شکریہ "مجبور" اختر مینگل ! گمنام لکھاری

شکریہ مجبور اختر مینگل ! گمنام لکھاری

تحریر : گمنام لکھاری
(یہ تحریر لکھنے والے نے درخواست کی ہے کہ اسکا نام مخفی رکھا جائے)

توبہ تائب ہونے کے بعد آج ایک ایسی کنفیوزن پر لکھنے جارہا ہوں جو شاید پہلے کبھی کُھل کر نہ لکھا ہو, اس کنفیوزن کی وجہ آج ٹویٹر پر ” شکریہ اختر مینگل ” کے ہیش ٹیگ پر چلنے والا ٹرینڈ ہے جس میں بجائے شکریہ کے بلوچ نوجوان اختر مینگل کو آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں.

ایک بات تو واضح ہے بلوچستان میں اب سیاست کی گاڑی کا اسٹیئرنگ قائدین کے بجائے بلوچ نوجوان کے پاس ہے. اگر بلوچ نوجوان چاہیں گے کہ گاڑی مشرق کی طرف مڑنی چاہیے تو مطلب مڑنی چاہیے اور اگر مغرب کی طرف مڑنی چاہیے تو مطلب مڑنی چاہیے, اگر ڈرائیور (سیاسی قیادت ) نے ایسا نہ کیا تو نوجوان اسے ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر گاڑی سے اتار دیتے ہیں. اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدانوں کیلئے اتنے مسائل اور مشکلات نہیں ہیں جنتی مشکلات قوم پرست سیاسی پارٹیوں اور قوم پرست سیاسی قیادت کیلئے ہیں.

اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں.
==================================================

شکریہ مجبور اختر مینگل !

قارئین سوچ رہے ہونگے کہ شکریہ کے بعد مجبور لکھنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی, یقینا اس پر سوچنا چاہیے اور سوچنا بنتا بھی ہے جسکی وجہ بھی بتا دیتا ہوں. دراصل اختر مینگل سے نوجوان جو امید لگائے بیٹھے ہیں وہ ہے قومی مفاد, اور بلوچ قومی مفاد بہت وسیع ہے, جبکہ اختر مینگل صاحب اسے سیاسی انداز سے حل کرنا چاہتے ہیں اور چاہ رہے ہیں. مگر مسئلہ یہ ہے کہ اختر مینگل بلوچ نوجوانوں کی امنگوں پر کیسے پورا اتر سکیں کیونکہ انکے مطالبات تو یہی ہیں کہ بلوچستان سے جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں وہ فوری طور بازیاب کرائے جائیں, ایف سی کا بلوچستان سے فوری طور انخلا ہونا چاہیے, یقینا اختر مینگل بھی ایسا ہی چاہتے ہونگے مگر اختر مینگل اپنی بات منوانے کیلئے دن رات جدوجہد کرنے کے باجود اسٹیبلشمنٹ, وفاق اور عدلیہ سے اپنی بات نہیں منوا سکتے جبکہ ایسی صورتحال میں اختر مینگل خود بھی مجبور ہیں.

دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کا اختر مینگل پر شدید پریشر ہے کہ وہ ہمارے سب سے اہم انہی دو مطالبات پر عملدرآمد کرائیں جبکہ یہ تقریبا ناممکن ہے. ناممکن اس لئے کہ ریاست جنہیں لاپتہ کرتی بھی ہے تو انہیں ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شک میں لاپتہ کرتی ہے. اب ریاست جسے لاپتہ کرلے اور یہ کہ اسکا ریاست مخالفت سرگرمیوں میں ملوث ہونا پایا بھی جائے تو ایسے فرد کو ریاست کبھی بھی بازیاب نہیں کرسکتی. ایسے فرد کو بازیاب کرنے کا مطلب ہوگا کہ ریاست اسے ریاست مخالف سرگرمیوں میں کام کرنے کا ایک اور موقع فراہم کر رہی ہے.

جبکہ بلوچ چاہتے ہیں ریاست ہر فرد کو صرف شک کی بنا پر لاپتہ نہیں کرسکتی, اگرچہ کوئی ریاست مخالفت سرگرمیوں میں ملوث ہے بھی تو اسے عدالت میں پیش کرکے سزا دلوائی جائے مگر کم از کم عدالتوں میں ضرور پیش کیا جائے. جہاں تک ایف سی کا بلوچستان سے انخلاء تو یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے. ریاست نہیں چاہتی ہے کہ وہ سیکورٹی کے معاملات سے دستبردار ہوجائے کیونکہ اس طرح حالات مزید بگڑ سکتے ہیں. ریاست حتی الامکان یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح بلوچ نوجوان کو ملکی سوچ والے دھارے کی طرف لایا جائے اور مطمئن کیا جائے مگر ریاست معمول سے ہٹ کر وہ پیکجز بھی ابھی تک فراہم نہیں کرسکی کہ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت مطمئن ہوسکے. ایسے دعوے اور وعدے بھی ابھی تک خلاء میں معلق ہیں.

اختر مینگل کو ایک طرف سیاسی مشکلات کا سامنا ہے جو بار بار کوشش کرنے کے باجود اپنے مطالبات تسلیم نہیں کروا سکے جبکہ دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کی طرف سے شدید پریشر ہے جس سے اختر مینگل کی سیاست ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے. اس کنفیوزن کا شکار اختر مینگل نے خود کو خود بنایا ہے. اختر مینگل کھل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ نوجوان آزادی چاہتے ہیں اور نہ کھل کر آزادی کی نفی کر سکتے ہیں کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں ہمیں مزید کسی آزادی کی کوئی ضرورت نہیں ہے. لہذا اپنی توجہ آزادی سے ہٹا کر اپنے صوبائی مسائل پر مبذول کریں. اگر اختر مینگل کھل کر ایسا کہتے ہیں تو شاید وہ اپنے ہی حلقے سے کونسلر کا الیکشن بھی نہ جیت سکیں. اختر مینگل اس وقت انتہائی مجبور ہیں جو اپنے فیصلوں سے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کر پارہے ہیں اور نہ ہی بلوچ نوجوان کیلئے امید بن پارہے ہیں.

اگر قارئین یہ سوال کرنا چاہیں کہ کیا واقعی بلوچ نوجوان آزادی چاہتے ہیں تو اس کا سادہ سا جواب تو یہی ہوگا کہ آپ اسے آزادی نہ ہی سمجھیں مگر وہ بلوچستان سے ایف سی کا انخلا چاہتے ہیں. اور اپنے وسائل و معدنیات کو بلوچستان سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتے. ایسے میں اگر ریاست زبردستی کرتی ہے تو وہ آزادی کے نعرے لگائیں گے اور اپنے حقوق کیلئے بندوق کا سہارا بھی لینگے جسے بغاوت ہی کہا جائے گا. اور اسی بغاوت پر ریاست تو انہیں لاپتہ کرلیتی ہے. جب مجھ جیسے عام انسان کو محض لکھنے کی بنا پر, حالانکہ وہ بہتر جانتے ہیں میں مدلل گفتگو کرنے والا انسان ہوں اور آج تک کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا کہ جسے بنیاد بنا کر مجھ پر ہاتھ ڈالا جائے یا مجھے لاپتہ کیا جائے مگر اسکے باوجود مجھے کئی مرتبہ انتہائی پیار و محبت اور اچھے ماحول میں رہتے ہوئے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپکے لکھنے کی وجہ سے نوجوانوں پر اثر پڑسکتا ہے. کبھی کبھار تلخ بھی ہوئے ہیں مگر پھر یہی سوچ کر کہ بندہ ٹھیک ہے بس تھوڑا اپنے لوگوں کے درد کو زیادہ محسوس کرتا ہے اس لئے ہم پر تنقید کر جاتا ہے. اسی لئے وہ اکثر پیار و محبت سے مجھے بار بار سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں. مگر جو آزادی کی بات کرے یا بغاوت کرے اسے تو ریاستی ادارے اٹھا لیتے ہیں اور اٹھانے کے بعد انہیں عدالتوں میں بھی پیش نہیں کرتے جس کی وجہ سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں. اب اختر مینگل کو چاہیے کہ کھل کر آزادی والی سوچ کی نفی کرے اور اپنی سیاست کرے, یا پھر وہی مطالبات منوائے جو بلوچ نوجوان چاہتے ہیں. اگر اختر مینگل نوجوانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کروا سکتے اور قوم پرستانہ سیاست بھی جاری رکھتے ہیں تو آنے والے دن اختر مینگل کیلئے اور بھی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں. اگر اختر مینگل آزادی والی سوچ کی کھل کر نفی کرتے ہیں تو پھر انہیں اپنی پارٹی کیلئے نئے نعرے ایجاد کرنا ہونگے اس طرح بلوچ نوجوان اختر مینگل سے امید نہیں لگائے گا اور اپنی جدوجہد اپنے انداز سے جاری رکھے گا.

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*