آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

روزہ اورانجکشن : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

بندہ ناچیز کوئی مفتی یا فقیہہ نہیں ایک عام سیدھا سادہ سامسلمان ہوں،لہذاموجودہ کالم کوئی فتویٰ نہیں بلکہ مفتیان وفقہائے عصر سے صرف راہنمائی کے لیے چند گزارشات ہیں۔ جن کومیں  اپنے عقل وفہمِ نارسا کے مطابق دین کی سربلندی اورتوقیر سمجھتاہوں۔ خدانخواستہ کسی صاحب علم وتحقیق کی اس میں کسی توہین کا شائیبہ تک بھی ہوتو پہلے  سے معافی کا خواست گار ہوں۔سابقہ چند سالوں سے جب کہ انگلش میڈٖیکل سسٹم نے اہلِ اسلام کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں جھکڑ لیا ہے۔بہت سی چیزیں ایسی عیاں ہورہی ہیں کہ جو شاید اسلام میں پہلے قابلِ قبول نہیں تھیں،مثلا جیسے بچوں کو ماں کے دودھ سے روکا گیا کہ اسطرح موروثی امراض لگنے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں،اوراب کزنز یعنی خالہ پھوپھی زاد سے شادی سے روکا جارہا ہے۔ جو اسلام کے خلاف ہے،لیکن اب چندسالوں سے ماں کے دودھ کی ترغیب دی جارہی ہے،اسی طرح آج کل ڈاکٹر حضرات احتمالِ مرض کے پیشِ نظرروزہ رکھنے  سے بندے کوروک دیتے ہیں۔شاید اسی تناظر میں ہمارے علماء نے انہیں چندسالوں سے بیماری کے دوران انجکشن یاڈرپ تک کو مفسدِ روزہ نہ  ہونے کے فتوے صادر فرما دیئے ہیں۔انہیں میں سے علمائے اہلسنت کے چند اداروں نے بھی اپنے فتاویٰ میں اپنے دلائل سے انجکشن اور ڈرپ کو مفسد روزہ نہیں قرار دیا۔دلائل یہ ہیں کہ روزہ منافذِ اصلیہ یعنی منہ ناک  یا فرج وغیر ہ سے کسی چیز کا پیٹ میں داخل ہونا مفسدِ روزہ ہے،اور بعض نے وہ منافذ جو معدہ  میں کھلتے ہیں،یا جن کے ذریعے چیزدماغ میں داخل ہوتی ہے،اوریہ دماغ میں ان کی مراد نشہ آور چیز کا جانا ہے،حالانکہ سوائے سونگنے والی منشی اشیا ء کے باقی ساری منشیات خون یا اعصاب کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہیں،مثلا سگریٹ کا دھواں دماغ میں نہیں جاتا اور نہ ہی معدے میں جاتا ہے،بلکہ وہ تو پھیپھڑوں میں جاتا ہے،اور وہاں سے بذریعہ گردشِ خون دماغ کی حسِ نشہ کو محسوس ہوتا ہے،ایسے ہی نسوار جو نہ بندہ پیٹ میں اتارتا ہے،ا ور نہ ہی  اسے بذریعہ سانس پھیپھڑوں تک لے جاتا ہے،لیکن وہ منہ سے بھی وہ بذریعہ عصبی نسوں کے دماغ کی  نشہ کی حس کو سکون پذیر کرتی ہے،حالانکہ منہ میں کسی چیز کے رکھنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کہ ہم دن میں کم ازکم پانچ بار تو منہ میں کلی کے لیے پانی ڈالتے ہیں،اور پانی بھی بذریعہ عصب اپنی تراوت دماغ تک پہنچاتا ہے،چلوجنسی عمل سے روزہ کے فاسد ہونے کا حکم نص سے موجود ہے۔لیکن اگر انجکشن لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور بعض علمانے تو ڈرپ بھی لگانے سے روزہ فاسد نہ ہونے کا فرمادیا ہے،بلکہ کسی ایک نے تو روزہ کے دوران قوت بحال رکھنے کے لیے بھی انجکشن یا ڈرپ لگانے کو صرف مکروہ قراردیا ہے۔میرا ایک معصومانہ یا پھر آپ اسے جھلا سا سوال کہہ لیں،کہ جب اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ نے بیماری کی حالت میں اورعورتوں کی ماہواری میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دے رکھی ہے  اور قران پاک میں ہے ”کہ یہ گنتی کے دن ہیں  پس جو لوگ تم میں سے بیمار ہیں  یا سفرپر ہیں پس وہ گنتی پوری کرلیں دوسرے دنوں میں،اورجو طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں ایک مسکین کو کھانا کھلا کر“تو علماء پھر بضد کیوں ہیں کہ ہم روزہ ضرور رکھیں گے،اوراس میں کچھ دلائل کے ساتھ علاج بھی کراتے رہیں گے،اوروزے کا ثواب بھی اللہ سے لیں گے۔میرے آقا ﷺنے فرمایا ہے کہ روزہ رکھنے میں آخری وقت تک کھاتے پیتے رہو، اورسورج غروب ہوتے ہی  افطار کردو،کیوں اس لیے کہ بندہ روزے کو اپنی حدود سے بڑا کرکے زیادہ ثواب کا امیدوار نہ بنے اسی طرح جس معاملے میں اللہ نے رخصت دے رکھی ہے اس میں اپنی خواہش کے ساتھ راہ بنا لینا جہاں کچھ لوگوں کو احترامِ روزہ کی تحریص ہوگی وہاں ہی مفسدانِ امت بھی اس سے راہ نکال لیں گے، کہ جب انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو پھر انجکشن سے نشہ کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، لہذاتمام نشئی جو انجکشن لیتے ہیں،وہ روزے بھی رکھ لیا کریں گے اورنشے والا انجکشن بھی لگالیا کریں گے۔ہمارے علاقے میں ا یک چوہدری صاحب تھے،وہ نسوار کے عادی تھے، ایک رمضان میں ایک میاں صاحب کے ساتھ جارہے تھے، توجیب سے نسوار نکالی اور منہ میں ڈال لی، میاں صاحب نے کہا آپ  کاروزہ نہیں،تو بولے روزہ ہے تو میاں صاحب نے کہا پھر نسوار بھی ڈال لی ہے،تو چوہدری صاحب نے کہا یہ میں ابھی تھوک دوں گا۔یہ میں  نے کوئی پیٹ میں تھوڑی اتاری ہے، حالانکہ اس زمانے میں ابھی یہ فتویٰ بھی نہیں آیا تھا،کہ پیٹ میں نہ جائے دماغ میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔لہذابالخصوص علمائے اہلِ سنت سے عرض ہے کہ ڈاکٹر کی اتباع میں چل کر لوگوں کو احترامِ رمضان پر لگانے کے خیال  میں کہیں آپ  توہینِ رمضان تو نہیں کررہے،؟ ذرا غور فرمائیں  اور درجِ بالا معروضات کے حوالے سے یہ فقہی خطا آپ کوشاید ایک ثواب کا حقدار بھی نہ بنائے۔انجکشن مالش وغیرہ کی تاویل میں نہیں آسکتا چونکہ مالش سے اورنہانے سے پہنچنے والا اثرجلد  سے جذب ہوتا ہے جبکہ انجکشن  جلد سے انجذاب نہیں کررہا بلکہ وہ سیدھا اندرکے گوشت اور خون میں جاتا ہے،جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ کوئی نشئی اپنی نشہ آور چیز کو جلد پر جذب کرکے نشہ نہیں کرسکتا بلکہ وہ اسے جسم میں انجکشن کے ذریعے داخل کرکے استفادہ کرسکتا ہے۔لہذاانجکشن  لینے والے لوگوں کو روزہ کی رخصت پررہ کر فدیہ دینا چاہیے،اورفدیہ اپنی حیثیت کے مطابق دیں نہ کہ عمومی فدیہ دیں۔اور احترامِ رمضان  بھی بھرپور کریں کہ روزہ داروں کی طرح ،سحری اور افطاری  بھی کریں  کہ یہ بھی میرے آقائے کریم ﷺ کا حکم ہے کہ سحروافطار بچوں اور ایسے بوڑھوں کو بھی شریک کرو کہ جوروزہ نہیں رکھ سکتے، کہ اس سے ان کو بھی برکت حاصل ہو۔ تو اللہ کریم  آپ کو روزہ کا مکمل ثواب بھجی عطا فرما دیں گے کہ حکمِ الٰ ہی کی تعمیل اور احترامِ رمضان دونوں آپ نے کرلیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے روزے اللہ اوراللہ کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق رکھنے اور اس ماہ کا کما حقہ احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور میں اپنے علماء سے اس گستاخانہ سوال پر معافی کا خواستگار بھی ہوں، میرامقصود بھی اسلام کی سربلندی ہی ہے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی اورتمام اہل اسلام کو راہِ  ہدایت پہ قائم رکھے آمین۔وما علی الاالبلاغ۔ 

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*