راہ ادب : "وے میریا ڈھول سپاہیا" : ڈاکٹر جاذبہ عباسی

راہ ادب : "وے میریا ڈھول سپاہیا” : ڈاکٹر جاذبہ عباسی

مقابلہ خطوط نویسی راہ ادب
از قلم: ڈاکٹر جاذبہ عباسی
بعنوان… وے میریا ڈھول سپاہیا

٦ستمبر ٢٠٢١
مری "پاکستان”

میرے احمد

السلام علیکم!
شام ہونے کو ہے! صبح تمھیں رخصت کرنے کے بعد سے اب تک یہ آنکھیں اس راہ میں بچھی ہیں جہاں تم تو نہیں ہاں تمھارے قدموں سے لپٹی گرتی پڑتی نوحہ کرتی وہ خاک موجود ہے جو تم روندتے ہوۓ چلتے گئے۔
جانتے ہو کیا ان پہاڑوں کی ہیبت ، اس گاؤں کی ویرانی اور پرندوں کی پراسرار خاموشی احمد فضا پرسوز ہے!
میرے وجود پر چھائی یہ اداسیاں اس من مندر کے مکیں اطمنان نامی دیوتا کو وسوسوں بھرے جنتر منتر سنا کر گہری نیند سلا چکی ہیں۔ ان بپھری ہواؤں کی تندی اور تیزی سے برپا یہ وحشت زدہ شور مضبوط اور قدآور پیڑ بھی مانو خوف سے لرز رہے ہیں فلک پر پوری آب وتاب سے جگمگاتا آفتاب گہرے سیاہ بادلوں کی گرفت میں آ کر محض تابانی ہی کیا جیسے اپنا وجود تک کھو چکا ہے۔ دور نظر آنے والی وہ وادیاں اور پربتوں کی تمام شادابیاں سر تا پیر دھند کی سرمئی شال اوڑھے سمٹ کر گویا ناراض بیٹھی ہیں۔ چلچلاتی دھوپ حبس زدہ جان لیوا ان گرمی کے ستم ڈھانے والے دنوں میں ہمارے شہر کا یہ سہانا موسم ، اس کی دلنشینی کے چرچے سارے جہاں میں ہیں لیکن احمد!
کوئی مجھ سے تو پوچھے اور میں سمجھاؤں کہ
گلاب رتوں کے اداس موسم
حالتِ دل کے ترجماں ہیں
وے میریا ڈھول سپاہیا! تمھاری رانی کمزور نہیں رانی تو پہاڑوں کی مکیں چٹانوں سا حوصلہ مجاہدوں والا جگر رکھتی ہے اس کی رگوں میں ایک بہادر شہید فوجی کا خون دوڑ رہا ہے اونچے پربت دشوار راستے اور بدلتی رتوں کی سختیاں رانی نے ہر ایک مشکل کی آنکھوں میں اپنی غزال آنکھیں ڈال کر مشکل کو ہمیشہ مشکل میں ڈالا ہے لیکن
میرے احمد!اس پاک وردی میں تمھاری وجاہت تمھاری شخصیت تمھارا وجود۔۔۔تمھارے معاملے ہی کچھ اور ہیں مانا کہ تمھاری محبت میری طاقت ہے لیکن تمھاری جدائی کا تصور بھی مار ہی تو ڈالتا ہے۔
میں شہید کی بیٹی ہوں سبز حلالی پرچم میں لپٹی خون آلود وردی میں چُھپا میرے بابا کا وہ چھلنی جسد خاکی میں خود ان آنکھوں سے دیکھ کر بھی دیکھو تو زندہ ہوں جان جسم سے جدا کیسے ہوتی ہے کوئی مجھ سے پوچھے ٹوٹے وجود کی کرچیاں سمیٹنے کا فن میں خود میں سنبھالے ہوۓ ہوں۔۔۔۔میرے احمد تمھاری چاہت کی چاشنی نے میرے وجود کو جکڑ رکھا ہے لوگ محبت پا کر جی اٹھتے ہیں اور مجھے لگتا ہے میں تمھیں پا لینے کے بعد اب عشق کی شدت سے ماری جاؤں گی۔
نجانے کیسے جان جاتے ہو تم کہ تمھاری مختصر ملاقات اور پھر لوٹ جانے کے بعد میں تمھارے اس پیرہن کو سینے سے لگا کر گھنٹوں دل کا حال سناتی ہوں جو مجھ سے لپٹا خاموش میرا دکھڑا سنتا میرے آنسو خود میں سمو لیتا ہے لیکن آج۔۔۔آج انتہا ہوئی دیکھو تو یہ بول پڑا اس نے وہ چٹھی تھما دی مجھے جو تم نے جانے سے پہلے اس کے سپرد کی تھی۔
نجانے کیا کچھ لکھا تم نے میری نگاہوں کا محور تو بس ” سیاچن جانا ہے” یہی الفاظ ہیں میری نظریں بس انہی لفظوں کا احاطہ کیے ہوۓ ہیں کہ دشمن جاں مدتوں بعد بھی گھر کو لوٹے تو صرف دو دن کے لیے اور پھر جاتے ہوۓ ماتھے پر بوسہ دے کر ہمیشہ کی طرح جلد لوٹ آنے کا جھوٹا دلاسہ دے گئے۔ ستم گر! لکھتے ہو کہ کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا اور ساتھ ہی جتا رہے ہو کہ شاید پہاڑوں میں دفن ہوں گے برف ہو گی کفن اپنا !
او بے وفا! یہ خاکی وردی زیب تن کرنے سے پہلے تک تو تم میرے لیے جیتے تھے اب لکھ رہے ہو "میری ماں نے کہا تھا مجھے چوم کر راہ حق ہے میرے لال چل جھوم کر دل و جاں سے جلا کر وفا کے دیے اس نے جنما ہے مجھ کو وطن کے لیے”
اور میں ، میں جو تمھاری روح کو تمھارے جسم سے بانٹنے کے سوا کسی اور کے ساتھ اس سودے کا اگر سوچوں بھی تو جان دے دوں مادر وطن کے لیے تمھاری دیوانگی پر مسکرا دیتی ہوں کیوں کہ میں جانتی ہوں اس دھرتی کی محبت تمھارے وجود میں گردش کرتے خون کے ہر قطرے میں جگہ بناۓ ہوۓ ہے وطن کی بقا کی خاطر تم جان دینے سے گریز نہیں کرو گے لیکن سنو! پھر بھی سلامت رہو اور لوٹ آؤ کہ منتظر ہے کوئی اس سے پہلے کہ زندگی کی شام ہو جاۓ!
تمھاری اپنی
رانی

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*