آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

منزل انہیں ملی جو شریکِ سفرنہ تھے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

پاکستان تقدیرِ مبرم کے تحت وجود میں آگیا،یا پھر بے گناہ مارے گئے مسلمانوں کی فریادی روحوں کی قبولیت کا وقت ہواچاہتا تھا،تو تھوڑی سی جدوجہد سے ایک علیحدہ مملکت وجود پذیر ہوگئی،لیکن وہ جن کی فریاد یا جن کی جدوجہد سے یہ معمہ سرہوا،وہ اوران  جیسے پھر اسی حالت میں رہے، واقعہ کربلا ہی کو دیکھ لیں،خاندانِ نبوت کے خون سے پیاسا کربلا سیراب ہوا، لیکن یزید کے بعد مختارثقفی آگیا،یہی بات پاکستانی قوم کے ساتھ ہوئی،گھروں سے بے گھر ہونے والوں، اپنی عزتوں جانوں اور مالوں کی قربانی  دینے والوں،مسلمان ہونے کے جرم میں ظلم سے مارے جانے والوں،اورکٹے پھٹے باقی بچ جانے والوں کی اولادیں آج بھی انگریز اور سکھ دور کے جبروقہر کے قوانین میں جینے پر مجبور ہیں ۔اسی دکھتی رگ کو سمجھنے والے مکار سیاست دان اورسرکاری ملازمان، جب کوئی اپنے اوپر زد پڑتی دیکھتے ہیں تو جھلی اور دکھی عوام کو ”آزادی مارچ“ کے نام پر باہر نکالتے ہیں، حالانکہ ایک بے وقوف بندہ بھی یہ جانتاہوتا ہے، کہ یہ غاصب اور کٹھ پتلی لیڈر ہمیں کیا آزادی دلائیں گے، لیکن وہ آزادی کے نام سے ایک بار مسحور ہوجاتے ہیں،مولینا فضل الرحمن صاحب نے بھی آزادی مارچ کیا،اوراب تحریک انصاف  نے بھی آزادی مارچ شروع کردیا بلکہ پہلے ایک پر کشش نعرہ لگایا کہ”ہم کوئی غلام ہیں“توغلامی میں نڈھال عوام نے پھر کمر باندھ لی،وہ جس نے امریکہ، اسرائیل اورقادیانیوں کی مکمل حمایت سے ایک کام کرتی حکومت جو اور کچھ نہیں تو ملک کے اندر بنیادی ترقی کے روٹ سڑکیں،بجلی کی پیداوار،بیرونی کاروباری تعلقات تو بہتر بنارہی تھی جس کے باقی دوسال اگر پورے ہوجاتے توشاید سی پیک چالو ہوجاتا، جو پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتا، لیکن عالمی استعمار امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی سے اس حکومت کے خلاف ایسی کاروایاں شروع کی گیں کہ جن کا حکومت کے موجودہ  دورسے کوئی تعلق نہ تھا، تیس سال پرانے مقدمات نکالے گئے اور عدالتوں نے ان کی تفتیش کے دوران ان لوگوں کو سسلین مافیااورپتا نہیں کیا کیاالقاب دئیے، حالانکہ انہیں تیس سالوں کے اندرسارے سرکاری ملازمین انہیں سے اپنے ملازمتی فوائد اٹھاتے رہے۔،اور خفیہ ادارے یا تفتیشی ادارے ان کی کرپشن سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے پردے میں رکھے رہے،کہ جب کہیں سے اشارہ ملے تو سالوں  بعد وہ یہ ثابت کریں کہ یہ لوگ ملک کو لوٹتے رہے،لیکن لوٹنے کے دوران خاموش رہے۔کیایہ سب بھی ان کے جرم میں شریک نہیں ہوے؟، اورکیا یہ ملک صرف بیرونی اشاروں کے لیے بنایا گیا تھا؟ہمارے بدنصیبی ہی یہی ہے کہ ہم لوگ انگریزوں اور ہندووں سے آزادی لے کر انگریزوں اور ہندووں کے ملازموں اور گماشتوں کی غلامی میں آگئے۔ہر جانور کو آزادی ہی کی تمنا ہوتی ہے، سوجب بھی کسی کو آزادی کی آواز آئے،تو وہ بے ساختہ اٹھ کر دوڑتاہے، لیکن وائے ناکامی کہ آزادی جس چیز میں ہے، اس سے دور رکھ کر ہمیں آزادی کے نعروں سے گمراہ کیا جارہا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ تیتروں کا شکار کرنے والے ایک سدھائے ہوے تیتر کو اپنے جال کے اندر رکھ کر بلاتے ہیں تو وہ پورے زور سے بولنے لگتا ہے، پھرارد گرد جھاڑیوں میں آزاد تیتر اس کی آواز پر دوڑے آتے ہیں، اور اس جال میں پھنس کر ساری عمر کے لیے اپنی آزادی کو روتے رہتے ہیں، اس شیطانی دنیا کے شکاریوں نے بھی پاکستان میں ایسے کئی تیتر سدھائے ہوے ہیں اوراس قوم کو آئی ایم ایف کے دانے ڈال کر اور سدھائے ہوے تیتروں کے ذریعے اپنے جال کی طرف بلا کر پھنسالیتے ہیں،اور پھر یہ ایک دوسرے سے تیتروں کی طرح لڑتے لڑتے ایک دوسرے سے آزادی کے نعرے لگاتے لگاتے عالمی استعمار کا تر نوالہ بن جاتے ہیں،اس سب کے لیے اس پاکستانی قوم کاتمام ملازم طبقہ جو بلا شرکت غیرے اس ملک کا مالک بنا ہوا ہے،یہ سب عالمی استعمار کاوہ جال ہے، جس  کے ذریعے قوم کو پھنسایا جاتاہے،اوریہی سدھائے ہوے عالمی تیتروں کے آزادی کے نعروں کے پشت پناہ ہوتے ہیں، پاکستان میں جتنے قوانین موجود ہیں وہ سارے کہ سارے ان ملازمان سرکار اور سدھائے ہوے تیتروں کے حقوق پر مشتمل ہیں، اس عوام کے لیے کوئی قانون نہیں جو اس عوام کو حق دے سکے، آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں، وہاں آپ کو ملازمین کے اختیار اور حقوق تو ملیں گے لیکن عوام کے حقوق نہیں صرف فرائض اور واجبات کی فہرست ملے گی،کسی بھی ملازم سے اگر قومی،ملکی یا عوامی مفاد کے خلاف کوئی کام ہو جائے جو اکثر اختیار کے نشے میں ہوجاتا ہے، تو اس کے لیے کئی طرح کے رعائتی احکام ملیں گے یا پھر اس ادارے کے مورال کے معاملہ کے تحت اگر قابلِ گرفت کیا بھی جائے تو پسِ پردہ ہی ہوگا، یا کئی طرح کی وقتی ضرورتوں کے تحت یا یہ کہ اس کی تربیت پر بڑا خرچہ ہوا ہے لہذااسے سزادی گئی تو کوئی نیا بندہ یہاں تک پہنچنے کے لیے بڑاوقت لے گا، اسی رعایت کے تحت معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے،لیکن اگر کسی عوامی بندے سے لاعلمی میں یا سہواًیا کسی ظالم وجابر کے ظلم سے تنگ آکرکوئی ایساکام سر زد ہوجائے،جو عوامی مفاد کے خلاف ہو یا سرکاری ملازمین کی آنر کے خلاف ہو،یا قومی املاک سے متعلق ہو تو پھر اللہ دے اور بندہ سہے،راتوں کوبچوں اور والدین کے سامنے اٹھا لیا جاتا ہے،  تھانوں اور عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، اور کئی سالوں تک جیلوں میں سڑتا رہتا ہے، تب جاکر عالمِ بالا سے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے یا اسے درد ناک زندگی سے نجات مل جاتی ہے،۔ کیوں اس لیے کے ہماری بے بس قوم کو یہودو نصاریٰ نے ایسے جال میں پھنسایا ہے کہ یہ اپنے دین سے بے بہرہ، اپنی قوم سے لا تعلق، اپنے رسم ورواج سے متنفر ہوچکے ہیں،انہیں شعورہی نہیں کہ قوم ومعاشرہ وہ نہیں ہوتا جو سمندر پار بیٹھے جانوروں کی نقل کرے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو اپنی زمین ومعاشرت سے آگاہ ہو، ہمارایہ المیہ ہماری دونسلوں کو کھا گیا،اور اب تو خداخیرکرے ان میں اپنی ذات تک کا شعور نہیں رہا، قومی شعور تو دور کی بات ہے، ہماراعلمی تقاضایہ بن گیا ہے کہ جس کے پاس اس زمانے کا علم ہے وہ چاہے کوئی”کھوتا“ہی ہے، وہ ملکی اور قومی اختیارکا وارث ہے اور پھر علم بھی لوگوں نے خریدنا شروع کردیا،آج اس ملک کے تمام بڑے بڑے عہدے دارجو عالمی علوم کی ڈگریوں کو خرید کر اس قوم پرمسلط ہو جاتے ہیں انہیں اپنے ملک ومعاشرے کا، اپنے دین کا واجبی ساعلم بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ اگر وہ ملک ومعاشرے اور اسلام کے علم سے آگاہ ہوں گے تو شاید کبھی انہیں ان کا ضمیر اس راہ پر چلنے کے لیے مجبورنہ کردے،جو اس  قوم اور ملک کی راہ ہے، لہذااس ملک کے بے عقل عوام کو بتا یا جاتا ہے، جو انگلش بول سکتا ہے، وہ ہی لیڈرہے اسی عالمی دنیا مانتی ہے، لیکن کیوں مانتی ہے؟ اس لیے کہ وہ ان کے لیے اس قوم کو سدھائے ہوے تیترکی طرح عالمی جال میں پھنسانے کے لیے جمع کرلیتا ہے،کاش اس قوم کو اتنا علم ہوجائے کہ آزادی کے قوانین صرف اسلام کے پاس ہیں، اور اسلام ہمارا دین ہے،لہذاہر اس تیتر کی آوازپر نہ نکلیں جو اسلامی قوانین کے بغیر آزادی کی راہ دکھا رہا ہے، لہذاساری قوم بشمول ملازمین کے خدارااسلامی قوانین کے لیے آزادی مارچ کریں، جب تک ہمیں اس کافرانہ قانون سے آزادی نہیں ملتی ہم کسی آزادی مارچ سے آزادی حاصل نہیں کرسکتے،یہ ستر سال قبل ملنے والی آزادی تو صرف انہیں کو ملی جو اس جنگِ آزادی میں شامل ہی نہیں تھے، یعنی سرکاری ملازمین کو،جو انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں شریک نہ تھے۔  بقول محسن بھوپالی۔نیرنگی ِ سیاستِ دوراں تودیکھیے،منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے ۔وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*