھا تاثر لے کر جائیں تاکہ وہ بائر جا کر شور شرابہ نہ کریں۔ کبھی کبھار گورنر ملاقاتیوں کو یہ ریمارکس بھی دیتا کہ مسٹر راجہ ایک ماڈل قیدی ہیں لیکن انکے معاملات ہمارے اختیار میں نہیں۔ ایک دفعہ ایک ملاقات میں میری وہی بھتیجی جسے سیکورٹی افسران نے دوران ملاقات مجھ سے چھین لیا تھا وہ بھی ملاقاتیوں میں شامل تھی۔ اب اس کی عمر 18 سال ہو گئی تھی۔ دوران ملاقات جب گورنر ایک دو مرتبہ ہمارے قریب سے گزرا تو میں نے ملاقاتیوں کو کہا یہ چاہتا ہے کہ ہم اسے بلائیں۔ ملاقاتیوں نے کہا تو ٹھیک ہے بات کر لیتے ہیں۔ جب گورنر دوبارہ ہمارے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اس کی طرف ابھی دیکھا ہی تھا کہ وہ ہمارے پاس ا گیا اور ملاقاتیوں کو سلام کیا۔ میں نے گورنر کو اپنی بھتیجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ وہ لیڈی ہے جو جب پہلی بار اپنے والدین کے ساتھ آئی تھی تو چھ ماہ کی تھی ۔ اسے ایک دوسری جیل میں سیکیورٹی افسران نے مجھ سے چھین لیا تھا۔ اب یہ بچی نہیں لیڈی ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جیل میری جوانی کے کتنے سال کھا گئی۔ گورنر نے بظاہر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپکو اب رہائی مل جانی چاہیے لیکن یہ ہمارے اختیار میں نہیں۔

ماہ وسال گزرتے گے۔ میری اس بھتیجی کی شادی ہو گئی۔ یورپی انسانی حقوق کی عدالت میری رہائی کا فیصلہ دے چکی تھی مگر میری وطن واپسی کے انتظامات میں پاکستان نے چھ ماہ لگا دیے۔ میں 2005 میں بری ہو کر جیل سے سیدھا وطن واپس ا گیا اور میری بھتیجی برطانیہ میں رہ گئی۔ وہ جب ماں بنی تو اس کی صحت خراب ہو گئی جسکی وجہ سے وہ 18 سال تک وطن واپس نہ آسکی۔ اب جب 18 سال بعد جون 2022 میں وہ اپنے خاوند ماجد خان اور بچوں کے ہمراہ وطن واپس آئی تو میں بیمار تھا جسکی وجہ سے میں اسے ملنے نہ گیا بلکہ وہ ائی۔ میں نے سرینگر کلینک میرپور سے ڈاکٹر امجد انصاری صاحب سے پائوں اور ٹانگوں کی فزیو تھراپی کروانی ۔ چلنے کے قابل ہوا تو اپنی بھتیجی کے گھر گیا۔ ملاقات کے بعد صوفے پر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میری بھتیجی کے گھر کام کرنے والی ایک خاتون میرے لیے پانی لائی۔ میری بھتیجی ثمینہ نے لپک کر اس خاتون سے گلاس لیتے ہوئے کہا: "چچا جی کو پانی میں خود پلائوں گی۔” یہ جملہ سن کر جیل کے میرے سارے دکھ و درد ہوا میں تحلیل ہو گے۔ ثمینہ کے ہشاش بشاش چہرے سے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی ساری بیماریاں غالب اور دنیا جہاں کی خوشیاں اس کی گود میں گر گئیں ہیں۔ اس نے کھانا بھی مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔ پھر بچوں کو میری زندگی کی تفصیلات بتائیں تو اس کے بڑے بیٹے 16 سالہ سبحان نے کہا اچھا یہ وہی نانا ابو ہیں جنکی جیل سے لکھی گئی ایک نظم ہمارے گھر میں دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے؟۔ ثمینہ نے کہا ہاں ہاں بالکل وہی۔ سبحان چند منٹ کے لیے غائب ہو گیا۔ واپس آیا تو اس نے اپنے فون کی گیلری میں مجھے میری وہ نظم دکھائی جو ایک خوبصورت فریم میں سجائی گئی تھی۔ سبحان کو ثمینہ نے پوچھا یہ تم نے کہاں سے لائی تو اس نے کہا اس نے خالہ ظاہرہ کو انگلینڈ فون کیا کہ وہ نظم اسے وٹس اپ کرے تاکہ وہ مجھے دکھا سکے کہ کس خوبصورتی سے میری نظم کو انہوں نے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اپنی بھتیجی کے بچوں کو آج میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میری گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی میری بھتیجی اب 16 سالہ بچے کی ماں تھی جو زندگی میں پہلی بار مجھے دیکھ رہا تھا مگر وارفتگی ناقابل بیان تھی۔ یہ ہیں وہ عظیم میٹھے رشتے جنکا کوئی نعم البدل نہیں۔ ہماری بد نصیب ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی قربانیوں کی لاکھوں ایسی مثالیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہموطنوں کی قربانیاں قبول فرماتے ہوئے انہیں آزادی کی منزل عطا فرمائے ۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*