آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

 اس سے پہلے کہ کچھ نہ رہے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

پاکستانی غریب عوام جو قبل ازپاکستان بھی انہیں حالات میں تھی،سکھوں نے گھروں پر پہرے لگا رکھے تھے کہ مسلمان گندم نہ کھائیں،وہ رات کو گھروں میں گھس کر چکیوں کوچیک کرتے تھے اگر کسی کی چکی سے گندم برآمدہوجائے تو اسے سزادی جاتی تھی، انگریزوں نے سکھوں سے حکومت چھینی تو بھی عوام باج گزارہی رہی،انگریزوں نے ایسے ایسے کمینے  لوگوں کو جاگیریں اورکھڑپینچیاں دیں، جو مسلمانوں کوہر طرح کی سختیوں میں رکھنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے،چوکیدار، چوہدری، نمبردار، ذیلدار، جاگیرداراور اس طرح کے کئی منصب عوامی غلاموں کے آقاوں تک رسائی کے لیے بنائے گئے۔مسلمان فاسق وفاجر حکمرانوں کے  محلوں کے باہربھی  زنجیرِ عدل لٹکی ہوتی تھی کہ کوئی فریادی بھی کسی سفارش وتعلق کے بغیربادشاہ کے دربار تک پہنچ سکے، لیکن انگریزوں نے ہندوستانی عوام کے لیے آسانیا ں پیداکردیں کہ وہ اب اپنے علاقے کے  چوکیدار، چوہدری،نمبردار،پولیس میں،تھانیدار ہی کو اپنی بات بتا سکتے تھے اس سے آگے، اپنی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بڑے سے سفارش کراکر پہنچاجاتا تھا، پھرکرتے کرتے تھانہ کچہری کا کلچر اس قدر عام کیاگیا کہ اب عوام کاروبارِ زندگی کے بجائے تھانے کچہریوں ہی میں ہزندگی بتانے لگے،جج وکیل کے بغیر بات سننے کو تیار نہیں، تھانیدار کسی چوہدری کے بغیر بات سننے کو تیار نہیں،انگریزوں تک تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ قابض تھے اور اہلِ ہند ان کے غلام تھے اور پھر سات سمندر پار سے آئے ہوے غاصب توعوام اور خود میں کوئی فاصلہ رکھتے کہ کہیں کوئی ان کی جان کو خطرہ نہ ہو، لیکن پاکستان بننے کے بعد وہی کلچر کیوں رہا؟ تھانہ کچہری وہی کیوں رہے؟ عوام اوراس عوام کے ملازمین کے درمیان وہ رشتہ کیوں نہ بن سکا جو انگریزوں کے اپنے ملک وقوم میں ہے؟ انگریز کے بنائے وہ قوانین جو  غلاموں پرملازمین کے لیے تھے انہیں کیوں باقی رکھاگیا؟آج اس قوم وملک کے لوگ ہی اس قوم وملک کی ملازمت نہیں ان پرحکومت کررہے ہیں، آج بھی ان محکموں سے جو عوامی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں عوام کو وہی رویہ کیوں مل رہا ہے جو انگریزوں کے دورمیں عوام سے یہ محکمے برتتے تھے۔،پولیس جو پوری دنیا میں عوامی خدمت کے لیے بنائی جاتی ہے، اورساری دنیا کے پولیس کے لوگ اپنے لوگوں کی مدد اور حفاظت کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں پولیس وردی میں بندے کو دیکھ کر بندہ ایسے  ڈرتا ہے کہ جیسے اب وہ لٹنے والا ہے یا ذلیل ہونے والا ہے۔اسی طرح فوج جو ملک وقوم کی حفاظت کی ذمہ دار ہے،اور پوری دنیا میں بارڈر کی حفاظت میں ہماری فوج کا پہلا نمبر ہے، عوام فوج کی دل سے عزت کرتی ہے،لیکن جب سے حکومتوں نے فوج کو ملکی انتظام میں شامل کیا ہے، اور جہاں جہاں فوج عوامی معاملات میں داخل کی گئی وہاں وہاں عوام اور فوج میں دوریاں آگئیں،اسی طرح عدالتیں ہیں جس طرح عدالتوں کا کام عوام کو انصاف مہیا کرنا ہے،اس سے تو واقعی لوگ ججز کو دیوتا سمجھتے، لیکن ہمارے ججز کی کارکردگی پر عوام نے تو انہیں دیوتا نہیں سمجھا، لیکن غیراسلامی قانون نے انہیں توہینِ عدالت سے دیوتا جتنے اختیار و حیثیت دے دی ہے۔ہے تو ہمارے سارے محکموں میں یہی بات کہ کسی افسر بلکہ پولیس کے سپاہی کی بھی اگرطبیعت کے حلاف بندہ کوئی عرض کردے یعنی یہ ہی کہہ دے کہ جناب میرے کاغذات تو مکمل ہیں اب مجھے کیوں کھڑاکیا ہوا ہے تو اس کا بھی چالان ہوجاتا ہے کہ اس کا رویہ درست نہیں تھا۔ہمارے علاقے میں ایک تھانیدار صاحب آئے،وہ جس گاڑی کے کاغذ چیک کرتے ساتھ ہی ڈرائیور کے بال بھی چیک کرتے،اگر تھانیدار صاحب کے بالوں سے اس کے بال بڑے ہوتے تو اسی وقت حجام کو بلاتے اور اس کی ٹنڈ کرادیتے،بھلاہواکہ وہ گنجے نہ تھے ورنہ کسی کے بال کبھی اگتے ہی نہ۔،اب بتائیں کہ دنیا کے کسی تھانیدار کو یہ اختیار حاصل ہے؟اسی طرح پاکستان کے اندر کوئی بھی محکمہ بتائیں جسے اپنے کام سے دلچسپی ہے،لیکن جو اس کاکام نہیں وہ اپنے لا محدود اختیار سے اس کام میں لگاہوا ہے،ابھی ماضی قریب کی بات ہے، ہمارے پاکستان کے ایک چیف جسٹس صاحب نے اپنی عدالت سے صرف دوفیصلے کیے ایک نوازشریف کو نااہل کرنے کا اور دوسرا آسیہ ملعونہ کو رہا کرنے کا،اس کے بعد وہ قبلہ پانی کی کمی کے شکار ملک میں ڈیم فنڈ اکٹھا کرنے پر لگے رہے،اور فنڈنگ کے لیے سرکاری اشتہارات دیتے رہے جو بقول بعض کے تیرہ ارب روپے کے تھے، اور فنڈ اکٹھاہوا نو ارب روپے کا،لیکن  یہ نوتیرہ کرتے کرتے نودوگیارہ ہوگئے،نہ فنڈ ڈیم کو ملا نہ کسی اور مد میں خزانے میں داخل ہوا،اختیار کی یہ بے مہار ناواس قوم کو گرداب میں نہ ڈبوئے گی تو کہاں لے کرجائے گی؟آئینی اعتبار سے جب کوئی بندہ وزیراعظم بن جاتا ہے تو اس پر کیس فریز ہوجاتے ہیں،تاوقتیکہ وہ اپنے عہدے سے ہٹ نہ جائے،اسی لیے کئی بار سابق وزیرِ اعظم عمران خان صاحب عدالت میں نہ پیش ہوے نہ ان کے وارنٹ جاری ہوسکے،۔لیکن ابھی بننے والے وزیرِ اعظم جن پر کرپشن،منی لانڈرنگ کے کیس پچھلے تین سالوں سے چل رہے ہیں،جن کے تحت انہیں جیل میں بھی رکھا گیا،لیکن ثابت کچھ نہ ہونے پر سال بعد ضمانت پررہا ہوے، اب ان کے خلاف ایف آئی اے نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے، کہ ابھی ان کی تفتیش باقی ہے،کیوں َ؟ صرف اس لیے کہ یہاں ہر ادارے کو اپنے اختیار کا پتہ ہے اسے کسی دوسرے کی حیثیت اور اختیار سے غرض نہیں، جج صاحب نے گو کہ اجازت نہیں دی، لیکن جج صاحب کو پہلے اس پراسیکیوٹراور ایف آئی اے کو گرفتار کرنے کا حکم دینا چاہیے تھا،جو تین سال تک اس کی تفتیش نہ کرسکے۔بلکہ حکومت کوچاہیے کہ وہ ایک قانون بنادے کہ کوئی بھی تفتیشی ادارہ کسی بھی ملزم کو اگر صرف مفروضے پر زیرِ تفتیش کرے گا، اسے سزااور جرمانہ کیا جائے گا،سابقہ چلتے کیسوں میں ایسے کئی کیس جن کی تفتیش ہونے کے بعد وہ بے گناہ نکلے، ان کے تمام تفتیشی اخراجات ان افسران پر ڈالے جائیں،اورسزائیں دی جائیں ۔اختیارات کا یہ کھیل اس ملک قوم اورعوام کے ساتھ اسی طرح کھیلا جارہا ہے جیسے یہ لوگ اس قوم پر انگریزوں کی طرف سے قابض ہیں،اوریہ ملک اورقوم ان کی غلام ہے،اس کی ترقی اور پامالی کا انہیں کوئی فائدہ نقصان نہیں۔لہذایہ حکومت جہاں عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے مشکل فیصلے کررہی ہے اسے ایک یہ مشکل فیصلہ بھی کردینا چاہیے کہ تمام محکموں کو عوام کے سامنے جوابدہ کردیں،ہر محکمے کے ملازمین چاہے وہ افسر ہوں یا ماتحت انہیں پابندکیا جائے کہ عوام کے ساتھ حاکمانہ نہیں ملازمانہ رویہ اپنائیں،اوریہ صرف زبانی نہیں،بلکہ ایک  خصوصی عدالت بنائیں،جس میں ججزکسی آزاد ملک سے ڈپوٹیشن پر لائے جائیں،جہاں عوام جس کے خلاف شکایت کریں اس کو حاصل آئینی اختیارات اور سہولیات کے تحت نہیں بلکہ عوامی بیان کردہ حقائق اوراسلامی حقوق وقانون کی روشنی میں اس پرتادیبی کاروائی کی جائے،اگر کوئی سزایافتہ ہوتا ہے اسے سزادی جائے، جرمانے کئیے جائیں نوکریوں سے فارغ کیا جائے، تب جاکے ملک میں امن اور یگانگت پیداہوگی،ورنہ یہ جو طریقے حکمرانوں کو بیوروکریٹس بتاتے ہیں اس سے کہیں ایسانہ ہوکہ یہ ملک خداداد نقشہ دنیا سے خدانہ کرے غائب ہی ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس ملک اورقوم کو اپنے حفظ وآمان میں رکھے آمین۔وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*